خوابی فالج۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

تصوّر کیجئے کہ آپ بیدار ہونے کو ہیں، مگر اس حد تک عاجز کہ اپنی انگلیوں کی پوروں کو بھی حرکت دینے سے قاصر ہیں، آپ کے کمرے میں اگرچہ اندھیرا سا ہے، مگر آپ کسی غیر مرئی مخلوق کی موجودگی کو بآسانی محسوس کر سکتے ہیں، گویا کہ آپ کے بستر کے پاس کوئی قوتِ جابر آپ کے خلاف محوِ شر ہے، بلکہ گاہے آپ کی چھاتی پر براجمان ہے، اور آپ کو سانس لینے سے روکے ہے۔ آپ ایک انجانے مگر شدید خوف میں مبتلا ہیں، اور پوری کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طریقے سے نیند سے بیدار ہوپائیں کہ یہی واحد حل ہے اس شیطانی طلسم سے نکلنے کا، آپ اپنے تئیں چیخنے کی کوشش کرتے ہیں مگر چیخ نہیں پاتے، خود کو بستر سے گرانے کیلئے کروٹ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید ایسے اس حالتِ خوف سے نجات مل پائے مگر آپ کا جسم آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں اور کسی بھی قسم کی حرکت سے انکاری ہے، یہ لاچارگی مزید خوف کو جنم دیتی ہے۔ طِب میں اس عجیب و غریب کیفیت کو ، sleeping Paralysis, کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا اردو ترجمہ غالباً، خوابی فالج، ہوگا۔

مافوق الفطرت مخلوقات پر یقین سے یہ کیفیت اچھی خاصی بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے، مگر یہ ایک خالصتاً طبی مسئلہ ہے، اور اس کیفیت سے گزرنے والے افراد کیلئے جسمانی و نفسیاتی طور پر کسی خطرے کی کوئی خاص بات نہیں۔ اس صورتحال سے ہر شخص نہیں گزرتا، زیادہ تعداد میں لوگ اس کیفیت سے واقف نہیں، کچھ افراد زندگی میں ایک دو بار ہی یہ تجربہ کر پاتے ہیں، اور دوسرے اکثر یہ ظلمِ ناحق سہتے رہتے ہیں۔ فارسی کے مشہور شاعر ابو عبداللہ جعفر رداکی کے قول ” علم ہر مشکل کے سامنے ایک زرّہ کا کام دیتا ہے “، کو بنیاد بناتے ہوئے ہم مذکورہ مشکل کو اگر طبی و علمی سطح پر جان پائیں تو اپنے لئے گویا کہ ایک زرّہ تخلیق کر پائیں گے جو ہمیں اس ناگہانی بلا سے محفوظ رکھنے میں مدد دے گی۔ نیند و بیداری کی حالتوں کے دوران جسم و دماغ کے تعلق کو سمجھنے سے یہ معمّہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے، یہ بات جان لیجئے کہ نیند کی دیوی سے ہم آغوش ہوتے وقت پہلے انسان کا جسم اس وادی میں قدم رکھتا ہے، اور کچھ دیر ،جزوی متحرک رہنے کے بعد دماغ ،جسم کا ساتھی جا بنتا ہے، جسم کے سوتے ہی اولاً دماغ کیلئے ضروری ہے کہ اپنے ماتحت وہ حصّے جو جسم کی حرکت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں، ان کو سُن کرے، اور اس کے بعد چاہے گھوڑے بیچ کر سو جائے، اگر ایسا نہ ہو تو حالتِ خواب میں انسان اگر جسمانی حرکت کرے گا تو اس کا حقیقی جسم بھی بستر سے اٹھ کر وہی حرکت دہرائے گا.

مختصر یہ جان لیجئے کہ بوقتِ نیند پہلے جسم سوئے گا، پھر دماغ، مگر جاگتے وقت معاملہ الٹ ہے، پہلے دماغ جاگے گا تاکہ وہ جسم کی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھ سکے اور اردگرد کے ماحول و “جائے وقوع” کی سُدھ بدھ کے ساتھ انسان کو بیداری کے وقت مناسب ردّعمل کی ترغیب دے سکے۔ مگر کبھی کبھار کسی شخص کے ساتھ معاملہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ بوقتِ نیند دماغ پہلے سُن ہو جائے اور جسم ابھی ہوشیار ہو (ایسا بہت کم ہوتا ہے)، یا پھر بوقتِ بیداری دماغ تو ابھی تک خوابِ خرگوش میں مبتلا ہو اور جسم بیدار ہو جائے (عموماً خوابی فالج بوقتِ بیداری ہی پایا جاتا ہے)، ایسی حالت میں انسان اپنی خواہش کے مطابق کوئی حرکت نہیں کر سکتا، کیونکہ دماغ کے وہ حصّے جو حرکات و چند دیگر لوازمات کے ذمہ دار ہیں ، وہ ابھی بیدار نہیں ہو پاتے، اگرچہ ذہن کے دوسرے حصے بیدار ہوتے ہیں، اسی کیفیت کو خوابی فالج سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کیفیت میں غالب ترین عنصر، خوف ہے، اور خوف کی بنیاد انسان کا قوتِ فعالیت سے چھن جانے کا احساس ہے، یہ کیفیت زیادہ تر کمر کے بل سوتے وقت حملہ آور ہوتی ہے، اگرچہ دائیں یا بائیں کروٹ پہ سوتے وقت بھی پائی جا سکتی ہے، اس کیفیت میں خوف کے علاوہ دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، چھاتی پہ بوجھ کامحسوس ہونا، سانس کا بوجھل ہونا، ایک دائرے میں جسم کا گھومتے محسوس ہونا وغیرہ عام دیکھنے و سننےمیں آئی ہیں، اسی طرح اگر کیفیت میں کچھ شدت ہے تو انجان آوازوں کا سنائی دینا، اور کسی انجان وجود کو محسوس کئے جانے کی شکایات پائی جاتی ہیں، یہ عمل چند سیکنڈز سے لے کر دو منٹ تک طویل ہو سکتا ہے، اگرچہ جس پر یہ قیامت بیت رہی ہوتی ہے، اس کیلئے یہ اوقاتِ طوالت ، ہجرِ محبوب کے عذاب سے بھی زیادہ طویل واقع ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مختلف تہذیبوں میں اس معمّے کو سمجھنے کیلئے مافوق الفطرت تعبیرات کی مدد لی جاتی رہی، بلکہ اب تک جاری ہے، اور یہی اس ناسور کی جڑ ہے کہ جو حالتِ خوف کو مزید بھیانک بنا دیتی ہے، ہمارے ہاں اس کیفیت میں مبتلا ہونے کو عموماً جنات یا ہمزاد کے حملے سے تعبیر کیا جاتا ہے، سلاوین نسل کے لوگ بھی اسے جنات، جادو اور دیو وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں، جاپانی اسے ایک لوک افسانوی راکسش، کاناسیباری، کی کارستانی مانتے ہیں جو اپنا دیوہیکل پاؤں سوئے ہوئے انسان کی چھاتی پہ رکھتا ہے، مگر یہ سب افسانے و خوف میں مبتلا لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں۔ اس مسئلے سے دوچار افراد زیادہ تر وہ ہیں جو اپنی نیند کا خیال نہیں رکھتے، اور ان کے آرام کے کوئی اوقات مقرر نہیں، ذہنی دباؤ اس کی دوسری بڑی وجہ ہے، اسی طرح سگریٹ نوشی، نسوار یا دیگر منشیات وغیرہ بھی مذکور کیفیت کا باعث بنتی ہیں، جینیاتی عنصر بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتا ہے، اگرچہ اس کی کوئی ایک بنیادی و ٹھوس وجہ آج تک دریافت نہ ہو پائی۔ اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے،
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر آپ خدانخواستہ دل یا شریانوں کی کسی سنجیدہ بیماری میں مبتلا نہیں تو یہ کیفیت آپ کیلئے قطعی نقصان دہ نہیں، صرف چند تکلیف دہ لمحات ہیں اور بس،سب سے پہلے اپنے نیند اور آرام کے اوقات درست کیجئے، ذہنی دباؤ سے نکلئے، خوش رہنے کی کوشش کیجیے، ہمہ قسمی منشیات سے پرہیز کیجئے، تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ تجزیاتی اذہان اس کیفیت کا کم ہی شکار ہوتے ہیں، اگر ہوں بھی تو جلد چھٹکارا پا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر آپ پر کبھی یہ “بِچھوا ” حملہ آور ہو تو سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی سانسوں کو گننا شروع کر دیجئے، اس تجزیاتی عمل سے ذہن کی فعالیت فوراً بحال ہو جائے گی اور آپ اس کیفیت سے جلد ہی باہر نکل پائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply