• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سلطان احمت میں تھوڑی سی آوارہ گردی اور تھوڑی سی دل پشوری۔۔۔سلمٰی اعوان(سفر نامہ)قسط 7

سلطان احمت میں تھوڑی سی آوارہ گردی اور تھوڑی سی دل پشوری۔۔۔سلمٰی اعوان(سفر نامہ)قسط 7

یہ بڑا سنہری موقع تھا مجھ جیسی آپ پُھدری عورت کیلئے۔ میں سیماکے تسلّط سے آزاد تھی اورخود کو بے حد ہلکی پھلکی سی محسوس کررہی تھی۔جی چاہ رہاتھا وہ گیت گاؤں۔
پنچھی بنوں،اڑتی پھروں نیل گگن میں
آج میں آزاد ہوں دُنیا کے چمن میں
دراصل اس میں سیما بیچاری کا بھی کچھ قصور نہ تھا۔اٹھارہ اُنیس سال کی لڑکی بتیس سالہ ڈبل ایم اے پاس نوجوان کے لڑلگی تو اُسکی چھتر چھاؤں میں اُنگلی پکڑ کر چلنے کی عادی ہوگئی۔میرے جیسی آواگون ان پڑھ والدین کی ریت،روایت اور رواج سے بہت نہیں تو کسی حد تک باغی لڑکی جس نے اُن حفاظتی بیساکھیوں کو جو والدین اپنے بچوں کے گرد گھمانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ہائی سکول پہنچنے کے ساتھ ہی ٹوٹے ٹوٹے کرکے رکھ دیا تھا۔
خودانحصاری کی یہ عادت اس درجہ مزاج کا حصّہ بن گئی تھی کہ تیس سال کی عمر میں جاکر اٹھائیس سال کے جس لڑکے سے بیاہ ہوا وہ بڑا خوش شکل اور پڑھا لکھا افسر تھا۔پورے خاندان نے کہا۔
”لو یہ کالی مراثن تو بڑی بخت والی نکلی۔پر ہے بڑی منہ پھٹ۔وسیبہ تو مشکل دِکھتا ہے۔“

یہ بھی پڑھیں لُٹنا میرا استنبول کے کیپلی کارسی میں۔۔۔۔سلمٰی اعوان(سفر نامہ)قسط 6

یہ تو بڑا کھلا چیلنج تھا۔کچھ کوشش میری، کچھ اس کی اور کچھ اللہ میاں کی کہ بس بات بن گئی اور اب تک بنی ہوئی ہے۔
نورعثمانیہ مسجد کے سامنے اک ذرا رُک کر میں نے اُس کے منفرد یورپی باروقBaroqueاور کلاسیکل عثمانی سٹائل کی تعریف کی۔یہ اُن سات پہاڑیوں جن پر استنبول تعمیر ہوا اور پھیلا،میں سے ایک پر قائم ہے۔اس کے گردونواح میں بازاروں اورگلیوں کے پھیلے ہوئے تانوں بانوں میں مجھے کِس سمت جانا ہے۔میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔
بے اختیار ہی نظریں نیلے آسمان کی طرف اٹھیں پھر محبت پاش نظروں نے اپنے اردگرد کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔کسی بھی طرف، کسی بھی سمت، بس تھوڑی دیر کیلئے زمانے پہلے کے اِن بازاروں،ان گلیوں کے کِسی گھر کے دروازے سے اندر جھانک کر دیکھوں۔کسی تھڑے پر چند لمہوں کیلئے بیٹھ کر سولہویں اور سترھویں صدی کی اُس خوشبو کو سونگھوں جو کیپلی کار سی آنے والی شہزادیوں کے اجسام سے اٹھ کر اِن راستوں پر بکھرا کرتی تھی۔

مسجد کے ساتھ ساتھ بازاروں کے سلسلے ہیں۔لمبی،بل کھاتی مڑتی۔ایک سے دوسری میں ضم ہوتی گلیاں اور بازارجو کبھی ڈھلان میں اُترنے اور کبھی چڑھائی میں چڑھنے لگتے۔ ان بازاروں میں اگر عظمت رفتہ کی جھلک دامن دل کو کھینچتی تھی تو وہیں ان کو ممکنہ حد تک جدید رنگوں میں رنگنے کا اثر بھی نظرآتا تھا۔پتھر کی اینٹوں سے بنے کشادہ چوک جہاں چنار اورمیپل کے بوڑھے درختوں کی چھاؤں،سرسبز گھاس،پھولوں، صنوبر کی چھوٹی قامت والے بوٹوں سے سجے آہنی جنگلوں کی باڑھوں سے گھرے لان جنکے سامنے پتھر کی اینٹوں سے بنے کشادہ میدان جن کے کناروں پر کافی،ڈرنکس، برگروں کے دیدہ زیب کھوکھے۔میرے لئیے یہ منظر پرانی اطالوی فلموں جیسے تھے جنہیں میں مسرور نظروں سے دیکھتی تھی۔
دو منزلہ، کہیں کہیں سہ منزلہ مکانوں کے نیچے بنے بازاروں میں دنیا بھرکی رنگا رنگ قوموں کا ایک ہجوم گردش میں تھا۔بازار کیا تھے جیسے رنگوں کی قوس قزح فضا میں بکھری ہو۔دوکانوں پر تنے سائبان شوخ سُرخ رنگوں میں کثرت سے تھے۔ہاں البتہ نیلے پیلے بھی نظرآتے تھے۔


بیازت مسجد کے سامنے رُک کر میں نے قدیم تہذیبی ورثے اور کلچر کے اِس گڑھ کو محبت و شوق سے دیکھا تھا۔1936کی تعمیر جس پر بیازت کیمی قرآن کرسی لکھا ہوا تھا۔
مسجد کے سامنے میدان میں پتھر کی بڑی سلوں والے فرش پر کبوتروں کی ڈاریں بیٹھی دانہ دُنکا چگنے میں مصروف تھیں۔عورتیں اور بچے دانہ ڈال رہے تھے۔غڑغوں غڑغوں کی آوازیں،انکے پروں کی پھڑ پھڑاہٹیں فضا میں ایک نغمہ بار موسیقی پیدا کرتی تھیں۔جو سماعتوں کو بھی بھلی لگ رہی تھی۔مائیں اپنے بچوں کی کبوتروں کے ساتھ تصویریں بناتی تھیں۔معصوم چہروں پر مسرت و شادمانی کے جو رنگ بکھرے ہوئے تھے اُن کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔
یہاں ایک جانب چنار کا صدیوں پرانا درخت اپنے پر پھیلائے کھڑا تھا۔اس کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں کافی اور قہوہ خانے تھے۔ایک پُررونق سماں تھا۔میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔پیاس سے ہونٹ خشک ہورہے تھے۔لسی کا پیکٹ لیا۔مکئی کے دانے آراستہ پیراستہ چوبی ریڑھیوں پر بک رہے تھے۔بوٹ پالش کرنے والے دو لڑکے اپنا پٹارہ کھولے جوتے پالش کرنے میں مگن تھے۔بچے شور مچارہے تھے۔میں نے لسی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اُن نوجوان جوڑوں کو شوق و رغبت سے دیکھا جو ایک دوسرے میں گھسے جانے کیا کیا قصے کہانیاں سُن اور سُنا رہے تھے۔
استنبول یونیورسٹی، بیازت سکوائرمیں ہی ہے۔


میرے سامنے قدامتوں کا رنگ لئیے استنبول یونیورسٹی کے داخلی دروازے کی ڈیوڑھی تھی۔کُرسی اونچی تھی اور آرام دہ سیڑھیاں چڑھائی کیلئے موجود تھیں۔ لڑکیاں اور لڑکے بالے اُن پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔عشق و محبت کے مظاہرے سرعام تھے۔سگریٹ نوشی بھی زوروں پر تھی۔ جی تو چاہا تھا جاکر کہوں۔
”اے میرے پیارے ترک بچو کیوں جان کے بیری بنتے ہو۔یہ نامراد بڑی بد بخت شے ہے۔پھر اپنی استانی پنے کو لگام ڈالی لعن طعن کرتے ہوئے کہ یہ سارے جہاں کا درد تمہارے جگر میں ہی کیوں ہے؟کسی دن اس کے ہاتھوں بے عزتی نہ کروا لینا۔“
آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں ترکی کا سُرخ جھنڈا لہراتا تھا۔میرے لبوں پر اسکی مزید ترقی اور خوشحالی کیلئے دعا تھی میں نے تھوڑا سا سستا لیا تھا۔حُسن و عشق کے نظاروں سے کچھ آنکھیں سینک لی تھیں۔کام و دہن کی تھوڑی سی تواضع بھی ہوگئی تھی۔ذرا سی تازگی نے اٹھنے کیلئے کہہ دیا تھا۔
مگر ہوا یوں کہ اٹھتے اٹھتے رہ گئی تھی کہ ایک نوجوان جوڑا آکر میرے قریب دھری کُرسیوں پر بیٹھ گیا۔چہرے مہرے سے بڑے سُلجھے متین سے نظرآتے تھے۔شاید یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔میں نے سوچا۔واقعی میرا قیافہ درست تھا۔دونوں اُستاد تھے۔ایک ریاضی اور دوسرا معاشیات کا۔تعارف سے مجھے اُنکے میٹھے سے جذبات کا اندازہ ہوا تھا۔انگریزی میں بھی ٹھیک تھے۔شاید اسی لئیے میری کچھ جاننے کچھ باتیں کرنے کی خواہش سب پر غالب آگئی تھی۔بات چیت سے اُنکے خیالات سے بھی آگاہی ہوئی۔ایسے ہی باتوں باتوں میں تُرکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کا مسئلہ زیر بحث آگیا۔خاتون نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔


”یورپی یونین میں صرف برطانیہ حکومتی سطح پر محض امریکہ کی خوشنودی کیلئے ترکی کے حق میں آواز اٹھاتا ہے مگر عوام اس کی بھی 40% مخالف ہے۔آسٹریا،یونان،ہنگری اور مشرقی یورپ تو زمانے گزر جانے پر بھی عثمانیوں کے ہاتھوں اپنی شکست کو نہیں بھلا سکے۔ان کے زخم شاید ابھی بھی تازے ہیں۔رہے جرمنی اور فرانس بھی مخالفت میں سرفہرست ہیں۔خائف ہیں اس کی آبادی کے تناسب اور اسلامی تشخص سے جسے ترکی کی طاقتور فوج بھی ختم نہ کرسکی۔ابھی اسی ضمن میں یورپی یونین کے ملکوں کا ایک سروے مخالفت اور حمایت میں سامنے آیا ہے۔مجموعی طور پر 65% آبادی مخالفت اور 35%حمایت میں سامنے آئی ہے۔
بڑی کھل کر باتیں ہوئیں۔
”کیاترکی کے لوگ یورپی یونین کے اِن معاندانہ رویوں سے آگاہی رکھتے ہیں۔“میں نے پوچھا۔
”بالکل جانتے ہیں۔“
”دراصل اِن سب ملکوں کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔ترکی تو اپنی آبادی کے بل بوتے پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ حاصل کرسکتا ہے۔تجارتی کوٹے میں اُسکا حصّہ زیادہ ہوگاجو انہیں دینا پڑے گا۔اسلام کے حوالے سے بھی خدشات علیحدہ ہیں۔
بڑی دلچسپ نشست رہی۔انہیں کہیں جانا تھا۔کھڑے ہوئے تو میں بھی خدا حافظ کہتے ہوئے چل پڑی۔
بہت اندر کی جانب کہیں بڑے بڑے چوبی اور آہنی دوپٹوں والے دروازے، کِسی میں موٹی سروں والی میخیں جڑی۔کہیں دو منزلہ اور کہیں سہ منزلہ عمارتیں۔چوبی بالکونیاں، آہنی شیشوں والی کھڑکیاں،کاہیں خستگی اور کہنگی کا رنگ دور سے لشکارے مارتا۔ ہاں ایک بات بڑی واضح تھی۔ یہ پیچ در پیچ سلسلے میرے پرانے لاہور جیسے تو تھے کہ وہاں بھی اندرون گلیوں میں بڑے بڑے تہہ خانے سٹوروں کا کام دیتے ہیں مگراِن کی تو شان نرالی تھی۔ انہیں دیکھ کر ایک قوم کی ترقی کا احساس ملتا تھا۔ دروازوں کے کھلے پٹ دیکھ کر دو گھروں میں داخل ہوئی یہ بڑے بڑے سٹور تھے۔تاجروں نے کرایہ پر یا خرید کر انہیں گوداموں کی صورت دے دی تھی۔کہیں کام بھی ہورہا تھا۔اِن گلیوں میں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ گورے بھی بے شمار تھے۔ایک بڑے سے گھر کے صحن میں کھڑے میں نے انہیں تصویریں بناتے دیکھا تو اندر چلی گئی۔کمبخت مارے فرانس سے تھے اور انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولے۔وہاں ایک مقامی نے ہی بتایا تھا کہ یہاں مصنوعی جیولری کی ورکشاپ ہے۔
ماضی میں عثمانی سلاطین کے وقتوں میں یہ شاید سراہیں ہوں،ملازموں کے رہائشی گھر ہوں یا یہاں گرجے اور اصطبل ہوں۔یقینا کچھ نہ کچھ اہم ہی ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور انہی میں گھومتے پھرتے،آگے بڑھتے،چلتے دائیں بائیں مڑتے ایک سے بڑھ کر ایک نظّارہ سامنے آتا تھا۔ہینڈ بیگوں کی دوکانیں جیسے رنگوں میں لُتھڑی پڑی تھیں۔قالین آنکھیں پھاڑتے تھے۔میں نے دو ایسی جگہیں دیکھیں کہ مجھے لگا جیسے انہیں دیکھنا بھی میرے لئیے ایک نادر تحفے کے برابر تھا۔ ایک توہمارے صرافے بازار جیسا بازار تھا۔اُف زیورات کی چکاچوند روشنیوں کے بکھرے طوفان میں لشکارے۔آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔
دوسرا کسیرا بازار تھا۔رنگ محل کے کسیرے بازار جیسا مگر قدامت اور جدّت کا دلکش عکاس۔وہ مانوس آوازیں۔ٹھک ٹھک ٹن ٹن جن سے سارا بچپن مانوس۔تانبے کے چمکتے رنگ،آرائشی پلیٹیں جن میں مختلف رنگوں کی نقاشی اپنے منہ سے بول رہی تھی۔اُن پر کندہ قرآنی آیات اللہ اور محمدؐ کے نام سجے تھے۔بڑے بڑے تھال،سماوار نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ فنکار لوگوں کے فن کا نگار خانہ۔
یونہی چلی جاتی تھی کبھی کِسی طرف نکل جاتی،کبھی کِسی طرف۔علی پاشا بازار سے آگے ایک موڑ پر قبرستان نظر آیا۔استنبول کے قبرستان بہت خوبصورت اور شاندار ہوتے ہیں۔چناروں،صنوبر اور دیوداروں کے درختوں اور پھول بوٹوں سے سجے۔یہ تو کچھ زیادہ ہی خوبصورت تھا شاید شاہی ہونے کی وجہ تھی۔
یقیناً  یہ میری خوش قسمتی تھی کہ ایک عمررسیدہ شخص جو فاتحہ پڑھ کر باہر آرہا تھا جس سے میں نے پوچھا اور اُس نے اشاروں اور زبان سے بہت کچھ بتانا چاہا تاہم میرے لئیے اتنا ہی کافی تھا کہ سلطان عبدالحمید ثانی یہاں دفن ہیں۔میں والہانہ انداز میں جھپٹی تھی۔
ترکی کی تاریخ میں وہ ایک ناکام خلیفہ تھا۔اُس نے دُستوری حکومت بنانے کا وعدہ کیا۔مگر اُس نے خود کو مستحکم کرنے کے بعد دستور معطل کردیا۔ پارلیمنٹ برطرف کردی تھی۔اُس نے تعلیمی اصلاحات پر توجہ نہیں کی تھی۔ اُس کے دور میں ترکی کو زار روس نے بیمار مرد کہا تھا۔ اِن سب کے باوجود اُس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جو آج بھی اُسکی ذات کو جگمگاتا ہے۔اُس نے تھیوڈورہرزل بابائے صہیونیت کے ہاتھ فلسطین کی زمین بیچنے سے انکار کردیا تھا۔
”وہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔میں اِسے بیچنے کا مجاز ہی نہیں۔“
ہر بار کی بھاری پیشکش کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوا وہ شریف مکّہ نہیں بنا۔
فاتحہ پڑھی تو آنکھیں جل تھل ہوگئیں۔
یہاں وہ شاہانہ کرّوفرنہیں تھا۔بہت سادگی تھی۔سلطان عبدالعزیز بھی یہیں دفن ہیں۔
میرا جی چاہتا تھا میں سارا دن اِن گلیوں میں چلتی رہوں۔جگہ جگہ بنے ڈھابوں اور قہوہ خانوں سے کھاتی پیتی رہوں۔تھک جاؤں۔کہیں بیٹھ جاؤں۔لوگوں کو دیکھوں۔ اٹھوں پھر چل پڑوں۔مگر ایساکرنابہت مشکل تھا۔دن تو میں نے کم و بیش آدھے سے زیادہ اپنے منہ زور جذبوں کی نذر کرہی دیا تھا۔اب سیما کا مجھے ڈر تھا۔واپسی کا کوئی مسئلہ نہ ہوا۔میں نے گل ہانہ کہا۔کارڈ دکھایا۔میٹرو اسٹیشن کی رہنمائی لی اور جب میں کمرے میں داخل ہوئی۔سیما کی گونج دار آواز نے میرا استقبال کیا۔
”ساری دیہاڑی گل کردی نا تم نے۔رات کہا بھی تھا کہ گولی ماروجو ہوا سو ہوا۔تو مل گئے پیسے تمہیں۔“
میں نے اپنی خجل خواری اور مظلومیت کی وہ داستان سنائی کہ سیما کو چچ چچ کرتے ہی بنی۔
اف میرے خدایا اگر میں اُسے کہیں صرافہ بازار کا بتا دیتی تو اُس نے فی الفور جوتے پہن کر اٹھتے ہوئے کہنا تھا۔
”چل ابھی چل۔ہائے نوشی کیلئے کچھ خرید لوں گی۔کوئی چھوٹی موٹی سی چیز آشی کیلئے لے لوں گی۔ثمینہ کیلئے بھی کچھ لینا ہے۔اکلوتی بہو ہے میری۔“
اف دوکان دردکان پھرنا چیزوں کو خریداری کے نقطہ نظر سے دیکھنا اور بھاؤ تاؤ میں اُلجھنا کتنا جان جوکھوں والا کام تھا۔میری تو جان جاتی ہے ایسے کتوں کاموں سے۔میں تو ماں اور ساس کے روپ میں پڑ کر بھی داج اور بریوں کے چکر میں نہیں پڑی۔دونوں بہوؤں کو 2006 اور 2007 میں دو دو لاکھ روپیہ دے کر کہہ دیا تھا۔بس یہی کچھ دینا ہے میں نے۔زیور بنوالو،کپڑے خرید لو،جوتے لے لو،بینک میں جمع کرالو میری بلا سے۔
کیسی مزے کی ساس اور ماں ہوں نا میں بھی۔ہے نا اپنے منہ میاں مٹھو والی بات۔پنجابی میں اسے کہتے ہیں۔آپے میں رُجّی پُجّی آپے میرے بچے جین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply