• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زمانہ جدید کے پیغمبر۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعیم شہزاد/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

زمانہ جدید کے پیغمبر۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعیم شہزاد/مکالمہ عظمتِ محمد ﷺ ایوارڈ

روز آفرینش سے انسان ترقی و کمال کی جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے۔ انسانی ذوق ِِِ جمال کا تقاضا ہی یہ ٹھہرا کہ کمال سے کم کوئی سطح قابل قبول ہی نہیں۔ اللہ تعالی نے بھی انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز فرما دیا اور احسان عظیم فرمایا کہ محمد کریم ﷺ جیسا رہنما میسر آیا جو انسانیت کو معراج تک لے گیا۔ آج اگر ہم زمانے میں عزت و عظمت کے متلاشی ہیں تو وہ صرف محمد کریم ﷺ کی پیروی سے ممکن ہے۔ آپ ﷺ کی اتباع اور پیروی تقاضاِ ایمان بھی ہے اور حصول سربلندی کا لازمی ذریعہ بھی۔ جسے خود مالک ارض و سماوات نے اہل ایمان کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا اور اس پیغمبر کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔
رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور تعلیم نے ہی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو  وہ بلندی عطا کی کہ وہ چلتے زمین پر تھے اور ان کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنائی دیتی۔ آپ ﷺ کی سیرت کو عملی طور پر اپنانے سے ہی ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے اندازہ تو کریں کہ وہ کیسی شخصیت تھیں  جس کے دم سے اجڈ اور گنوار معاشرہ تہذیب سے روشناس ہوا۔ جس نے معاشرت سے معیشت، گھر داری سے جہاں داری تک کے اسالیب سکھلا دیے۔ وہ اُمی نبی کیسا اچھا تھا جو بڑے بڑے دانشوروں کو مات دے گیا۔ معاشرے میں افراد کا باہمی معاملہ ہو یا کاروباری لین دین سب سکھا دیا۔ یہاں تک کہ یہود حسد کرنے لگے کہ ان (مسلمانوں) کا نبی تو عجیب ہے جو ان کو بیت الخلاء جانے تک کے آداب سکھاتا ہے۔

پھر رسول اکرم ﷺ کا انسانیت کے ساتھ جذبہ خیر سگالی و ہمدردی اس قدر کہ خالق کائنات آپ ﷺ کے بارے ” فلعلك باخع نفسك ” فرماتے ہیں۔ یہ آپ ﷺ کا انسانیت پر احسان عظیم تھا کہ اس قدر خیال کہ لہو لہان بھی ہوئے، ملک بدر بھی کیے گئے مگر دعوت الی اللہ کا فریضہ اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ ماند نہ پڑا۔

آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے جس بھی پہلو کو دیکھیں رشک آفریں اور قابل ستائش گوہر نایاب کی مانند یکتا و بے مثل ہے۔ کوہ صفا کی چوٹی سے لے کر طائف کے میدانوں تک دعوت دین کی خاطر صعوبتوں کا سامنا کرتے ہم رسول اللہ ﷺ کو پاتے ہیں۔ بدر و حنین، احد و احزاب میں پیغمبر امن کو قیام امن کے دشمنوں سے بر سر پیکار پاتے ہیں۔ مکہ کے امین تاجر بھی آپ ہی ہیں اور شاہ یثرب بھی۔ کہیں ہم آپ ﷺ کو صلح و امن کے معاہدے کرتے پاتے ہیں تو کہیں عہد شکن قوم کے لیے نشان عبرت بنا پاتے ہیں۔ الغرض میرے آقا ﷺ کی زندگی ہمہ جہت سراپا جمال و کمال نظر آتی ہے۔ ایسے ہی کمالات کی بدولت آنحضرت ﷺ اس بد تہذیب بدوی قوم کو تہذیب کی بلندیوں تک لے گئے جو شائستگی سے یکسر نا آشنا تھے۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اپنانا دینی فریضہ بھی ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی۔

ذیل میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے چنے ہوئے چند اصولوں کی طرف رہنمائی کی جائے گی جو زندگی کو نکھارنے اور معاشرے کو سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

سب سے اولین اور مقدم اللہ تعالی پر کامل ایمان، بھروسہ اور اعتقاد ہے۔ جس سے متعلق آپ کے اس ارشاد میں رہنمائی ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ دوسرے ایسا کام کیا جائے جس میں اجتماعی بھلائی کا عنصر پایا جائے اور مفاد عامہ سے وابستہ ہو۔ کبھی کبھار بڑے مقاصد کے حصول کے لیے چھوٹے اور اجتماعی مقاصد کے لیے انفرادی مقاصد کی قربانی دینے کی نوبت آئے تو دریغ نہ کیا جائے۔ حق گوئی، بے باکی، امانت و دیانت اور شائستگی جیسی پسندیدہ صفات کو اپنایا جائے۔ انسانیت اور آدمیت سے محبت کو شعار بنایا جائے جبھی ایسا ممکن ہو گا کہ ہم انسانیت کے بہی خواہ بنیں اور منفعت کو عام کریں۔ آپ ﷺ کی سیرت کا ایک پہلو بلا امتیاز عدل و انصاف بھی ہے۔ جس کی بہترین مثال اس وقت سامنے آئی جب ایک فاطمہ نامی عورت نے چوری کی اور اس کو سزا سے بچانے کے لیے آپ ﷺ کے پاس سفارش کی گئی جوابا آپ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے کہ اگر اس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے لیے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا۔ اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ جس شخص نے نا حق معاملہ میں اپنی قوم کی حمایت کی اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کنویں میں گرتے اونٹ کی دم پکڑ لے اور خود بھی ساتھ ہی جا گرے۔اللہ اللہ ایسا بے لاگ انصاف ہو تو معاشرہ کیوں ترقی نہ کرے۔ کیوں نہ ایسے معاشرے میں امن و سکون    قائم نہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے انسانیت کی تکریم کے لیے مختلف درجات اور طبقات میں تقسیم کر دیا۔ کہیں والدین کی صورت تو کہیں اولاد کے طور پر، کہیں بطور ہمسایہ تو کہیں بطور مہمان و رفیق۔ غرض ایک مربوط معاشرہ تشکیل دیا جس میں انسان ایک بنیادی اکائی ہے اور معاشرہ انسانوں کے باہمی سلوک سے وجود پانے لگا۔ ایسی ایسی ایثار و قربانی کی مثالیں سامنے آئیں کہ انصار صحابہ نے نصف اموال مہاجرین کے لیے پیش کر دیے اور چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جنگ کے میدان میں شدید زخمی حالت میں تین مجاہدین اسلام جان ایک دوسرے پر وار دیتے ہیں کہ ان کے پیش نظر اپنے بھائی کی پیاس خود پر مقدم ہوتی ہے۔ تو اگر آج بھی نفسا نفسی کے اس عالم میں ہم ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں تو ہمیں وہی اصول اپنانا ہوں گے جو اللہ کے نبی ﷺ کی سیرت کا روشن باب بن گئے۔

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔۔۔

اس کے علاوہ جب آنحضرت ﷺ پر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ ﷺ اس ناگہانی واقعہ سے مضطرب اور متفکر ہوئے تو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے آپ ﷺ کو تسلی و تشفی دینے والے الفاظ کو حرز جاں بنائیے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملانے والے ہیں، بیواؤں اور لاوارث لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں، محتاجوں کو کما کر دینے والے ہیں، مہمانوں کی مہمانداری کرنے والے ہیں اور لوگوں پر آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کرنے والے ہیں۔

یہ وہ چند اوصاف حمیدہ کا بیان تھا جو رضائے الہی کے حصول کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو جنت نظیر بنا دیتے ہیں۔
تو آئیے ہم عہد کریں کہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنائیں اور اس دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنا دیں۔

معاشرتی زندگی کا وہ کون سا پہلو ہے جس پر میرے آقا ﷺ کی سنت ہماری راہبری نہیں کرتی۔ موجودہ دور عمدگی اور کاملیت و اکملیت کے عروج کا دور ہے۔ ہر کام کے لیے معیاری طریقہ کار وضع کیے جا رہے ہیں جن کی بنیاد پر بڑی بڑی کمپنیاں اور کارخانے اعلی اداروں اور محکمہ جات سے سند پاتے ہیں اور یہ سند جو بین الاقوامی معیاراتی تنظیمیں ISO Certification دیتی ہیں کسی بھی ادارے کا اثاثہ ہے۔ انسان کے لیے بھی اس کے خالق نے ایک معیار اور نمونہ مقرر کر دیا ہے اور واضح کر دیا کہ صرف وہی عمل قبول ہو گا جو اس کے مطابق ہو گا۔ ورنہ خوبصورت سے خوبصورت اور بڑے سے بڑا عمل بھی بے سود، رائیگاں اور مردود ٹھہرے گا۔ اور وہ نمونہ ہے رسول اللہ ﷺ کی ذات کا اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا۔ جو شخص جس قدر اس سے مطابقت پیدا کرے گا بارگاہ الہی میں اتنا ہی وہ مقبول ہو گا۔ آج جب ہم اس دور میں زندہ ہیں جب حاسدین اور انبیاء کرام کے ازلی دشمن جن کے ہاتھ اپنے انبیاء کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ہمارے رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور ان کے خاکے شائع کرتے ہیں تو ہمیں ان کو روکنے کا اقدام کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو عملا اپنانا چاہیے تاکہ کفار و مشرکین رسول اللہ ﷺ کے لیے ہماری محبت و وارفتگی کو جان سکیں اور ہم فتنہ کے اس دور میں سنت نبوی ﷺ عام کر کے جہالتوں کی تاریکیاں دور کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply