پڑیے گر بیمار تو(9،آخری قسط)۔۔فاخرہ نورین

کرونا ایک آزمائش اور امتحان تھا ۔میرے ساڑھے چار سال کے دکھ ایک طرف اور اس کی یہ بیماری ایک طرف تھی ۔میرا حساب برابر نہیں ہوا بلکہ اس کی طرف کا پلڑا جھک گیا ۔
میری تکلیف میں وہ کم از کم واقف تو ہوتا تھا، میں سسے بے خبر بنی اسے کبھی سزا کی دھمکیاں اور کبھی بے وفائی کے طعنے دیتی رہی ۔میری نظر میں میرا جرم اس کی ہر غلطی پر حاوی ہو گیا ۔ مجھے اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، جیسے اس سے میں نے چاہا تھا ۔ اس سے بدگمانی کی بجائے ابتدا ہی میں ہمدردانہ غور کرنا چاہئے تھا ۔ دنیا میں اس سے زیادہ کون میری توجہ اور خوش گمانی کا حقدار تھا ۔ میں نے اپنے اور اس کے رشتے کو اتنا کمزور اور روایتی کیسے سمجھا ۔
سو اس وبا نے مجھے اس کی رفاقت، اس کی اپنی ذات کی اہمیت سکھا دی ہے ۔
دنیا میں ہر رشتے کی بنیاد کسی نہ کسی لالچ اور غرض پر ہے لیکن یہ رشتہ صرف قربت کی
طلب پر کھڑا ہے ۔ جسمانی، ذہنی، جذباتی اور جنسی ہی نہیں معاشرتی اور مالی آسودگی اور باہمی انحصار کے جن دھاگوں سے یہ غالیچہ بنا جاتا ہے کوئی اور رشتہ اس ہمہ گیری کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
سسرالی رشتوں کے مسائل، مالی مشکلات اور مادی چیزوں کی طلب، روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی بدمزگیاں یہ سب کیسے پیش منظر میں آ کر محبت اور تعلق کو پس منظر میں لے جاتی ہیں، کیسے آپ کی توجہ کا مرکز غلط ہو جاتا ہے یہ میں نے اس وقت محسوس کیا ۔
باہر لے ملخ رہنے والی اے ٹی ایم مشینوں کو صرف پرسش احوال کے لئے کوئی فون نہیں کرتا ۔ وہ بھلے دو مہینے بیمار ہو جائیں کوئی ان کی خبر لینے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ آپا دھاپی اور نفسا نفسی کے عالم میں کسی کو دوسرے کی خبر نہیں لیکن ہم جو غرض، ضرورت یا طلب نہیں ہم سری کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں
ہم قربت کو کیسے غیر اہم سمجھنے لگ جاتے ہیں؟
اشیاء کی قیمت اور وقعت کے بازار میں سب سے کم قیمت جنس جیون ساتھی کیوں ہوتا ہے؟
ضروریات زندگی کی کان کنی میں بھلے تعلق سے احساس کی ڈوری ٹوٹ جائے، ہمارے لئے یہ معنی کیوں نہیں رکھتا؟
دستیاب شخص ہوا کی طرح ناگزیر اور وافر میسر ہے تو پھر اور کیا چاہیے؟ سب کچھ ہے اور وہ نہیں تو کیا یہ کوئی منافع بخش سودا ہے؟
ایک شخص جس کی آواز آپ کو اچھی لگتی ہو، جس کی مغرور ناک کے آپ عاشق ہوں، جس کے ہنسنے سے سارے میں پھول کھلتے ہوں، جس کے ہاتھ پیر آپ چوم سکتے ہوں، جس کا مینی پیڈی کیو ر اور فیشل کرتے آپ اس کے ساتھ موسیقی سن سکتے ہوں، جس کی آنکھوں پر ہونٹ رکھنا سکھ دیتا ہو، جس سے آپ کے بدن اور روح کی کوئی ضرورت کوئی اشارہ پوشیدہ نہ ہو، جس کے بالوں میں آپ انگلیاں پھیر کر اسے سلا سکتے ہوں اور جو نیند میں آپ کی موجودگی محسوس کر کے مسکراتا ہو، جو نیند کے تسلسل میں بھی لو یو سو مچ کہہ سکتا ہو، اور جس کے بازو پر سر رکھ کر سونے کی عیاشی کے ساتھ ساتھ آپ انگلی سے شرارت کر کے جگا سکتے ہوں ۔نیند سے اس طرح اٹھائے جانے پر وہ غصہ کرنے کی بجائے مسکرا کر آپ کو تھینک یو کہہ سکتا ہو، کیا زندگی میں اس سے زیادہ کچھ طلب کرنا بیماری نہیں ہے؟
اس رشتے کو گاڑھے شیرے میں ڈبوئی جلیبی سمجھیے، سسرالی رشتے دار، مالی مسائل، باہمی جھگڑوں کے چیونٹے اور ریت رواج کی مکھیاں شیرے کی طرف لپکتی رہیں گی ۔آپ انھیں مورٹین سے سپرے کر کے ماریں گے تو جلیبی بھی زہریلی ہو جائے گی بس ایک باریک سی جالی رومان بھری، محبت سے تان دیجیے ۔ جلیبی جس قدر شیرے میں ڈوبی ہو گی مکھیوں اور چیونٹوں کی مرکز نگاہ بنے گی، یہ
فطری ہے ۔مکھیاں اور چیونٹے نہیں جلیبی اہم ہے اسے ڈھانپنے کا سلیقه سیکھیے ۔
ازدواجی جلیبی کی خوشبو، رنگ اور مٹھاس محفوظ رکھیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply