لسانیات و معاشرتی شعور۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

زبان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی کہ انسانی شعور کی، شعور (بلکہ خود شعوری) کی نعمت سے دوسرے جاندار محروم ہیں، اسی لئے وہ زبان سے بھی محروم ہیں، بس مختصر اشارے، کنائے اور چند آوازیں ہیں جن کی مدد سے یہ بے زبان مخلوقات ضرورت کے وقت ایک دوسرے کو کچھ پیغامات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ کسی بھی جاندار کا کُل موادِ مواصلات اس جاندار پہ بِیتَتی صورتِ حال ہے، وہ بھی خالصتاً نفسی، یعنی کہ مخصوص وقت میں مخصوص نفسی خواہش کے اظہار کی صلاحیت جانداروں میں موجود ہے، جیسا کہ بھوک، خوف، جنسی خواہش وغیرہ، اس سے زیادہ کی “گفتگو” کے وہ اہل نہیں۔
حضرتِ انسان کی گفتگو جب مخصوص صورتِ حال سے نکل کر ماضی کی یادوں، مستقبل کے ارادوں اور حال کے تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں تک پھیلی تو تدریجاً شعورِ آدم کی پرواز بلندتر ہوتی دکھائی دی، اس ارتقاء کو حقیقی انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے،

ابتداء میں آلاتِ اظہار بہت محدود تھے، کسی تصویر یا شکل، ہندسے، اشارے یا مخصوص آواز وغیرہ سے مدد لی جاتی تھی، وقت کے ساتھ جب اجتماعیت نے زور پکڑا اور معاشرے وجود میں آنا شروع ہوئے تو انسان کو ذرائع اظہار وسیع تر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اسی ضرورت نے ذہن کے تصوّراتی مرکز کی پرورش کی، کہ اشارہ جات و مخصوص آوازیں جو مختلف اشیاء کے متعین نام تھے ، ان کا زبانی تلفّظ ادا کرتے وقت ان اشیاء کی باقاعدہ تصویر اور اس کی متعلقہ خصوصیات کا نقشہ ذہن میں بننا شروع ہوا، یہی شعور کے پھیلاؤ کا نکتۂ آغاز ہے، یہیں سے باقاعدہ زبانوں نے جنم لیا، ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ انسانی شعور کی وسعت نے بھی خوب پر پھیلائے، شعور اور زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، بچوں کی پرورش کے دوران اس نکتے کا خوب مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

ہر لفظ جو آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے، اس لفظ کی باقاعدہ ایک تصویر یا خاکہ آپ کے ذہن میں بنتا ہے، الفاظ کے ذخیرے کے ساتھ یہ تصاویر اور خاکے بڑھتے جاتے ہیں، ذہن کی صلاحیتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں، ان الفاظ کی ادائیگی کو اگر شاعری ،اور ذہن میں بنتی تصاویر کو مصوّری سے تعبیر کیا جائے تو یہ جان لیجئے کہ انہیں شاعری اور مصوری کے درمیان رابطے کا نام، تخلیقی وتخلیاتی صلاحیت، ہے، یہ رابطہ جتنا مضبوط ، خوبصورت، فصیح اور بلیغ ہو گا، ذہن میں مذکورہ صلاحتیوں کے پیدا اور بیدار ہونے کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے۔

انسان اپنی تقریر و گفتار میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے، اور انہیں ضروری شکل دیتے ہوئے ان کا تجزیہ کر پاتا ہے، یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ اپنے کہے الفاظ کا صحیح مفہوم یا ان کی شدّت ،انسان دوسروں کے دئیے ردِ عمل سے ہی سمجھ پاتا ہے،
اس بات سے ہر شخص واقف ہے کہ ابتدائی عمر میں ذہن پر بنے نقوش مضبوط تر ہوتے ہیں، یہی معاملہ شعور و زبان کے درمیان ہے، انسان جس زبان کو اپنے بچپن میں سیکھتا، سنتا اور بولتا ہے، اس زبان کا اثر اس کے ذہنی شعور میں گہرا تر ہوتا ہے ، وقت کے ساتھ مختلف زبانیں سیکھنے کے باوجود عموماً انسان اپنی مادری زبان میں سوچتا ہے (قومی زبان بھی مادری زبان کا درجہ لے سکتی ہے، اگر روزمرہ بنیادوں پر اسی زبان میں امورِ زندگی انجام دیے جا رہے ہوں، مگر شرط یہی ہے کہ یہ ابتدائی عمر میں ہی سیکھی گئی ہو)، اور ایک ایک حرف کی اہمیت اس کے ذہن ، شعور، حتی کہ کردار پہ نقش ہوتی ہے، اس کی باقاعدہ مثال دی جا سکتی ہے، کسی شخص سے اظہارِ محبت کرنے کیلئے آپ اپنی مادری زبان میں جو مشکل محسوس کرتے ہیں، وہ I love you بولنے میں محسوس نہیں کرتے، اسی طرح “میں آپ سے معافی مانگتا ہوں” کہتے وقت دانتوں پہ پسینہ آتا محسوس ہوتا ہے، مگر sorry کہنا انتہائی آسان ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر زبان کے الفاظ کے معانی جاننے کے باوجود ہم ان الفاظ کی شدّت سے واقف نہیں، الفاظ کا صحیح وزن صرف اپنی زبان میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے، یہی معاملہ ذہن کی تخیلاتی و تخلیقی صلاحیتوں کا ہے، یہ تمام صلاحیتیں صرف تب ہی برؤئے کار لائی جا سکتی ہیں جب مکمل تعلیمی نظام اسی زبان میں ہو جس زبان میں آپ سوچتے ہیں، یعنی کم ازکم قومی زبان میں، اگر ایسا نہیں تو تعلیم کیلئے میسّر زبان جاننے کے باوجود آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری کا سامان کرنے سے قاصر ہیں۔

زبان کے دو ہی مقاصد ہیں، وسیلہ ء مواصلات اور آلۂ تخیّل، اول الذکر سے تمام ارباب واقفیت رکھتے ہیں، مگر اس طرف بہت کم دھیان جاتا ہے کہ فکر کی حسّاسی بنیاد کا سہرا زبان کے سر ہے، شعور کا نہ صرف اظہار بلکہ تشکیل بھی زبان کی مرہونِ منت ہے۔ ان دو کے درمیان تعلق قطعاً اجمالی نہیں، بلکہ خالصتاً عضلاتی ہے، ایک کو دوسرے سے جُدا گرداننے کی کوشش ، زبان و شعور، دونوں کیلئے باعثِ تباہی ہوگا۔

جہاں تک فردِ واحد کی بات ہے تو اس کیلئے مختلف و نئی زبانوں کے سیکھنے کا عمل ذہن کی سیرابی کہلایا جا سکتا ہے ، یہ مفید عمل ذہن کے مختلف خلیوں کو بیدار کرتے ہوئے انسان کیلئے وسعتِ نظر کا باعث بنتا ہے، مگر تخلیقی صلاحیتوں کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ تحقیقاتی و علمی مصروفیات و مباحث اسی زبان میں ہوں جس زبان میں فرد سوچتا ہے، کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ عوام کی اکثریت ایک ہی زبان میں سوچتی ہو، وگرنہ ذہنی ہم آہنگی کا فقدان رہے گا، افریقی ملک کینیا میں کم آبادی کے باوجود چالیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، نتیجتاً نہ صرف تبادلۂ خیال، امورِ کاروباری، رائے زنی میں شدید مشکلات ہیں، بلکہ اکثر یہی عناصر مختلف نوعیت کے تعصّبات کو ہوا دیتے محسوس ہوتے ہیں، اس لیے ایک متحد معاشرے کا تصوّر وہاں مشکل دکھائی دیتا ہے، چہ جائیکہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ۔

اس کا ایک اور منفی پہلو یہ بھی ہے کہ جب پیشہ وارانہ تعلیم غیر زبان میں ہوگی، جیسا کہ ہمارے ہاں ہے، تو ایسے فارغ التحصیل ماہرین اور عوام الناس کے مابین ، لسانیات کی بنیاد پر ایک خلا وقوع پذیر ہوتا ہے، اور اس خلا کا یہ ماہرین بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے عام فرد کا ہر سطح پر استحصال کرتے ہیں، جیسا کہ انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طب، قانون ، فنانس و دیگر شعبہ جات کے ماہرین ،بھاری بھر کم انگریزی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کو لوٹتے آ رہے ہیں۔

یہاں اختلافی نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ چین اور عرب ممالک جن کی تعلیم مادری زبان میں ہے، ان اقوام نے تحقیق میں کیا کارنامے انجام دئیے ہیں؟، یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی معاشرے میں تخلیقی و تحقیقاتی صلاحتیوں کے اجاگر کرنے میں زبان کی اہمیت کے علاوہ، آزادئ خرد ضروری عنصر ہے، بلکہ شاید یہ عنصر معاشرے کی ترقی کیلئے اہم ترین ہے، بدقسمتی سے ان معاشروں میں مذہب، بادشاہت اور نظامِ اشتراکیت وغیرہ کی بدولت آزادئ خرد ، بزورِ بازو، ناپید ہے، لیکن اس کے باوجود زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وطنِ عزیز میں نفاذِ اردو کی بابت جو احباب متحرک ہیں، خاکسار کی نظر میں ان افراد کو اپنی کوششوں کی بنیاد مذکورہ وجوہات کو بنانا چاہیے، مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان تحریکوں میں قومی زبان کو غیر ملکی زبانوں کی نسبت برتر ثابت کرنے پر ساری توجہ اور توانائیاں صرف ہو رہی ہیں، معاشرہ اس کوشش کو لسانی تعصّب سے تعبیر کرتے ہوئے سنجیدہ نہیں لے پا رہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply