شیر خوار کو آفس لیجانا نقصاندہ ہے ۔۔۔۔علی اختر

ابھی چند دن پہلے ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی  جسمیں ایک خاتون افسر اپنے بچے کو گود میں لیئے دفتری امور سر انجام  دیتے دکھائی  دیں ۔ یہ خاتون کوئی  عام سی افسر نہیں بلکہ انتہائی  بالا قسم کی افسر یعنی اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور کافی اہم امور سر انجام دینے پر معمور ہیں ۔

اس تصویر میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کے محترمہ ایک ہاتھ میں قلم تھامے نہایت تندہی سے امور دفتری سر انجام دے رہی ہیں جبکہ دست مخالف میں فیڈر تھامے نہایت شفقت سے امور مادری بھی بیک وقت ادا کر رہی ہیں ۔ اسکے علاوہ دفتری میز پر ایک عدد جھولا بھی موجود ہے اور جھولے میں بچے کو بہلانے کے لیئے ایک عدد گڑیا بھی رکھی گئی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ٹیبل کے نیچے موجود بے بی ڈائپر ، سیری لیک، گرائپ واٹر، دراز میں رکھے بے بی لوشن و جھجھنا وغیرہ کیونکہ اس تصویر کا حصہ نہیں سو ہم اسے حذف کرتے ہیں اور موجود سامان کو ہی تمام تصور کرتے ہیں ۔

میز پر مذکورہ بالا سامان کے علاوہ ایک عدد فائل بھی موجود ہے جس پر بزور قلم کچھ کام کیا جا رہا ہے ۔ اپنے گھر کے بچوں کی لاؤڈ سپیکر جتنی بڑی آواز سے مسلسل اور بلاوجہ رونے کی آواز سن سن کر بھی ہم یہ نیک گمان رکھتے ہیں کہ  تصویر میں موجود طفل شیر خوار نہایت شریف النفس واقع ہوا ہے اور امی جان کو اسی وقت پریشان کرتا ہے جب دفتر کی گھڑی پانچ بجے کا عندیہ دیتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ امی جان بھی چونکہ پڑھی لکھی ہیں اور اعلی عہدہ پر فائز ہیں سو وہ بھی ہماری خواتین کی طرح نہیں ہونگی جو بچوں کے مسلسل رونے، ضد کرنے، بال نوچنے وغیرہ کی وجہ سے نیم دیوانگی کے عالم میں سامنے پڑی ہر شے سے نفرت اور ہر شخص کو دشمن سمجھنا شروع کر دیتی ہیں بلکہ نہایت عرق ریزی سے اس فائل اور جملہ تمام فائلوں کو کول مائنڈ سے نمٹاتی ہونگی ۔

مزید تفصیلات کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا کہ  والدہ محترمہ جملہ دفتری امور کے علاوہ بیرون دفتر بھی دیگر امور یعنی تجاوزات کے خلاف آپریشن وغیرہ کے دوران بھی ننھے میاں کو کاندھے سے لگائے رکھتی ہیں ۔

قارئین کرام! شاید آپ لوگ یہ سمجھیں شاید میں کوئی  عورتوں کی آزادی کے خلاف ، بنیاد پرست قسم کا آدمی ہوں لیکن ایسا کچھ نہیں ۔ میں تو عورتوں کی آزادی کا علم بردار ، روشن خیال سا انسان ہوں لیکن مذکورہ بالا تصویری خاکہ اپنے اندر کیا پیچیدگی و انتشار لیئے ہوئے ہے میں محض اسکی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں ۔

اب کچھ لوگ یہ سمجھیں گے کہ  میں دفتر میں بچوں کو لانے کی وجہ سے فرائض منصبی میں کوتاہی اور کارکردگی و مستعدی میں کمی کا راگ سناؤں گا ۔ نہیں جناب ! ایسی کوئی  بات نہیں ۔ بچے لانے یا  نہ لانے دونوں ہی صورتوں میں افسران بالا کی کارکردگی پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا یہ میرا ایمان ہی نہیں بلکہ گارنٹی بھی ہے ۔ یعنی کاکردگی “نل بٹا سناٹا” ، “زیرو بٹا زیرو ” ہی رہے گی۔ تو اب کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ بس اسی نقطے پر ایک عام ذہن اور ایک دانشور کی سوچ جدا ہوتی ہے۔ میرا اندیشہ اس مسئلہ سے قطعی جداگانہ نوعیت کا ہے ۔

یہ مسئلہ عورت کی جیلسی، دوسری عورتوں سے ہر معاملہ میں مسابقت اور ضد سے بھرپور فطرت کی وجہ سے پیدا ہوگا ۔ یہ میری رائے نہیں بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ  اگر ایک عورت کوئی  لباس تیار کراتی ہے تو دوسری سے چھپاتی ہے کہ  کہیں وہ بھی ایسا نہ بنوالے ۔مذکورہ بالا عام حرکت سے یہ تو ثابت ہوا کہ  خواتین ایک دوسرے کی فوری نقل کر لیتی ہیں۔ اسکے علاوہ اگر ایک عورت کچھ الگ سا کام کرے تو دیگر عورتیں محض مسابقت کی وجہ سے وہ کام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی پائی  گئی  ہیں۔

مثال کے طور پر میرا ایک دوست جسکی چھ عدد بہنیں ہیں جب بھی بہنوں کے لیئے کوئی  چیز لیتا  ہے مساوی یعنی چھ کی تعداد میں اور بلکل آئینہ کی طرح ایک سی لیتا ہے۔۔ اتفاقی طور پر ایک بہن کو  نظر کمزور ہونے کی بنا پر عینک لگی تو دیگر سب نے بھی نظر ٹھیک ہونے کے باوجود اسی پاور کی نظر کی عینک بنوالی تھی ۔ وہ اکثر پریشان رہتا کہ  اگر حالات سے تنگ آکر اسکی ایک بہن نے خودکشی کا ارادہ کیا تو اسکے گھر سے ایک نہیں چھ جنازے اٹھیں گے ۔

اب درج بالا مثال کے تناظر میں اگر اس تصویر کو اور سوشل میڈیا پر ملنے والی پذیرائی کو مدنظر رکھا جائے تو تمام خواتین میں اپنے اپنے شیر خوار دفتروں اور کام کی جگہوں پر لیجانے کی مسابقت و مقابلہ کی کیفیت پیدا ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔

اب اس صورت حال کا کچھ خیال کریں کیسا عجیب منظر ہوگا جب پولیس کی خواتین بچے کندھوں سے لگائے مجرموں کا پیچھے دوڑتی نظر آئیں گی ۔ کتنے لوگوں کی جان خطرے میں پڑے گی جب پائلٹ امی کا لاڈلہ شرارت میں جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا کرے گا۔ جب بزنس میٹنگز میں نیپی ریشنل لگا کر ڈائپر تبدیل کیا جائے گا۔ آپریشن تھیٹر میں بچے نشتر مچا کر غل مچایا کریں گے ۔ حساس کاغذات پر بچے ڈرائنگ کی مشق فرمائیں گے اور انتہائی اہم تقریروں کے بیچ بھیں بھیں کی کان پھاڑ آواز میں روتے بچے کیا ماحول بنائیں گے ذرا سوچیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب دنیا کی بھلائی ہمارے سوشل میڈیا صارفین پر منحصر ہے کہ  وہ اس طرح کی تصاویر کو پذیرائی دے کر دنیا کو تباہی کی جانب لے جاتے ہیں یا کچھ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply