• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم بھٹو کی زندگی کے آخری کچھ دن ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم بھٹو کی زندگی کے آخری کچھ دن ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

لاہور ہائی کورٹ جنرل ضیاء کی ایماء پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد قصوری کے مقدمہ قتل میں واقعاتی شہادتوں کو توڑ مروڑ کر سزائے موت سنا چکی تھی۔ اس غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف 25 مارچ 1978ء کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی تو قیدی نمبر 1772 وزیر اعظم بھٹو کو بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچا دیاگیا۔ مختلف تاریخوں میں قیدی نمبر 1772 اور ان کے وکیل یحیٰی بختیار کی جانب سے دلائل جاری رہے۔ بالآخر 6 فروری 1979ء کو فیصلہ سنانے کا وقت آپہنچا۔ گیارہ بج کر پانچ منٹ پر جسٹس عبدالحلیم، جسٹس محمداکرم، جسٹس ایس انوار الحق، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے قدم رکھا۔ گمبھیر سناٹے  میں فیصلہ سنایا گیا جو صرف تین پیرا گراف پر مشتمل تھا اور اسے پڑھنے میں بمشکل دومنٹ لگے۔ کثرت رائے سے اپیلیں مسترد کردی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے مقدمے کی سماعت آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کی ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مسٹر بھٹو نے ایف ایس ایف کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیا جو وزیر اعظم کے اختیارات کا شیطانی استعمال ہے۔ مقدمہ کے محرکات نہ سیاسی ہیں اور نہ اس کے پیچھے کوئی عالمی سازش کار فرما ہے۔ ہائی کورٹ نے جو فیصلہ کیا وہ شہادت اور قانون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد صحیح پایا گیا۔

فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جسے 14 فروری 1979ء کو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ 24 فروری کو سماعت کا آغاز ہوا اور 18 مارچ 1979ء کو سماعت مکمل ہوگئی۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس انوار الحق نے ہفتے کے روز صبح دس بجے سپریم کورٹ کے مین کورٹ روم میں فیصلے کااعلان کیا۔ جس کے مطابق نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی گئی۔ نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد بھٹو صاحب کے کمرے سے آرام و آسائش کی تمام سہولتیں ہٹا لی گئیں۔ جن میں نوار کا پلنگ، میز کرسی، ریفریجریٹر، اٹیچی کیس، شیو کا سامان، قلم، پنسل، کاغذ وغیرہ شامل تھے۔ حتیٰ کہ ذاتی استعمال کے کپڑے واپس لے کر پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کے کپڑے فراہم کردیئے گئے جن میں بٹن اور ازار بند نہیں ہوتا تاکہ قیدی اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے یا خود کشی نہ کرسکے۔ موسم کے مطابق یہ لباس ایک نیکر ٗ بنیان اور ٹوپی پر مشتمل تھا۔ اتنی رعایت ضرور برتی گئی کہ انہیں یہ لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے سونے کے لئے گدا زمین پر ہی بچھا لیا۔ اس کے علاوہ بھٹو صاحب کے کمرے سے شیو کا سامان بھی اٹھا لیا گیا کیونکہ وہ خود ہی اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے تھے۔ مسٹر بھٹو کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔

اسی دوران عبد الحفیظ پیرزادہ کے ساتھ گفتگو کے دوران بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ عبدالحفیظ پیرزادہ اپنی جانب سے صدر پاکستان کو رحم کی اپیل کریں لیکن پیرزادہ کا خیال تھا کہ اپیل کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ عالمی دباؤ کے آگے جنرل ضیاء زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے  گا اور اندرون ملک میں ہنگاموں کے خطرے کے پیش نظر بھٹو صاحب کی سزا میں یقینی طور پر کمی کردی جائے گی۔ تمام تر عالمی دباؤ کو ڈی فیوز کرنے کے لئے جنرل ضیاء کو بار بار امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی بھٹو صاحب کو دی گئی دھمکی یاد کروائی جاتی رہی جس میں کسنجر نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم تمہیں نشان عبرت بنا دیں گے‘‘۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ 31 مارچ کو رحم کی اپیل کا وقت بھی گزر رہا تھا۔ اب آخری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا پھر حفیظ پیرزادہ نے دفعہ 45 کے تحت صدر مملکت کے نام ایک درخواست دے دی۔ یہ درخواست ایک خصوصی نمائندے نے رات نو بجے صدر کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے بھی اسی روز جنرل ضیاء سے بھٹو صاحب کے لئے رحم کی اپیل کردی۔ بھٹو صاحب کی جان بخشی کی اپیل کرنے والوں میں ان کی سوتیلی بہن بیگم شہر بانو امتیاز بھی شامل تھیں۔

2 اپریل کو جیل حکام نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اطلاع بھجوائی کہ وہ آکر مسٹر بھٹو سے ملاقات کرجائیں۔ ہوسکتا ہے یہ ان کی آخری ملاقات ہو لیکن بھٹو صاحب سمیت کسی کو بھی اس کا یقین نہیں تھا کہ فوجی حکومت بھٹو صاحب کو پھانسی دے سکتی ہے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ جنرل ضیاء کے ایماء پر جیل حکام خوف زدہ کرکے بھٹو صاحب کے اعصاب توڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے دستخطوں سے رحم کی اپیل کروائی جاسکے۔

آخری ملاقات میں جب بے نظیر بھٹو رخصت ہوتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھیں تو بھٹو صاحب نے کہا کہ گبھراؤ نہیں یہ مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ مجھے ڈرا کر معافی نامہ لکھوانا چاہتے ہیں۔ اس اعتماد کی ایک جھلک ان کی اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیاگیا‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ بھٹو صاحب اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہیں، ’’میں ایک قوم بنانے کے لئے پیدا ہوا تھا، عوام کی خدمت کے لئے پیدا ہواتھا، میں موت کی کوٹھڑی میں سسک کر دم توڑنے کے لئے پیدانہیں ہوا اور نہ کسی چالاک انسان کی دشمنی کانشانہ بن کر پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لئے پیدا ہوا ہوں‘‘۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا منظر:

وزیر اعظم بھٹو سمیت نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کے تمام ’’مجرموں‘‘ کی جاں بخشی کی اپیلیں حتمی طور پر مسترد ہوچکی تھیں۔ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ سب سے پہلے بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔ اس کے باوجود کہ پھانسی کے انتظامات شروع کردیئے گئے تھے لیکن تاریخ اور وقت کے معاملے میں غیر معمولی راز داری برتی جارہی تھی۔ حالات بتا رہے تھے کہ جلد کچھ ہونے والاہے۔ دن بھر ڈسٹرکٹ جیل میں سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر راحت لطیف، ڈپٹی کمشنر سعید مہدی، کرنل رفیع، ایس ایس پی جہاں زیب برکی اور آئی جی جیل خانہ جات کی آمدورفت اور اجلاس اور آخر میں جیل حکام سے ہر طرح کا ٹیلی فونک  رابطہ منقطع ہوجانا، یہ ساری باتیں ایک ہی سمت اشارہ کررہی تھیں۔

آخر وہ وقت   آن پہنچا۔ یہ 2 اپریل ہے۔ اسی روز لاڑکانہ سے 19 میل دور واقع گاؤں میرپور بھٹو میں لاڑکانہ کا تحصیل دار مسٹر بھٹو کے چچا سردار نبی بخش بھٹو کے پاس آیا ان سے نو ڈیرو کے قریب گڑھی خدا بخش میں واقع بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان کے متعلق معلومات حاصل کیں اور درخواست کی کہ ساتھ چل کر وہ جگہ دکھائیں جہاں وہ بھٹو صاحب کی قبر بنوانا پسند کریں گے۔ سردار نبی بخش بھٹو یہ سن کر پریشان ہوگئے۔ دوسروں کی طرح انہیں بھی یقین تھا کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی نہیں ہوگی۔

تارا مسیح ایک جلاد تھا جو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان کے ساتھ مسیحیوں کی بستی میں رہتا تھا۔ اس کے تین بھائی تھے اور تینوں ملک کی 20 جیلوں میں جلاد کے فرائض ہی انجام دیتے تھے۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ تھا جسے ان کے دادا پہاڑی مل نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں شروع کیاتھا۔ یکم اپریل کو بہاول پور میں اپناکام ختم کرنے کے بعد تارا مسیح ابھی ملتان پہنچا ہی تھا کہ لاہور سے اطلاع ملی کہ تارا کو فورا” یہاں بھیج دو۔ چنانچہ وہ اسی وقت ریل گاڑی میں سوار ہوکر لاہور پہنچا اور کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اپنی آمد کی رپورٹ دی۔ اسے دوبارہ جیل سے باہر جانے سے منع کردیا گیا اور کہا گیا کہ ایک ضروری کام ہے وہ یہیں موجود رہے۔ شام کے وقت راولپنڈی سے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چوہدری نذیر اختر کا فون آیا۔ انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ تارا مسیح کو آج ہی راولپنڈی پہنچایا جائے۔

یہ 2 اپریل کادن تھا۔ تارا مسیح کو بتائے بغیر اس کام کے لئے لاہور سے پنڈی لے جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا گیا لیکن تارا مسیح نے ہوائی جہا زمیں یہ کہتے ہوئے سفر کرنے سے انکار کردیا کہ اسے ڈر لگتا ہے۔ پھر ایک ہیڈوارڈن کے ہمراہ بذریعہ ویگن راولپنڈی بھجوایا گیا۔ اسے بستی میں جانے اور اپنے عزیزوں کو اطلاع دینے کی مہلت بھی نہ ملی۔ تاریخ مسیح کو ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا کہ اسے راولپنڈی میں کیا کرنا ہے تاہم اس کی نقل و حرکت کے بارے میں جس طرح رازداری اور احتیاط برتی جارہی تھی اس سے اسے کچھ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ اسے کسی اہم شخصیت کو پھانسی دینی ہے۔ 2 اور 3 اپریل کی درمیانی شب پچھلے پہر وہ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کی ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو اسے فورا ً ہی بڑے دروازے کے قریب ایک کوٹھڑی میں بند کردیاگیا اور ممانعت کردی گئی کہ وہ نہ کوٹھڑی سے باہر جائے اور نہ کسی کے سامنے آئے۔

3 اپریل شام چار بجے کے قریب پولیس کے چند آدمی بھوسہ منڈی راولپنڈی میں واقع مسجد مولانا غلام غوث ہزاروی پہنچے اور وہاں کے خادم حیات محمد سے رابطہ کیا اور انہیں کہا گیا کہ ایک میت کو غسل دینے کے لئے وہ ساتھ چلیں۔ وہ ان کے ساتھ ہو لئے۔ پولیس انہیں ساتھ لئے گھومتی رہی۔ کبھی انہیں تھانے میں بندکر دیا جاتا تو کبھی ضلع کچہری کے کسی کمرے میں بٹھا دیا جاتا۔ رات 9 بجے کے قریب انہیں تھانہ چھاؤنی لے جایا گیا وہاں انہیں ایک گھنٹہ انتظارکرنے کے بعد   ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔ تارا مسیح اپنی کوٹھڑی میں لیٹا نیم غنودگی کے عالم میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا کہ کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نئے آدمی کو اندر لا کر بند کر دیا گیا۔ تارا مسیح نے آنکھ کھولی اور اس کے سراپے کا جائزہ لیا۔ نووارد کے چہرے پر ڈاڑھی تھی۔ تارا مسیح کو جاگتے دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھنے لگا۔ تمہیں پتہ ہے کس میت کو غسل دینا ہے؟۔ شام 4 بجے سے پولیس والے مجھے ساتھ لئے پھر رہے ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ میت کہاں ہے۔

یہی وقت تھا جب 3 اپریل کی شام 4 افسران کی ٹیم راولپنڈی کی  جیل میں پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ختم کرنے کے لئے داخل ہوئی۔ جیل سپرٹینڈنٹ یار محمد، مجسٹریٹ بشیر احمد خان، جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ اور سیکیورٹی بٹالین کمانڈر و سکیورٹی آفیسر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے آئے تھے۔ جیسا کہ کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب بھٹو کے آخری 323 دن میں تحریر کیا ہے کہ جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل میں شام ساڑھے چھ بجے ایک شخص کے ساتھ دورہ کیا۔ جیل عہدہ دار نے پی پی پی کے بانی کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کے لئے پہلے ان کا نام پکارا اور پھر پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔ عدالتی احکامات کے مطابق ’’اٹھارہ مارچ 1978ء کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ آپ کی سپریم کورٹ میں درخواست چھ فروری 1979ء کو مسترد کردی گئی اور نظرثانی درخواست کو 24 مارچ 1979ء کو رد کیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب آپ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔

کرنل رفیع الدین اس موقع پر جیل سپرٹینڈنٹ کے ہمراہ کھڑے تھے اور وہ بتاتے ہیں ’’سپرٹینڈنٹ جب حکم نامہ پڑھ رہے تھے تو میں نے بھٹو صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی فکر کے آثار نہیں دیکھے بلکہ میں نے انہیں پرسکون اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیکھا‘‘۔ جیل سپرٹینڈنٹ کی بات سننے کے بعد پیپلز پارٹی کے بانی نے کہا کہ انہیں پھانسی کے احکامات سزا کے 24 گھنٹے پہلے سنائے جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے زور دیا کہ جب صبح ساڑھے 11 بجے وہ اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو سے ملے تو انہیں سزا کے دن یا وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا، جس پر انہیں بتایا گیا کہ سزا کا مطلوبہ حکم نامہ جیلر کے پاس تھا۔ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ چند گھنٹے بعد دی جانے والی سزا سے پہلے اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لکھنے کے لئے سامان مہیا کرنے کا کہا۔ انہوں نے جیلر کو یہ بھی کہا کہ انہیں بلیک وارنٹ دکھائے جائیں جس پر جیلر کا جواب تھا کہ قانون کے مطابق ایسا نہیں کیا جاسکتا۔

رات 8 بجے ذوالفقار علی بھٹو نے کافی کا ایک کپ پیا اور انہوں نے جیل میں اپنے اردلی عبدالرحمان کو طلب کرکے کہا کہ وہ انہیں معاف کردے۔ رات 10 بجے کے قریب انہوں نے عبدالرحمان کو گرم پانی لانے کو کہا تاکہ وہ شیو بناسکیں۔ اس کے بعد بھٹو صاحب نے کرنل رفیع سے بات چیت کی، ’’رفیع کیا یہ ڈرامہ ہے کیا اسے اسٹیج کیا گیا ہے‘‘؟۔ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ دراصل بھٹو صاحب کو اُس وقت تک بھی یقین نہیں تھا کہ انہیں پھانسی  دی  جائے گی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید جنرل ضیاء اُن کے اعصاب توڑنے کے لئے کوئی ڈرامہ کر رہا ہے۔ اس گفتگو کے بعد چیئرمین بھٹو نے دانتوں پر برش کیا اور کچھ دیر تک اپنے بستر پر بیٹھ کر وہ کچھ لکھتے رہے۔ پھر انہوں نے وارڈن سے پوچھا کہ ان کی پھانسی میں کتنا وقت باقی ہے۔ انہیں وقت بتایا گیا جس کے بعد انہوں نے ان کاغذات کو جلا ڈالا جو انہوں نے تحریر کئے تھے۔

رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی۔ جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شمار اعلیٰ افسران موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کا بار بار جائزہ لیا جارہاتھا۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا 200 گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تھے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رات 11 بج کر 25 منٹ پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اردلی کو کہا کہ وہ کچھ دیر سونے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ رات صحیح طرح سو نہیں سکے تھے تاہم انہوں نے نصف شب کو اٹھانے کی بھی ہدایت کی۔

ایک بج کر 14 منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لئے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کر لیں۔ مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے۔ اسسٹنٹ جیل سپرٹینڈنٹ اور دیگر عملہ چاہتا تھا کہ بھٹو خود اٹھ کر ان کے ساتھ باہر چلیں مگر جب انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہیں سیل کے اندر جانے اور   ذوالفقار علی بھٹو کو اٹھانے کی ہدایت ملی۔ عملے نے اس پر عمل درآمد کیا اور بمشکل ہی بھٹو صاحب کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کرسکے۔ ایک بار پھر پی پی پی رہنماء نے جیل ڈاکٹر کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، اس موقع پر کرنل رفیع الدین کی معاونت سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تیسری بار طبی معائنہ ہوا اور ڈاکٹر نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔

رات ایک بج کر 35 منٹ کے قریب حکام کی ٹیم سیل میں داخل ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو بستر پر آرام کرتے ہوئے دیکھا۔ مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے ان سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وصیت تحریر کی ہے۔ جس پر بھٹو نے مدھم آواز میں جواب دیا کہ انہوں نے کوشش تو کی تھی مگر ان کے خیالات بہت زیادہ منتشر تھے اس لئے وہ ایسا نہیں کرسکے اور کاغذات کو جلا دیا۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پھانسی گھاٹ تک چل کر جائیں گے یا لے جائے جانے کو ترجیح دیں گے۔ اس سوال پر وہ خاموش رہے۔ کچھ سیکنڈ بعد جیل سپرٹینڈنٹ نے اپنے عملے کو طلب کیا جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دیا۔ پی پی پی رہنماء اسٹریچر پر بے حس و حرکت لیٹے رہے اور اسی دوران انہیں ہتھکڑی پہنا دی گئی۔ جب انہیں چبوترے پر پہنچا دیا گیا تو 2 وارڈنز نے انہیں پھانسی کے تختے تک پہنچنے میں مدد کی۔ ان کی ہتھکڑیوں کو اتارا گیا اور ایک بار جب ان کے ہاتھ کمر پر چلے گئے تو انہیں ایک بار پھر ہتھکڑی لگا دی گئی۔

وہاں موجود تمام افراد خاموش کھڑے رہے۔ جلاد تارا مسیح پہلے سے ہی وہاں موجود تھا اور اپنے کام کے لئے تیار تھا۔ اس نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے چہرے پر ایک نقاب چڑھایا۔ جب گھڑی کی سوئیاں 2 بج کر 4 منٹ پر پہنچی تو جلاد نے ذوالفقار علی بھٹو کے کان میں سرگوشی کی اور لیور کھینچ دیا۔ عوام کے پہلے منتخب وزیراعظم کا جسم پانچ فٹ نیچے گرا اور آدھے گھنٹے تک اسی پوزیشن پر لٹکا رہا۔ اس کے بعد ایک ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مردہ قرار دیا۔ تارا مسیح نے ذوالفقار علی بھٹو کی لاش کو اتارا اور ان کے ہاتھوں اور پیروں پر مالش کرنے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ جلاد بھٹو صاحب کے اعضا ء کو سیدھا کرنا چاہتا تھا جو کہ پھانسی کے اثرات سے مڑ گئے تھے۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر نے موت کا سرٹیفکیٹ جیل سپرٹینڈنٹ کے حوالے کیا۔ ان کی میت جیل حکام کے حوالے کردی گئی جنھوں نے اسے غسل دیا۔ بعد ازاں میت کو تابوت میں رکھ دیا گیا اور پھر چکلالہ ائیربیس لے جایا گیا جہاں ایک سی 130 طیارہ جیکب آباد پرواز کرنے کے لئے تیار تھا۔ طیارہ اڑا مگر ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد کسی خرابی کے باعث واپس لوٹ آیا۔ اس کے بعد ایک اور طیارہ میت اور حکام کو لے کر اڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہت دور بے نظیر بھٹو نے وہ رات ناقابل برداشت اذیت اور پریشانی میں گزاری۔ چار اپریل 1979ء کو علی الصبح وہ وقت تھا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو الوداع کہا جارہا تھا۔ عوام کے اپنے ذوالفقار علی بھٹو اب عوام میں   نہیں رہے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply