• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیدنا محمدﷺ ، زمانہ جدید کے پیغمبر۔۔۔۔نور مجسم، نیّر عالم، سرور اعظم/ سائرہ نعیم۔۔۔۔مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

سیدنا محمدﷺ ، زمانہ جدید کے پیغمبر۔۔۔۔نور مجسم، نیّر عالم، سرور اعظم/ سائرہ نعیم۔۔۔۔مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

اس دنیا میں بقاء انفع کا اصول رائج ہے یعنی جو چیز نفع بخش ہے وہ تو باقی رہتی ہے اور جو نافع نہیں ہے وہ اپنی جگہ خالی کر دیتی ہے۔ جس طرح موتی سمندر میں رہ جاتا ہے اور جھاگ ضائع ہو جاتی ہے،اسی طرح انسانی معاشرے میں نافع چیز اپنی  بقا کا سامان رکھتی ہے اور غیر نافع اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے۔ یہ اصول ہر شعبہ حیات میں جاری ہے- قرآن میں اللہ تعالی  فرماتے ہیں۔۔

درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ص میں ایک بہترین نمونہ تھا- ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے-“ (سورہ احزاب ۲۱)

دور جدید میں انسان کے پاس دنیا مسخر کرنے کے بے تحاشا ذرائع ہیں جن کو وہ استعمال بھی کر رہا ہے لیکن پھر بھی وہ انصاف، خوشحالی، اطمینان و سکون، وحدت اور حقانیت کا متلاشی ہے- یہ تلاش اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ سیرت النبی مصطفی ص کا گہرا مطالعہ کرتا ہے۔ یہاں اسے انسانی تمدن کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کے ساتھ وہ گوہر نایاب ملتے ہیں جو زندگی ختم ہونے کے بعد بھی اس کے ساتھ رہتے ہیں۔
الجھے ذہن، مسائل کے انبار لئے جب اخلاص سے رجوع الی اللہ کرتے ہیں تو اللہ تبارک تعالی دلوں میں رہنمائی  کی شمع روشن کرتے ہیں، قرآن و حدیث کے مطالعے کی توفیق ملتی ہے اور راہیں منور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اپنے موقف پر قائم رہنا اور اسکے لئے سختیاں سہہ  جانا بلند کردار لوگوں کا ہی شیوہ ہوتا ہے اور نبی کریم ص کی پوری زندگی اسکا ثبوت ہے۔ آپ ص نہایت شیریں گفتار اور ٹھنڈے دماغ سے مسائل کا حل نکالنے والے انسان تھے-

بچپن سے یتیمی کا داغ انسان کو بہت سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن سیرت میں یہ خامی خوبی میں تبدیل ہو جاتی ہے یعنی نبی محترم ص کا دل بے حد نرم اور دوسروں کا دکھ محسوس کرنے والا تھا۔ معاشرے کے یتیم بچے ، مظلوم انسان نیز ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی ہدایت، انکی ناگوار باتوں کو  برداشت  کرنا اور اپنی بات کیسے منوانی چاہیے؟ ۔۔۔ یہ سب باتیں ہمیں سیرت کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک نو عمر لڑکے نے اسلام قبول کرلیا جس پر انکی والدہ ان سے شدید ناراض ہو گئیں اور قسم کھا لی کہ اس وقت تک کچھ بھی نہ کھائیں گی جب تک کہ وہ اپنے دین پر واپس نہ آجائے۔ لڑکا بہت پشیمان ہوا بوڑھی والدہ زیادہ دیر تک بھوکی پیاسی رہیں تو مزید بیمار ہو جائیں گی- وہ رسول اللہ ص کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور مسئلہ بیان کیا ،” تو تم بھی انکے ساتھ بھوک ہڑتال میں بیٹھ جاؤ” ، پیکر رحمت نے مسکرا کر فرمایا۔ “میں بھی؟” حیران آواز آئی ۔”ہاں! دیکھنا وہ فوراً ۔۔ تمہارے لئے کھانا لے آئیں گی ، پھر دونوں مل کر کھا لینا”۔ پیکر حکمت اور رحمت سے اچھا مشورہ تو کسی کا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ لڑکے نے یہی کیا تو والدہ بیٹے کو بھوکا نہ دیکھ سکیں- پوچھا ایسا کرنے کو کس نے کہا تھا؟ کہا “محمد  ص نے!”لڑکا منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے  بولا “ اچھا !یہ دین تو بہت ہی خوبصورت ہے جس میں انسانوں کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے’ چلو میں بھی تمہارے  نبیﷺ  کے ہاتھوں اسلام قبول کرتی ہوں “ ۔ یہ ہمارے نبی ص کی سیرت ہے-

آج کا انسان صحت اور صفائی کے بارے میں بہت محتاط ہے- ہمارے پیارے نبی نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا- خوبصورت چمکدار دندان مبارک، سلیقے سے بنے ہوئے گیسوء مبارک، صاف ستھرا لباس اور کشادہ چہرے پر سجی مسکراہٹ نبی محترم کا انداز تھا اور اسکو ہی دین کی بنیاد قرار دیا- فرمایا۔ “مسکرانا بھی صدقہ ہے “ (متفق علیہ) ۔ تمام اسلامی عبادات صفائی کے اصولوں کے عین مطابق ہیں- مثلاً وضو میں جسم کے جو اجزاء دھوئےجاتے ہیں ان میں جراثیم تیزی سے نشو و نما پاتے ہیں یہ آج کے سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد بتایا ، جس کو میرے نبی نے چودہ سو سال پہلے ہر نماز سے پہلے لازم قرار دیا- غسل کرنے کا جو طریقہ بتایا وہ بھی نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی طہارت کا ذریعہ ہے- غصہ انسان کے جسم پر انتہائی برے اثرات ڈالتا ہے ، اس کو حرام قرار دیا اور فرمایا “ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ، اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور بیٹھے ہوۓ ہو تو لیٹ جاؤ یعنی اپنی جگہ تبدیل کر لو اور پانی پی لو” ۔

ہر دور میں معاشی جدوجہد ایک کٹھن کام رہا ہے ۔ سنت رسول صلعم میں تجارت اور معیشت کے اصول طے فرما دیے  گئے ہیں جس پر آج کا مہذب اور جدید معاشرہ تجربہ کر کر کے پہنچا ہے- سود کو حرام اور نیک نیتی اور ایمان دارانہ تجارت کی تلقین کی گئی جو آج کے ماہر معاشیات بڑی تحقیق کے بعد سمجھے ہیں کہ سود سے مال بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے۔

آج کا جدید انسان صبح اٹھنے اور ورزش اور تیراکی کرتا نظر آتا ہے اور میرے نبی محترم نے دن کا آغاز فجر کی نماز کو فرض کرکے انسان کو صبح اٹھنے کو لازم قرار دیا اور اور اسکے بعد ہر طرح کی ورزش تیراکی، گھڑ سواری، تیر اندازی ، چہل قدمی اور صبح کی سیر ( مارننگ واک ) کی تاکید کی- آج کی دنیا کے لوگ اپنے بڑھے ہوۓ وزن سے پریشان ہیں اور میرے نبی نے کم کھانے کی سنت کو رواج دیا – آج کا انسان جلدی سونے کو ضروری قرار دیتا ہے اور اسلام نے اسکی تاکید صدیوں پہلے کردی تھی ۔

آج کا انسان “early to bed and early to rise, makes a man healthy wealthy and wise “ کی نصیحتیں کرتا نظر آتا ہے اور اسلام نے میرے نبی مہربان کے ذریعہ ہمیں یہ سنہرا اصول عطا فرمایا -آپ ص نے فرمایا
“ میری امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت رکھ دی گئی ہے”۔ (سنن ابن ماجہ)۔ جدید سائنس ان ہی سب چیزوں کی تلقین کرتی نظر آتی ہے ۔
ہماری ذہنی پسماندگی جدید عصری علوم کے بالمقابل علم سنت کی روشنی کو مانند کر دیتی ہے-

عصری علوم کی افادیت زمانہ اور ملک کی ضروریات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے لیکن کائنات کی ترقی اور انسانی تمدن ان علوم سے وابستہ ہے ،چنانچہ دنیا میں رائج تمام علوم مثلاً ریاضی، کیمیا، ارضیات، حیوانیات، سماجیات، ٹیکنالوجی علوم نافع ہیں اور خالق کائنات کی معرفت کا حوالہ ہیں۔ ہمارے نبی ص نے علم حاصل کرنے کو گویا عبادت قرار دیا۔
انسانی فطرت کا خمیر محبت سے گندھا ہے۔ پیارے نبی محترم صلعم کی ذات میں محبت اور خدا ترسی بدرجہ اتم موجود تھی ۔ جہاں انسانوں سے محبت کرنے اور معاف کرنے کی تعلیم دی وہیں جانوروں کے بھی حقوق متعین کئے اور ان سے بھی شفقت کا برتاؤ کرنے کی تلقین کی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک مرتبہ نبی محمد صلعم ایک اونٹ کو پیار کررہے تھے کہ وہ رونے لگا آپ ص اس کو پیار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ چپ ہوگیا۔ پھر فرمایا “ اس کا مالک کون ہے؟” ۔ ایک صاحب آئے تو ان سے فرمایا “ اس کو بھوکا نہ رکھا کرو اور بھاری بھاری بوجھ نہ رکھا کرو ، یہ مجھ سے زیادتی کی شکایت کررہا تھا، اللہ سے ڈرو بے شک تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا”۔
درس گاہ نبوت کی یہ تعلیم انسانوں کو روشنی بخشتی ہے کہ وہ علم حاصل کریں، انسانوں کی مشکلات دور کریں اور اپنے کردار کو سنواریں نیز اپنی صلاحیت اور لیاقت کو نفع رسائی کے کاموں میں لگائیں- یہ آخرت کی سختی اور مصیبت سے بچنے کا سامان ہے – ہمارے نبی پاک ص کی سنت جدید دور کے تقاضوں کو احسن طریقہ سے پوری کرتی ہے ۔ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ اس بقاۓ انفع کے سمندر سے کتنے سیراب ہوتے ہیں #

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply