• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہودیوں کی مسجد، قبرستان اور قبضہ مافیا۔ قمر نقیب خان

یہودیوں کی مسجد، قبرستان اور قبضہ مافیا۔ قمر نقیب خان

پچھلے تیس سال سے یہودیوں کے اس قبرستان میں کوئی یہودی دفن نہیں ہوا، یہ قبرستان کراچی کے علاقے میوہ شاہ میں واقع ہے. بتایا جاتا ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہوئے والے آخری دو افراد یہودیوں کی مسجد کے چوکیدار تھے، یہودیوں کی عبادت گاہ کو سنیگاگ کہتے ہیں. پاکستان میں یہودیوں کی واحد عبادت گاہ سولومن ڈیوڈ اور اس کی بیوی شیولا بائی نے 1893ء میں رنچھوڑ لائن میں بنوائی تھی، اس سنیگاگ کا نام شیلوم سنیگاگ رکھا گیا. یہ سولومن ڈیوڈ Image result for synagogue karachiانگریز دور کی کراچی بلدیہ میں سروئیر تھا. 1902 میں سولومن مر گیا اور اس کے اگلے ہی سال اس کی بیوی بھی چل بسی، دونوں میاں بیوی اسی قبرستان میں دفن کر دئیے گئے. اس قبرستان میں قبروں کے کتبے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے یہودی یہاں دفن ہیں محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ پانچ سو. 1903ء میں کراچی کے یہودیوں نے پہلی رفاحی تنظیم بنائی، جس کا نام ’ینگ مین جیوئش ایسوسی ایشن‘ رکھا گیا، اسی تنظیم کے تحت ’کراچی بنی اسرائیل ریلیف فنڈ‘ قائم ہوا جس کا مقصد غریب یہودیوں کی مالی معاونت کرنا تھا۔ 1912ء میں اسی سولومن ڈیوڈ کے دو بیٹوں نے سنیگاگ کی توسیع تزئین و آرائش نئے سرے سے کی اور سنیگاگ کے ایک حصے میں یہودی بچوں کے لیے عبرانی سکول بنا دیا گیا. 1918ء میں غریب یہودیوں کو سستے گھر دینے کے لیے ’کراچی جیوئش سنڈیکیٹ‘ بنایا گیا۔ 1939ء میں ان یہودیوں کا مقامی رہنما ابراہام ریوبین کراچی میونسپلٹی کا پہلا یہودی کونسلر منتخب ہوا۔اس تمام عرصے میں شیلوم سنیگاگ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی.

1947ء میں پاکستان اور 1948ء میں اسرائیل بنا اور یہیں سے ان یہودیوں کے برے دن شروع ہو گئے۔ پھر جب بھی عربوں کی اسرائیل سے جنگ ہوتی سندھ کے یہودیوں کے لیے زمین تنگ ہو جاتی. 1956ء اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستانی شدت پسند مسلمانوں نے پاکستانی یہودیوں کا جینا محال کیے رکھا۔ یہاں تک کہ 1968ء سندھ میں صرف 250 یہودی رہ گئے جو کبھی تین چار ہزار کی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ یہودیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر انگلینڈ یا اسرائیل میں پناہ لیں.

باقی بچ جانے والے یہودی شناخت چھپاتے ہوئے خود کو پارسی ظاہر کرتے تھے، انہوں نے کراچی کا میگن شیلوم سنیگاگ اور یہودی قبرستان بھی کسی نہ کسی طرح آباد رکھا. پاکستان کی بدقسمتی کہ پھر ضیاء الحق کا دور آ گیا، یہ پاکستانی یہودیوں کی ڈبل بدقسمتی تھی، جہاد کے نعرے لگاتے ہوئے لوگ ایک دوسرے پر ہی پل پڑے، جب دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر مار رہے ہوں ایسے یہودی کیسے بچ سکتے ہیں. کچھ شدت پسند مسلمانوں نے قبضہ مافیا کے ساتھ مل کر اس یہودی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا، یہودی جان بچا کر بھاگ گئے، قیمتی سامان چرا لیا گیا، اور 1980 میں یہ سنیگاگ توڑ کر اس کی جگہ شاپنگ سینٹر اور رہائشی عمارت بنا دی گئی.

Related imageآج سے بارہ برس پہلے تک کراچی میں تقریباً دس یہودی خاندان آباد تھے. لیکن یہ تعداد اب مزید کم ہو گئی ہے. پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رہنے کے لیے تقریباً سبھی یہودی ہجرت کر کے جا چکے. یہودیوں کی عبادت گاہ پر مومنین پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں اور اب اس قبرستان کی قیمتی زمین ہڑپنے کی تیاری کر رہے ہیں. یہودیوں کی اکثر قبریں مسمار کی جا چکی ہیں اور مسلمان مُردوں کی آباد کاری زور شور سے جاری ہے.

اپنے اس کالم کے زریعے جہاں میں سندھ حکومت کی توجہ اس قبضہ گروپ کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا وہیں اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ پیغام دوں گا کہ براہ کرم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، عبادت گاہوں اور قبرستانوں کا احترام بہرصورت ملحوظ رکھیں.
وما علینا الا البلاغ

Advertisements
julia rana solicitors

سورس: بی بی سی، ڈان نیوز، جیوئش ٹائمز ایشیا وغیرہ.

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!