• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سندھ کا ثقافتی بحران اور تعصب کا طوفان۔۔۔سید عارف مصطفٰی

سندھ کا ثقافتی بحران اور تعصب کا طوفان۔۔۔سید عارف مصطفٰی

صاحبو اگر سوال اٹھانے کے مواقع دیئے جائیں تو سوال کیوں نہ اٹھیں گے ۔۔۔ مثلاً سندھ کی قومیتی شناخت کے سوال کا جواب تو کبھی ڈھنگ سے دیا ہی نہیں گیا ۔۔۔ ذرا دل تھام کے میری یہ دل لگتی بات بلکہ خدا لگتی عرض سنیے  کہ اگر بلوچستان میں صدیوں سے آباد پختون خود کو پختون ہی کہتے ہیں بلوچی نہیں کہتے ، اور پنجاب میں رہنے والے سرائیکی خود کو پنجابی کہنے سے منکر ہیں اور اگر پختونخوا  صوبے میں بسنے والے ہزارہ وال خود کو پختون نہیں باور کراتے توآخر صوبہ سندھ میں رہنے والے اردو وال اور دیگر قومیتوں کے لوگوں سے ہی یہ اصرار کیوں کہ وہ خود کو لازماً سندھی کہیں اور جو ایسا کرنے سے گریز کریں وہ غدار اور واجب نفرت ٹھہرادیئے جائیں ۔۔۔ یہ نہیں کے کسی ہجرت کرنے والے نے سندھی سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ درحقیقت اندرون سندھ بسنے والے اردو وال افراد کی بڑی تعداد بڑی روانی سے سندھی بول لیتی ہے لیکن ان کے سندھی بولنے اور اجرک اور سندھی ٹوپی اپنانے کے باوجود انہیں عملی طور پہ کبھی سندھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور ملازمت اور پروفیشنل کالجوں‌اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے وقت انہیں جس بری طرح نظرانداز کیا جاتا ہے اس کے بعد خود کو سمجھنے اور سندھی بولنے کا تقاضا ہی بے معنی ہوکے رہ جاتا ہے کیونکہ ویسے منہ سے سندھی قوم پرست لاکھ یہ کہتے رہیں کہ سندھ میں رہتے ہو تو خود کو سندھی بولو اور یہی سمجھو مگر وسائل اور ملازمتوں کی تقسیم کے وقت صرف نسلی سندھی کو ہی سندھی مانا جاتا ہے اور یہ وہ ننگی حقیقت ہے کہ جس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کراچی میں‌واقع سندھ سیکریٹریٹ میں نان سندھیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہرگز نہ ہوتی-

اسی طرح سندھ کی ثقافت کا معاملہ ہے کہ جسے مصنوعی طور پہ شہری آبادی پہ تھوپنے کی زبردستی کو وطیرہ بنالیا گیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تومغربی ممالک میں بسنے والے چینی باشندے کبھی کے انگریز بن گئے ہوتے۔۔۔ یہ امر اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ثقافتیں‌اور زبانیں بالجبر کبھی تبدیل نہیں ہو تیں ، اس میں آپس میں گھل مل کے رہنے کا عمل ،عملی سہولتیں اور معاشی مفادات زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔ اس کا ایک مظہر اردو  سپیکنگ مرد  افراد کا کھلے دل سے شلوار قمیض کے پہناوے کو اپنانا ہے ورنہ تو پاکستان بننے سے قبل کسی یوپی کے باسی مرد نے پاجامے کے بجائے کبھی شلوار پہننے کا تصور  بھی نہیں کیا تھا کیونکہ ان علاقوں میں شلوار کو صرف زنانہ لباس کا ہی حصہ باور کیا جاتا تھا ۔۔۔ لیکن چونکہ اس میں سہولت اور کھلا ڈلا پن زیادہ تھا سو بغیر کسی جبر کے رفتہ رفتہ ازخود اردو وال افراد کے لباس میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ۔۔۔ لہیں بلکہ پہم   گنتی ، گانا اور گالی اپنی ہی زبان میں دینے میں زیادہ آسانی کیوں محسوس نہ کریں اور اس پہ ستم ظریفی یہ کہ جو ایسا کہتے بھی ہیں تو عملاً انہیں سندھی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو سندھ سیکریٹریٹ میں سندھی زبان بولنے والوں کی تعداد آئینی بندش کی تعمیل کے مطابق کم ازکم چالیس فیصد تو بالضرور ہوتی جبکہ عملاً یہ تعداد اب 65 فیصد سے بھی زیادہ ہوچلی ہے ۔

میں اس بات پہ بھی حیران ہوں کہ سندھ کے قوم پرست رہنماء آخر کس منہ سے ہندوستان سے آنے والے مہاجروں اور ان کی اولادوں کو گھس بیٹھیا ہونے کے طعنے دیتے ہیں جبکہ اگر وہ جدوجہد نہ کرتے تو آج بھی سندھ کا یہ خطہ ان ہندوؤں کا غلام ہوتا جو اس صوبے کی نوے پچانوے فیصد معیشت اور ذرائع روزگار پہ قابض تھا اور ان کے یہاں سے جانے کے بعد حالت یہ تھی کہ یہاں بینکنگ ، شپنگ اور انجیننیئرنگ ، میڈیکل و ٹیکسٹائل سبھی شعبوں‌میں اندھیروں اور سناٹوں کا راج ہوچکا تھا کیونکہ اس وقت یہاں کے مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب بمشکل دو تین فیصد تھا اور اس وقت کے تمام اخبارات جی ایم سید ایوب کھوڑو پی الٰہی بخش کے ان بیانات سے بھرے ہوتے تھے کہ خبردارپنجاب مہاجرین کو وہاں نہ روکے کیونکہ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں پہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہمارے یہاں ہی سمندر ہے اور شپنگ ، بینکنگ اور انڈسٹریز کے گورکھ دھندے ہیں جو ٹھپ پڑے ہوئے ہیں اورانہیں چلانے والا کوئی ہے ہی نہیں اور یہ نہیں چلیں گے تو یہ نو آزاد ملک کیسے چلے گا بھلا ۔۔۔ ادھر پنجاب سے ممدوٹ ،دولتانہ اور ٹوانہ جیسے سیاسی گرو چلاتے تھے کہ نہیں یہ مہاجر ہمیں درکار ہیں ۔۔۔ یعنی اس وقت تو یہ صورتحال تھی کہ سندھ اور پنجاب میں ان مہاجرین کی چھین جھپٹ اپنے عروج پہ جاپہنچی تھی لیکن بہرطور مہاجروں کی بڑی تعداد ‌نے وہیں کا رخ کرنا مناسب جانا کہ جہاں‌انکی صلاحیتوں‌ کی ضرورت زیادہ تھی ۔۔۔۔۔

کوئی ان سندھی قوم پرستوں‌سے پوچھے تو سہی کہ اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد آخر سندھ ہی میں کیوں بسی جب کہ انکی اکثریت تو سینٹرل انڈیا سے آئی ہے اور ان کے لیے  لاہور قریب تر تھا پھر وہ کیوں لگ بھگ 12 سو کلومیٹر دور یہاں کراچی میں آن براجے ۔۔۔ ان دنوں تو عالم یہ تھا کہ جوں ہی مہاجرین کی کوئی ٹرین تھرپارکر سے سندھ میں داخل ہوتی تھی اس وقت کے سندھی اہل سیاست انکے خیرمقدم کے لیے  پھولوں کے ہار لے کر دوڑ پڑتے تھے یہ الگ بات کہ اسکے بعد ان مہاجرین کو سرچھپانے کے لیے  ساری دوڑ دھوپ خود ہی کرنی ہوتی تھی اور آج بھی جیکب لائنز کی کچھ باقیات ان خستہ حال جھگیوں‌ کی داستان عبرت کی عکاس ہیں کہ جن میں ابتدا کے کئی برس تک مہاجرین کو نہایت ابتر صورتحال میں زندگی کی گاڑی جیسے تیسے کھینچنی پڑی تھی ۔۔ درحقیقت یہ مہاجرین جہاں اکثریتی آبادی بنے وہاں انہوں نے اپنی تعلیم اور محنت سے تعمیر و ترقی کے در کھول دیئے لیکن آج بھی سندھ کے وہ علاقے جو سندھی قوم پرستوں کے پاس ہیں وہاں‌آج بھی بدحالی و ابتری انکی بے حسی و غفلتوں‌ کا منہ بولتا ثبوت بنی ہوئی ہے کیونکہ خود انکے یہ قوم پرست رہنماء ہی اس ترقی کے رستے کی دیوار بنے ہوئے ہیں‌

اس وقت برسر زمین حقائق اور ناقابل تردید شواہد یہ ہیں کہ سندھ میں بسنے والی نسلی سندھیوں کے علاوہ دیگر تمام قومیتیں بدترین تعصب اور حقارت کا شکار بنادی گئی ہیں اور انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔۔۔ کوئی مجھے ذرا اندرون سندھ کے تھانوں میں اسی تناسب سے نان سندھی اسپیکنگ پولیس والے تو دکھادے یا صوبائی محکموں میں ایسے ملازمین کے اعداد و شمار تو بتائے ۔۔۔ ایسی تعداد آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں ہے ۔۔۔ غضب خدا کا ۔۔۔ نسل پرستی تعصب اور ظلم کی کوئی حد بھی ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت سندھ کے 31 اضلاع میں سے 29 میں سندھی بولنے والے حضرات ڈپٹی کمشنر کے طور پہ تعینات ہیں ، اس طرح 55 صوبائی کارپوریشنوں میں سے صرف سات میں نان سندھی اسپیکنگ افراد بطور سربراہ موجود ہیں ۔ سندھ بینک کے 17 ہزار ملازمین میں سے نان سندھی اسپیکنگ کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے ۔ یہ حقیقت کس کی آنکھوں سے اوجھل ہے کہ سرکاری چشم پوشی کے خاص انتظامات کے ساتھ ہر صوبائی ادارے میں قوم پرستوں  کا راج ہے اور نوبت یہ ہے کہ اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں ایسے طلباء کا جینا حرام کردیا جاتا ہے جو کہ نسلی سندھی نہیں ہیں چنانچہ ان کا وہاں پڑھنا ممکن ہی نہیں رہتا اور ان کے شہری کوٹے کی سیٹوں پہ بھی اسی نسل پرست گروہ کا تسلط رہتا ہے ۔

مجھے اندازہ ہے کہ میری اس بات پہ بہت سے لوگوں کو بہت پریشانی لاحق ہو جائے گی لیکن یہاں میرا برسرزمین حقائق سے جڑا سوال یہ ہے کہ سندھ کی تقسیم کی بات پہ مشتعل رہنماء یہ تو بتائیں کہ  آخر تقسیم اور کسے کہتے ہیں اور یہ آخر کس چڑیا کا نام ہے ۔ کیونکہ سندھ میں تو یہ تقسیم درحقیقت 1973 سے چلی آرہی ہے کہ جب کوٹہ سسٹم نافذ کرکے سندھ کی شہری آبادی کو ہر طرح سے روند ڈالنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی اور میں اسی حوالے سے یہاں پہ یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ کیا خود بھٹو نے ایک ہی صوبے کےانتظامی و معاشی معاملات کو اس طرح‌ سفاکی و مکاری سے دو حصوں میں تقسیم کرکے سے سندھ کی صوبائی وحدت کو پہلے ہی ختم نہیں کردیا ہے اور کیا برسہا برس سے جاری متعصبانہ رویئے اور اسکی کھلی و گھناؤنی انتظامی سرپرستی نے عملاً سندھ کو تقسیم ہی نہیں کرڈالا ہے ۔۔۔ تاہم اس موضوع پہ بات کرنے کو شجر ممنوعہ بنادیا گیا ہے اور یہاں یہ کہنا لازمی سمجھتا ہوں کے اگر اب بھی اس متعصب اقدام کو ہر سطح پہ واپس نہ لیا گیا تاور غرور و بتحاشا تعصب سے بند آنکھیں نہ کھلیں اور انصاف سے سندھ کی شہری آبادی کے حقوق کی تقسیم نہ کی گئی تو سندھ کی باضابطہ تقسیم لازم ہوجائے گی اور ایسا ہونے سے پھر کوئی بھی نہ روک سکے گا کیونکہ پھر یہ کام تو ایک عوامی ریفرنڈم اور ایک انتظامی نوٹیفیکیشن کی چار لائنوں ‌ہی کی تو مار ہے ۔۔۔‌

مضمون کے حوالے سے عارف مصطفٰی صاحب کی گفتگو اس لنک پر سنی جاسکتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.youtube.com/watch?v=Inioc1u-LK8&feature=youtu.be

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply