ہجر کا کالا کوّا آنکھوں میں ڈیرا ڈال کر بیٹھ چکا ہے۔پلک جھپکتی ہوں تو وہ چیختا ہے۔۔اسکی کائیں کائیں تیز ہو جاتی ہیں۔اسکی آواز بند کرنے کو میں میری پلکیں کھلی رکھے ہوئے ہوں۔اب ان آنکھوں میں نہ نیند ہے نہ سکون۔ یہ آنکھیں اب پتھر کی بن چکی ہیں۔اب ان پتھر کی آنکھوں کی منڈیر پر بیٹھے ہوئےبھی یہ کوّا چیختا ہے۔انتظار میں جلتی یہ آنکھیں اسکے پاؤں جلاتی ہیں تو یہ کائیں کائیں کرتا میری پتھر کی پتلیوں پر سر مارتا ہے۔اسکی بے چینی میری انتظار میں ڈوبی آنکھوں پر ضربیں لگاتی ہے ، تو میری روح ہجر کی آگ میں مزید شدت سے جلنے لگتی ہے۔
ہجر کا کالا سیاہ کوّا کائیں کائیں کر کے میری سماعت کو اب برباد کرتا جا رہا ہے۔یہ اپنی کالک لئے ہر دم میرے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔یہ کالا کوّا کالی بھیانک رات میں بھی, زندگی کی کالک پر بھی کائیں کائیں کرتا رہتا ہے۔میرے چاروں سمت سے اب کائیں کائیں کی آواز آتی محسوس ہوتی ہے۔۔پھولوں کی خوشبو میں, بادلوں کی گرج میں, ہواؤں میں ,فضاؤں میں, دھنک کے رنگوں میں، ہر طرف صرف اب کائیں کائیں ہے۔بارش کی بوندوں میں بھی کائیں کائیں ہے۔اس ہجر کے کالے کوّے کی کائیں کائیں میرے وجود کو ریزہ ریزہ کرتی جا رہی تھی۔۔
پھر اچانک ایک شب وصل کی کوئل امید کی کرن بن کر میری آنکھوں کی منڈیر پر وصل کا دیپ جلانے آ بیٹھی ۔کائیں کائیں پھر بھی میرے کانوں میں گونجتی رہی۔آوازوں میں ٹکراؤ تھا۔۔
سُنو ۔۔۔تو وصل کی سریلی کُوک تھی۔ محسوس کروں تو ہجر کی کائیں کائیں میرا وجود جلا رہی تھی۔آوازوں کے گنجل نے میری سوچ میں بھی گنجل ڈال دیئے۔پتھر بنی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔آنسوؤں نے ہجر کے کالے کوّے کی کالک ان آنکھوں کے ڈوروں, پتلیوں اور پلکوں سے دھو کر وصل کے معصوم دیپ جلائے بیٹھی کوئل کے قدموں میں بہانا شروع کر دی۔دھیرے دھیرے کالک دور ہوتی گئی۔کائیں کائیں بھی دھیمی ہوتی گئ۔آوازوں کا گنجل سلجھتا ہوا محسوس ہوا ۔آنکھوں میں زندگی دوبارہ لوٹ آئی۔سب نظر آنے والا تھا کہ آنسوؤں نے وصل کی کوئل کا دیپ بجھادیا۔سب منظر پھر سے دھندلا سا ہو گیا۔آنکھ اٹھائی تو انتظار کی منڈیر پر کالک لئے پھر سے کوئی ننھا وجود موجود تھا۔کائیں کائیں شاید نہیں تھی یا شاید دھیمی تھی۔شاید ہجر کا کالا کوّا نہیں تھا۔اس کالے کوّے کی ہجر کی کالک لئے بیٹھا کوئی اور وجود تھا۔۔ “وصل” بھی “ہجر” کے رنگ میں رنگ چکا تھا۔اسکی کالک میری آنکھیں جلا رہی تھی۔میں نے آنکھوں کی منڈیر سے ننھے وجود کو نوچ لیا۔اسکی آواز بھی اب کائیں کائیں کرتی محسوس ہو رہی تھی۔ہوائیں پھر سے کائیں کائیں کرنے لگی۔بادل بھی کائیں کائیں برسا رہے تھے۔پتوں کی سر سراہٹ میں بھی کائیں کائیں تیز ہوتی گئی۔میں ہجر کے کوے کے پر ایک ایک کر کے نوچتی گئی۔۔ اسکی کائیں کائیں تیز ہوتی گئی۔وہ چیختا رہا۔۔۔میں نے اسکی گردن توڑ کر اسکو زمین پر پھینک دیا۔ننھا وجود تڑپ رہا تھا۔میری روح ہجر کے گنجل سے آزاد ہو رہی تھی۔اسکی کائیں کائیں بند ہوتی گئی ۔۔مجھے سکون مل رہا تھا۔۔وہ سسک رہا تھا۔۔میری شبِ ہجر اختتام پذیر ہونے والی تھی۔۔اچانک بارش کی کائیں کائیں تیز ہو گئی ۔باقی سب کی کائیں کائیں بند ہو گی۔بارش نے ہجر کے کالے کوے کو دھو دیا۔۔اسکی کالک میرے قدموں میں تھی۔اچانک وہ کالک مکمل دھل گئی۔یہ ہجر کا کالا کوّا نہیں تھا۔۔ ہائے۔۔ہائے۔۔
یہ وصل کا دیپ جلانے والی کوئل تھی۔۔ ہجر کا کالا کوا درخت پر بیٹھا ہنس رہا تھا۔۔ہر طرف پھر سے کائیں کائیں تھی۔وہ پھر سے میری آنکھوں کی منڈیر پر آن بیٹھا۔۔پھر سے ہر طرف کائیں کائیں ہے۔۔میری آنکھیں پھر سے اس ہجر کے کالے کوے کی کالک لئے پتھر بن گئی ہیں۔۔اب کوئی وصل کی کوئل امید کا دیپ جلانے کو نہیں آئے گی۔۔وصل کبھی اب میری روح کے گنجل سلجھانے نہیں آئے گا۔۔ شبِ ہجر اور کالا کوا وصل کی ہر کوئل کو نگل کر میری روح کے بخیے ادھیڑ چکا ہے۔
اب صرف ہر طرف
کائیں کائیں۔۔۔ کائیں کائیں ۔۔کائیں۔۔
Facebook Comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام علیکم!
رمشا جی!ویسے تو آپ کی ہر تحریر ہی باکمال ہوتی ہے ۔۔۔ لیکن جب جب ۔۔لمحہ بہ لمحہ۔۔۔آپ کی کی ڈائری ( خود کلامی کی اذیت) سے تعارف ہوا ہے ۔۔۔۔ لفظ گمشدہ ہو جاتے ہیں
تحریر کا حق ادا کرنا ناممکنات میں سے محسوس ہونے لگتا ہے ۔۔۔ بہرحال ۔۔۔۔ ہجر کی اذیت میں وصل کی امید کا دم توڑنا کسی قیامت سے کم نہیں ۔۔۔ آپ نے اس قیامت کے منظر کو نہایت عمدگی سے لفظوں میں اتارنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اور آپ اس کوشش میں یقینا کامیاب بھی ہوئی ہیں۔۔۔۔ رمشا جی ! اللہ پاک آپ کو سدا خوشیوں سے ہمکنار کرے آمین۔۔۔۔