گرادیں مسجدیں تیری, نہ تیرا خون گرمایا— بلال شوکت آزاد

آج 6 دسمبر ہمارے سینے پر موجود 26 سالہ پرانے زخم کے ہرا ہونے کا دن ہے۔جی ہاں بابری مسجد کو انتہا پسند اور دہشتگرد بھارتی ہندوؤں کے ہاتھوں شہید ہوئے آج 26 سال ہوگئے ہیں۔یہ 26 سال صرف وقت نہیں, یہ ایک بے بسی اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کی داستان ہے۔بابری مسجد جو کہ ہماری عظمت رفتہ کی نشانی تھی, جو اس بات کا استعارہ تھی کہ ایک ہزار سال تک اس سرزمین ہندوتوا پر اسلام کا پرچم کس آب و تاب اور تابناکی سے لہراتا رہا ہے۔بھارت جس کے چپے چپے پر اینٹ اٹھائیں تو کوئی نا کوئی من گھڑت دیوی دیوتا نکل آتا ہے, کل وہاں ایودھیا میں رام کی جنم بھومی کی آڑ میں مسجد بابری نشانہ بنی آج آگرہ میں تاج محل سے متصل مسجد نشانے پر ہے اور دستیاب خبروں کے مطابق اس وقت وہاں نماز پر سٹیٹ رول کی وجہ سے پابندی ہے, انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اسی بابری مسجد کی شہادت جو کہ  عین بیسویں صدی کے آخری عشرے میں وقوع پذیر ہوئی دراصل ایک گریٹ گیم تھی طاغوت کی, ایک ٹیسٹر تھا جو مسلمانوں کی غیرت اور حمیت کو ماپنے اور اگر تھوڑی بہت ہے تو اس کو  دبانے کی خاطر انجام دی گئی۔آپ مانیں یا نہ مانیں پر اس مسجد کی شہادت کو وہ بھی ایک سیکیولر ریاست کی دیکھ ریکھ میں یوں ملیا میٹ کرنا دراصل آغاز تھا کہ اکیسویں صدی کے آغاز تک مسلمان بدنام ہوں سو ہوں پر کمزور بھی ہوجائیں۔اسی سانحے پر مسلمانوں کی دل آزاری تو رہی ایک طرف بعد میں ابتک سرعام قتال بھی جاری ہے بھارت کے چپے چپے پر۔

کبھی گاؤ ماتا کے نام پر, کبھی دیوی دیوتاؤں کے نام پر, کبھی اسلام فوبیا کے نام پر اور کبھی ریاستی و مذہبی دہشتگردی کے نام پر, ہاں مسلمان ہر روز کٹ رہا اور لٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت میرے ان الفاظ کے لکھنے تک جاری و ساری ہے۔ہندو یہود کے بعد دوسری وہ قوم ہے جس کو انسانیت سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی مذہبی رواداری ان کے خون میں ہے البتہ زمین کے نیچے سے وار ان کی خصلت میں شامل ہے اور شومئی قسمت اس وقت عالمی اجارہ داری کے یہ دونوں مشترکہ سٹیک ہولڈرز ہیں۔مسجدوں کی بے حرمتی اور شہادتوں سے جو سفر جو بات شروع ہوئی تھی وہ اب تلک مسلمانوں کی بے حرمتی اور شہادت پر بھی ختم نہیں ہوئی۔کہیں ممبئی کی سڑکوں پر مسلمان نوجوان کٹ رہے ہیں تعصب اور مذہبی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ کر اور کہیں نابینا مسلمان عزت ماب بہن بیٹیا چلتی ٹرینوں میں سرکاری ملازمین کے ہاتھوں بے آبرو ہورہی ہیں۔

سیکیولرزم اگر اس مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کا نام ہے تو میں بطور پاکستانی مسلمان اللہ کا لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم اور ہماری ریاست اس منحوس سیکیولرازم سے فلوقت محفوظ ہے اور کسی نے مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی اور دیگر اقلیتی مذاہب کی خوشحالی اور ترقی اور آزادی اگر قریب سے دیکھنی ہوتو وہ پاکستان آئے اور یہاں کا مشاہدہ کرے۔میں نہیں کہتا کہ 100% حالات زبردست ہونگے پر اتنا یقین ہے کہ 95% اقلیتی مذاہب کے پیروکار پاکستانی نہایت آسودہ حال اور محفوظ و ممنون ہیں۔

قائداعظم نے غلطی کی یا نیکی آج دائیں اور بائیں بازو کے حامل دانشور ان بحثوں میں خود بھی الجھے ہوئے ہیں اور قوم کو بھی الجھایا ہوا ہے پر کوئی بھارت سمیت کسی بھی سیکیولر ریاست سے موازنہ کرنے کو تیار نہیں اور ماننے کو تیار نہیں کہ ہم بیشک کسی غلطی کا نتیجہ ہوں یا نیکی کا پر اس وقت دنیا پر ہم ہی وہ واحد ریاست رکھتے ہیں جہاں بیرونی سازشیں اور اپنوں کی ریشہ دوانیاں اگر ختم ہوجائیں اور غیر ملکی مداخلتیں ختم ہوجائیں تو پاکستان دنیا میں خطہ جنت نظیر ہے اور ہوگا, بیشک میری یہ بات کسی جگہ لکھ لیں۔

بھارت میں نہ مسجدیں محفوظ ہیں, نہ چرچ نہ گردوارے, نہ مسلمان, نہ عیسائی اور نہ سکھ تو کاہے کی سیکیولر ریاست اور کیسا ان بھارت مہان اور کیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت؟

ارے بھارتی اونچی ذات کے ہندو تو دلت اور دیگر نچلی ذات کے ہندوؤں کی جان کے دشمن ہیں جو انہی کہ ہم مذہب ہیں تو وہاں کسی اور مذہبی اقلیت کی وقعت کیا اور گنجائش کہاں؟

پاکستان میں کتنے مندر کسی بھی مسلک کے حامل مسلمان گروہ نے مسمار کیئے ہیں کوئی لبرل اور بھارت نواز دانشور بتائے؟

پاکستان میں کتنے گردوارے کسی بھی مسلک کے حامل مسلمان گروہ نے مسمار کیئے ہیں کوئی لبرل اور بھارت نواز دانشور بتائے؟

پاکستان میں کتنے کلیسا کسی بھی مسلک کے حامل مسلمان گروہ نے مسمار کیئے ہیں کوئی لبرل اور بھارت نواز دانشور بتائے؟

پاکستان میں کتنی مذہبی عمارتیں خواہ کسی بھی اقلیتی مذہب سے ہوں کسی بھی مسلک کے حامل مسلمان گروہ نے مسمار کیئے ہیں کوئی لبرل اور بھارت نواز دانشور بتائے؟

ہاں سوفیصد شاید ایسا نہ ہو پر پانچ فیصد کا احتمال رہے گا بلکہ میں وسعت نظری اور راست بازی کی وجہ سے رکھوں گا۔

قادیانیوں کے حوالے سے اس ملک میں نفرت اور حقارت کا آپ اور میں درست اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن کیا ایک ربوہ اور اس میں موجود عمارتیں اس بظار مذہبی ریاست کے مسلمان باوجود اکثریت میں اور حق پر ہونے کے باوجود کیوں مسمار نہیں کردیتے؟

وجہ ہے اسلامی رواداری اور نظریاتی فرق۔

جی ہاں یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیکیولرزم ہو, لبرلزم ہو, سوشلزم ہو یا کوئی بھی من گھڑت انسانی ساختہ ازم ہو یہ انسان کو وہ تحفظ اور وہ قوت اور وہ حکمت و مصلحت سے پر نظام اور معاشرت دینے میں بلکل ناکام ہوچکے ہیں جو اسلام نے آکر اس سے پہلے باطل نظاموں کو مٹاکر دیا اور جو آج بھی مشعل راہ ہے۔

سارا مغرب محمد لاء, ابوبکر لاء اور عمر لاء کے تحت چل رہا ہے لیکن تیسری دنیا میں ابتک وہی بیسویں صدی کے خودساختہ فرسودہ نظام رائج ہیں بشمول پاکستان لیکن پاکستان پر یہ برکتیں اور رحمتیں اسلام کی بدولت ہیں کوئی مانے یا نہ مانے۔

قادیانی جب تک مسلمانوں کے جذبات سامنے سے آکر مجروح نہ کریں اور اپنی عبادات و نظریات کے ساتھ اپنی حدود و قیود میں آزادی سے رہیں جیسے دیگر مذہبی اقلیتیں رہتی ہیں تو ان کو کسی مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں پر یاد رکھیں اگر قادیانی تو رہے ایک طرف دیگر اقلیتی مذاہب کے پیروکار بھی امن و آشتی کی روش چھوڑ کر شیطانی اور شرارت کریں گے تو یقیناً یہ قوم پھر جذباتی بھی بہت ہے جو برداشت نہیں کرے گی اور آسیہ مسیح جیسی مثال بھی بن سکتی ہے یہ بعد کی بات ہے کہ ریاست محافظ بن کر بیچ میں آجائے۔

کہنے کا مطلب یا حاصل بحث یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مندر, چرچ, گردوارے اور تو اور بیت الحکمت نامی قادیانی عبادت گاہیں بھی محفوظ ہیں اور تمام اقلیتوں کو امن کے ساتھ بغیر شیطانی کیئے رہنے چلنے پھرنے غرض ہر طرح کی مذہبی اور آئینی آزادی ہے پر بھارت اس معاملے میں ناکام رہا ہے اور وہ قطعی سیکیولر نہیں بلکہ ایک عدد شدت پسند مذہبی دہشتگرد ریاست ہے جہاں مسلمان, سکھ اور عیسائی اور ان کی عبادت گاہیں اور جائیدادیں بلکل محفوظ نہیں۔

بابری مسجد ایک آئی اوپنر کیس تھا لیکن افسوس اس نے بھارتی شدت پسند مذہبی دہشتگرد ہندوؤں کی تو آنکھیں کھولیں مسلمانوں کے خلاف لیکن مسلمانوں کی اپنے حق میں بھی آنکھیں نہیں کھلیں تو زبان کیسے کھلے ایسے بہیمانہ جرم اور انسانی سانحے پر۔

Advertisements
julia rana solicitors

بابری مسجد کی شہادت جہاں بھارت کے سیکیولر ہونے پر سوالیہ نشان ہے وہیں مسلمانوں کی فطری و ازلی غیرت و حمیت اور مذہبی طاقت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply