بات مطالبات کی نہیں، نیت کی ہے.۔۔۔۔۔ہارون وزیر

میں نے  دو دن پہلے  انڈین نیوز انٹرنیشنل( ANI) کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی. اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پشتون علیحدگی تحریک کے ایک رہنما نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی آرمی نے سوات اور وزیرستان میں سینکڑوں جوان پشتون عورتوں کو اغواء کیا ہے اور ریپ کرنے کے بعد لاہور کی ہیرا منڈی میں بھیج دیا ہے. جس سے وہ پیسہ کما رہے ہیں.

اس الزام کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے. بندہ اس پر مزید کیا بات کرے. صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے. ویڈیو اپلوڈ کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس ویڈیو کو ڈسکس کیا جائے بلکہ یہ تھا کہ آپ کو اس “علیحدگی پسند رہنما” کے بارے میں بتا کر اپنی بات آگے بڑھا سکوں. اس نام نہاد “علیحدگی پسند” رہنما کا نام عمر داؤد خٹک ہے. یہ ضلع کرک کا رہائشی ہے. اسے غالباً 2014 میں لانچ کیا گیا تھا. اس ون مین موومنٹ کو بیک وقت انڈیا اور افغانستان سے پروموٹ کیا جاتا رہا. اس کو انگلش سکھائی گئی. میڈیا کے سامنے بات کرنے کا ہنر سکھایا گیا. اس کے انٹرویوز کئے گئے. یہ کافی عرصہ افغانستان میں رہ کر پاکستان کے خلاف بھونکتا رہا. بعد میں انڈیا گیا. انڈیا میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا. اس کے انٹرویوز کئے گئے. جس میں اس نے کم و بیش یہی الزام بار بار دہرایا. یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ عمر داؤد خٹک نے انڈیا جاکر ہندوازم قبول کر لیا.

2014-2015 میں یہ تن تنہا پشتونستان تحریک کا سب سے بڑا لیڈر تھا. عمر داؤد کی ہر تصویر میں آپ کو پشتونستان کا جھنڈا نظر آئے گا. ٹھیک انہی دنوں منظور احمد محسود AKA منظور پشتین بھی پشتونستان تحریک کا ورکر تھا. لیکن عمر داؤد کے مقابلے میں بہت چھوٹے لیول کا. پشتونستان کے اسی جھنڈے کے ساتھ منظور کی تصاویر سب نے دیکھ رکھی ہیں. پشتونستان کا جھنڈا ہم پاکستانیوں کے لئے سرخ لکیر ہے. اور منظور اسے کراس کر چکا ہے.


میں ایک دن عاطف توقیر صاحب کی ایک تحریر پڑھ رہا تھا. جو اس نے منظور پشتین کے حق میں سوال و جواب کی صورت میں لکھی  تھی . اس تحریر کا لب لباب یہ تھا کہ منظور نے نہ تو آئین توڑا ہے نہ اس نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھایا ہے. نہ وہ کسی جرم میں ملوث ہے تو پھر صرف کسی شخص کی نیت پر شک کرکے کسی کو غدار کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے. عاطف توقیر صاحب نے اپنے تئیں بالکل ٹھیک کہا ہے لیکن میں یہاں پر ایک مثال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں.

ہوا یوں کہ جب حضور پاک صلعم اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو ارتداد کا فتنہ اس زور سے اٹھا کہ ریاست مدینہ کی بقا خطرے میں پڑ گئی. دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ بقائے اسلام خطرے میں پڑ گیا تھا. اس وقت کافی سرداروں بشمول کچھ عورتوں نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا. انہی جھوٹے نبیوں میں تیسرے نمبر پر دعویٰ کرنے والے کا نام طلیحہ بن خویلد اسدی تھا. طلیحہ بن خویلد اسدی وہی تھا جس کے خلاف خالد بن ولید نے بزاخہ کی مشہور لڑائی لڑی تھی. اور اسے شکست فاش دی تھی. پھر وہ وہاں سے شام فرار ہوگیا تھا. طلیحہ بن خویلد اسدی نے فتح شام کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا.

قبول اسلام کے بعد اسی طلیحہ نے کافی جنگوں میں اسلام کے لئے داد شجاعت دی. یہ اتنا بہادر تھا کہ جب سعد بن ابی وقاص نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کمک مانگی تو حضرت عمر نے دو بندے کمک کے طور پر یہ کہہ کر بھیجے کہ یہ دو بندے دو ہزار سپاہیوں کے برابر ہیں. ان دو میں سے ایک عمرو بن معدیکرب اور دوسرا یہی طلیحہ بن خویلد اسدی تھا. اتنی بہادری اور خدمات کے اعتراف کے باوجود بھی حضرت عمر نے طلیحہ کو کبھی کوئی عہدہ نہیں دیا. حالانکہ وہ بہت سارے سپہ سالاروں سے بہتر تھا. اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے ایسے کسی بھی فرد کو کبھی بھی کوئی عہدہ نہیں دیا جو فتنہ ارتداد کا ایک بار بھی شکار رہ چکا تھا. یہی طلیحہ بن خویلد اسدی کا قصور تھا.

Advertisements
julia rana solicitors

اب اسی precedent پر منظور پشتین کو رکھ کر دیکھیں. کیا ایسے کسی شخص پر اعتبار کیا جاسکتا ہے جو پشتونستان جیسی غدارانہ تحریک کا کبھی حصہ رہ چکا ہو. اس کے مطالبے جتنے بھی آئینی کیوں نہ ہو. جتنا بھی دستور کے اندر کیوں نہ ہو. منظور جتنا بھی معصوم کیوں نہ بن جائے. وہ اس سرخ لکیر کو ایک بار کراس کر چکا ہے.
منظور کے سپورٹرز بلاشبہ محب وطن ہیں. مجھ سے کہیں زیادہ ہیں. ان کے Grievances بالکل جینوئن ہیں. لیکن منظور اور اس کے ساتھ پی ٹی ایم کی سرگرم موجودہ ٹاپ لیڈر شپ پاکستان کے وجود سے نفرت میں بالکل کلئیر ہیں. اسی لئے عاطف توقیر صاحب سے ہماری عرض ہے کہ ہمارا اختلاف ان کے مطالبات سے نہیں ہے. ان کی نیت سے ہے. ان کے مطالبات کے پیچھے چھپی سوچ سے ہے. انہی مطالبات کی پورے پاکستان نے اسلام آباد دھرنے کے وقت یک زبان ہو کر حمایت کی تھی. اگر مطالبات سے کسی کو اختلاف ہوتا تو اس وقت کوئی حمایت نہ کرتا.
اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ
بات مطالبات کی نہیں، نیت کی ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply