استنبول کا لینڈ مارک توپ کپی میوزیم۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط5

سچ تو یہ تھا کہ نئی اور اجنبی سرزمینوں پر اپنے وجود کو عجز کے جذبوں میں لپیٹ کر عبودیت کے گہرے احساس کے تحت جھکانا اور پیشانی کو زمین پر رکھنا ایک ایسا مسرورکن اور لطیف عمل ہے جس کی لذت کی وضاحت ممکن ہی نہیں۔ شوق کی فراوانیوں نے بڑھاپے کو پچھاڑ دیا تھا پر گُھٹنوں کی تکلیف نے ان لذتوں کے حصول کو کسی قدر مشکل بنا دیا تھا۔ سجدے تو ضرور دئیے پر وہ میاں مدن کی سی بات کہاں؟جسم و جان میں بھری بجلیاں تو قصہ پارینہ معلوم ہوئیں۔ شاید اسی لیے صبح اُٹھتے ہی میرا نزلہ خود پر اور اوپر والے پر گِلے کی صورت میں گرتا۔
میں بڑی کمبخت ہوں۔گلے شکووں کی ایک پٹاری۔جو ملا اُس پر شکر کم کم۔جو نہیں ملا بس سارا سیاپا اور سارا رولا اسی کا۔وجود کے اندر جتنی بھی طاقتیں ہیں۔دل،دماغ اور ضمیر سب ہی بڑے تیز اور چلتر باز ہیں۔ایک دوسرے کے مقابل بڑی جی داری سے صف آرا ہوتے ہیں اور تیا پانچہ کردیتے ہیں۔
اُس صبح بھی ایسا ہی گھمسان کا رن پڑا تھا۔
”کچھ تجے تکلیف تھی جو تو جوانی میں میرا یہاں آنا نصیب کرتا۔“اوپر والے سے گلہ شکوہ شروع ہوا۔
”ارے روپیہ پیسہ تو تیرے پاس اگر جوانی میں نہیں، اُدھیڑی عمر ی میں تو آہی گیا تھا۔پھر تجھے موت پڑتی تھی ارادے باندھتے ہوئے۔“اللہ کی محبت میں لُتھڑا کوئی جذبہ آگے بڑھا تھا۔
”لعنت ہے تجھ پر۔اپنے آپ ہی تبرّوں کے گولے برساتی رہتی ہو۔اوپر والا تیرا دانہ پانی سمے کی گھڑیوں میں گوندھ کر تیرے نصیبوں میں لکھتا تب آتی نا۔چل اب صبر شکر کراُ س کا۔ اب بھی اگر وہ یہ مہربانی نہ کرتا تو تو نے اُس کا کیا کرلینا تھا۔“
اب لمبی سی سانس کا اندر سے نکلنا بھی ضروری۔وہ نکلی اور ساتھ ہی ایک عدد مزید مکالمہ۔
”ہاں بھئی ہم مجبور بے بس بندے۔ زور تھوڑی ہے کوئی اس پر۔“
اب جب سب ایک دوسرے کو لتاڑ بیٹھے تو قدرے سکون ہوگیا۔
توپ کپی پیلس جانا تھا۔ کمرے میں آتے ہی میرے ”چلو چلو“کا شور مچانے نے اُس کا تفصیلی میک اپ کرنا دشوار کر دیا تھا۔
”سُنو“
اُس نے قدرے غصیلی، قدرے ترحم آ میزسی نگاہ میرے اوپر ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ میں تمہاری طرح منگتوں جیسے حُلیے میں اُٹھ کر باہر نہیں جا سکتی ہوں۔“
توپ کپی جانے کے لیے ہم لوگ بلند و بالا کائی زدہ فصیل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کی بھاری بھرکم تاریخی حیثیت کو یاد کرتے کہ بنانے والے تو صدیاں گزریں رزق خاک ہوئے مگر یادگاریں ابھی بھی کسی نہ کسی صورت باقی مالکوں کو اتا پتہ دیتی ہیں۔پہلی تعمیر طیودوس Theodosius اور ہرقل کے زمانوں میں ہوئی۔نئے بادشاہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے کرتے گئے۔
گل ہانہ پارک میں سے اُس راستے کی طرف مڑے جو قدرے بلندی کی طرف مائل تھا۔ پہلی ٹرن پر آرکیالوجی میوزیم کے سیاہ آہنی گیٹ سے آگے بڑھتے ہوئے ہم مسلسل اونچائی کی جانب گامزن رہے۔ پھر ایک وسیع و عریض قطعے کے سامنے گیٹ نظر آیا۔
گزشتہ رات کے اولین پہر میں توپ کپی پر لٹریچر پڑھتے ہوئے مجھے اس کے اندر جانے کے لیے چار دروازوں اور ان کے آگے پڑی توپوں کی وجہ سے اس کا نام توپ کپی مشہور ہونے کا علم ہوا تھا۔
ٹکٹوں کی خریداری کے بعد ہم نے چند لمحوں کے لیے رُک کر گیٹ کو دیکھا تھا۔ ہمارے ایک طرف وسیع و عریض پارک تھا۔ انتہائی خوبصورت،دلکش جس کے راستے درختوں سے سجے تھے۔سبزے سے چمکتے لانوں میں رنگا رنگ پھولوں سے بھری کیاریاں تھیں۔چنار اور شاہ بلوط کے درختوں کی بہتات تھی۔حماقت کہہ لیجئیے کہ کسی سے پوچھنے کی بجائے آگے بڑھنے لگیں۔میں کون سی بہت ذہین،بہت فطین یا سقراط بقراط ٹائپ کی عورت تھی۔گو میں اپنے طور پر رات کو اگلے روز دیکھی جانے والی جگہ کے بارے کچھ نہ کچھ پیشگی ضرور پڑھنے کی عادی ہوں۔مگر ایک نیا شہر ہمیشہ ایک معمہ کی طرح ہوتا ہے جو آنکھوں اور دماغ سوزی کے بعد آپ پر دھیرے دھیرے کُھلتا ہے۔
سیماآنکھیں بند کرکے میرے پیچھے چلتی مگر جہاں میں بھولتی وہ میرے لتے بھی لیتی۔اُس کا لیکچر”اسی لئیے کسی گروپ کے نتھی ہوجانا ہمیشہ فائدہ مند ہوتا ہے۔وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔“اِن الفاظ کے ساتھ شروع ہوجاتا۔“
آج بھی یہی ہواجب باغ باغیچوں کے سوا کوئی قابل ذکر چیز نظر نہ آئی سوائے قدرے فاصلے سے توجہ کھینچتی ملگجے سے زنگاری رنگی اُس عمارت کے جو ضرور اپنی قدامت کا پتہ دیتی تھی۔چلوشکر تھا کہ چند لوگ ہماری طرف آرہے تھے۔انگریزی بول سکتے تھے۔انہوں نے آئرین چرچ کے بارے میں بتاتے ہوئے ہماری رہنمائی کی کہ ادھر کی بجائے آگے جائیے۔
اچھا تو یہ آئرین ireneچرچ ہے۔رات ہی اِس کے بارے پڑھا تھا۔قدیم استنبول کی ایا صوفیہ کے بعددوسری بڑی اہم یادگار۔بازنطینیوں کا چرچ،عثمانیوں کا اسلحہ خانہ،اُنسیویں صدی میں آرکیالوجی میوزیم بننے والا اور آج کل کا کلاسیکل میوزک کنسرٹ۔
مڑنے سے قبل بلند و بالا فصیل بھی نظروں تلے آئی۔کِسی جن دیوجیسی اتنی چوڑی کہ محل کا حفاظتی عملہ اس پر دو پہیوں والی چوبی گاڑی میں گشت کرتا تھا۔اور اِس باغ کی ایک دلچسپ تاریخ بھی کہ انہی چناروں کے درختوں تلے وہ ینی چری(عثمانیوں کی خصوصی فوج)بغاوتوں کے مشورے کیا کرتی۔جس سلطنت کا تختہ الٹانا ہوتا۔اپنی کیتلیاں الٹی کرکے انہی درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیتی تھیں۔یہ گویا بغاوت کا اعلان ہوتا۔
تو واپسی ہوئی سیما کی بڑبڑاہٹ کے ساتھ۔جی تو چاہاتھا ایک کرارا سا جھانپڑ دوں یوں کہ اس کی بولتی بند ہوجائے۔کمبخت جانتی ہی نہیں کہ بھولنے کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔پر اب میرے اس مزے کے منہ میں روڑ آنا شروع ہوگئے تھے۔
یہ مڈل گیٹ تھا۔ جس کی نصف قوسی صورت کے اندر چوبی دروازے کی پیشانی طلائی کلمے اور سلطان محمد فاتح دوم کے طلائی طغرے سے سجی ہوئی تھی۔سلاطین کے دور میں آمدورفت کے لیے باب ہمایوں یا امپیریل گیٹ استعمال ہوتا تھا۔ جو حرم سرا کی تیس فٹ اونچی دیوار میں ہے۔ نماز کے لیے ایا صوفیہ کی مسجد میں جانے کا یہ نزدیک ترین راستہ تھا۔
ساتھ جڑے دونوں میناروں کی بالائی بناوٹ ہمارے غوری اور شاہین میزائلوں جیسی تھی۔ جن کی ساخت کے بارے میں تاریخ دانوں کی رائے تُرک کی بجائے بازنطینی سٹائل کی ہے۔ چیکنگ کے بے حد سخت کڑے اور خود کار عمل سے گزر کر ہم قدیم شاہوں کے اندازو اطوار اور موجودہ حکمرانوں کے بارے بحث مباحثے کرتے ہوئے باب سلام یا مڈل گیٹ سے اندر داخل ہوئیں۔
رسٹ،سبزاور سنہری رنگوں کے امتزاج سے اُبھری ہوئی نقش و نگاری سے مزین چھتیں نگاہ و دل کو کھینچتی تھیں۔ شیشوں میں مقید استنبول کے نقشے سے نظر ہٹی تو آنکھوں کے سامنے وسیع و عریض پارک سرو کے درختوں سے سجا تھا۔
باغ سے آگے دائیں طرف کے برآمدے مختلف وقتوں میں مختلف سلاطین حرم کی خواتین کے زیر استعمال بگھیوں اور گاڑیوں سے بھرے نظر آئے۔ یہ بگھیاں اور گاڑیاں کل کی طرح آج بھی خاموش کھڑی تھیں۔ کسی ذی روح کی مجال تھی کہ کوئی ان آنگنوں میں کھانس بھی سکتا۔ جانور بھی آداب سلطانی سے آگاہ تھے۔ذرا آگے عربی فارسی کی تحریروں سے سجے بے شمار سنگ مر مر کے کتبے دھرے نظر آئے تھے۔
عثمانی سلاطین اچھے کھانوں کے کسقدر شوقین تھے اس کا اندازہ تو پ کپی سرائے کے باورچی خانوں کو دیکھ کر ہوسکتا ہے یہ محراب دار برآمدوں اور رومن طرز تعمیر کے بڑے بڑے ہالوں جن کی ہشت پہلو چھتیں مرکز میں پہنچ کر گول دائروں میں بدل جاتی تھیں۔جن میں نصب گول سوراخوں والے بڑے بڑے روشن دان جو کسی حد تک ہمارے لاہور کی قدیم عمارتوں کی چھتوں کے حفاظتی پردوں جیسے نظر آتے تھے۔ حرم نما بالائی ڈھانچہ اور اُن کی چمنیوں سے نکلتا ہمہ وقت دھواں سلطان کی فیاضانہ فطرت کا غماز تھا کہ بحیرہ مرمرا کے سمندروں میں دور دراز جگہوں سے آنے والے لوگ جان لیں کہ آٹھ سو باورچیوں اور ان کے بیشمار مددگاروں کے ساتھ چھ ہزار لوگوں کیلئے تیار ہونے والے شاہی دسترخوان سے انہیں کھانا ملے گا اور وہ بھوکے نہیں رہیں گے۔
چینی مٹی، شیشے،سلور،زہر مہرہ، پتھر کے برتنوں کی خوبصورتی ان کا سبک پن اور کہیں کہیں اُن کا جہازی سائز بھی حیران کرتا تھا۔ ہر روز بیس ہزار انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے جنہیں چھ ہزار لوگ کھاتے۔یہ سارا راستہ چھوٹے چھوٹے قدرے ناہموار پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ یہیں سے ہمارا داخلہ Gate of facilityمیں ہوا۔
اس عمارت کا رنگ ڈھنگ آغاز سے ہی قد رے منفرد نظر آیا۔ سبز قطہ پر بسم اللہ اور حسبنااللہ ونعم  الوکیل کے سنہری حروف دروازے کی پیشانی پر سجے تھے۔
سلطان کے ذاتی کمروں اور شاہی ملازموں کی اقامت گاہوں کی طرف جانے کا یہی راستہ تھا۔ گیٹ میں سے گزرتے ہوئے ہم دونوں رُکی تھیں۔ ایک چھوٹی سی سنگ مر مر کی توپ جو مقدس جھنڈے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی۔ وہی جھنڈا جو آقائے دو جہاں کے مبارک ہاتھوں نے تھاما تھا اور جسے مصر کی فتح کے بعد سلیم اول نے وہاں سے لا کر عالم اسلام کے خلیفہ کا تاج اپنے سر پر سجا لیا تھا۔
سچ ہے عہدے، مرتبے، جاہ و عزت سبھی طاقت ور کو ہی سجتے ہیں۔
1914؁ میں اس کا آخری دیدار تُرک عوام کو اس وقت کرایا گیا جب عثمانیہ فوج پہلی جنگ عظیم میں لڑنے کے لیے گئی تھی۔
یہاں سے کونسل ہال کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کچھ جگہیں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہمیشہ ایک سی رہتی ہیں۔ Gate of facility اگر آج نیوی اور سکائی بلیو یونیفارم والے کرخت اور سپاٹ چہروں والے گارڈز کے کنٹرول میں ہے تو گزرے ہوئے کل میں یہ گول لمبی ٹوپیوں اور ٹخنوں کو چھوتی عباؤں والے متکبر، ظالم اور انتہائی طاقتور سفید فام خواجہ سراؤں کے قبضے میں تھا۔ اس حصے میں سب سے اہم عمارت چیمبر آف پیٹیشن ہی تھی۔ اسے دیوان یا کونسل ہال کہا جا سکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا مشاوراتی چیمبر۔
وزراء امرا ور عمائدین مملکت کے ریاستی اور خارجی امور سے متعلق معاملات لوگوں کی عرضداشتیں، عدالتی فیصلے انکا اطلاق، غیر ملکی سربراہان اور سفیروں سے ملاقاتیں سبھی سرگرمیوں کا یہ مرکز تھا۔
آرائش و زیبائش میں کمال کی بلندیوں کو چھوتا یہ کمرہ۔جس کے مرصع دروازے، عنابی مخملین دیوان پر دھرا ہیرے جواہرات سے سجا تخت جس پر سایہ فگن کنوپی جس کی سنہری زنجیروں سے لٹکتا فانوس حیرت زدہ کرتا ہے۔
ہمارے سامنے یہ تیسر ے صحن کا پھلوں، پھولوں، درختوں،سبزے اور سیاحوں کے لیے جا بجا دھری آرام دہ بینچوں سے سجا خفیف سی چڑھائی والا لان ہے۔ پر بینچوں کا حال زار خاصا مخدوش تھا۔ ایک تو کوئی خالی نہیں تھا۔ دوسرے اُن پر بیٹھے چند جوڑوں کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بغلوں میں گُھستے گُھستے پسلیوں میں اُتر جائیں۔
سیما انکی ان او چھی حر کتو ں پر تلملا تے ہو ئے چیں بچیں تھی۔ پر میں مزے سے یہ سب دیکھتے ہو ئے لُطف اُٹھا رہی تھی۔کبھی کبھی سرور آتا ہے بغیر ٹکٹ کے ایسے تما شے دیکھنے میں۔
شریفانہ سی صورت والے ایک جوڑے نے پورے بینچ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔اُسی سے درخواست کرتے ہوئے ایک کونے میں تھوڑی سی جگہ بناتے ہوئے پہلے میں خود ٹکی پھر سیما کو ٹکایا۔
جوڑا فلسطینی تھا۔ ہنی مون پر آیا تھا۔ ہم تو بہت سی باتیں اُن کے ساتھ کرنا چاہتے تھے پر مسئلہ وہی زبان کا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ لوگ بھی اُٹھ گئے۔ جگہ کشادہ ہوئی تو ٹانگیں پسار لیں۔ رُوح تک کو ٹھنڈا کرتی ہوا دھیرے دھیرے درختوں اور بوٹوں کے پتوں پر سے پھسلتے ہوئے بہہ رہی تھی۔ کتنا چمکتا ہوا آسمان،کتنی چمکتی ہوئی دھوپ، کیسا خوبصورت ماحول، میں نے بے اختیار دائیں بائیں اوراپنے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
اس توپ کپی سرائے میوزیم کے درو دیوار پر پھیلے رنگوں میں سلاطین عثمانیہ کی شان و شوکت،جاہ و جلال اور ہیبت و دبدبے  کا کتنا بھرپور اظہارہے۔آ نکھیں جہاں ہر سمت بکھرے ہوئے اس اظہار سے لُطف اندوز ہوئی ہیں تو وہیں اسوقت سینے سے اُٹھتی ہوئی دکھ اور افسوس میں لپٹی یاس کی لمبی سی لہر آنکھوں کو نیلگوں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے یہ بھی بتا رہی ہے کہ دیکھو، انہیں غور سے دیکھو،یہ سب جائے عبرت ہیں، اور دنیا میں باقی رہ جانے والا سچ صرف وحدت ہے۔
تبھی ایک تیز گونجتی آواز مجھے میرے خیالوں سے باہر کھینچ لائی تھی۔میں نے آواز کی سمت دیکھا تھا۔ شمال کی طرف تھوڑی سی بلندی پر لائبریری کے چھوٹے سے ٹیرس پر کھڑے گارڈ نے فلسطینی لڑکے کو ڈپٹا تھا۔ لڑکے نے سیب توڑاتھا۔
”چلو اچھا ہوا۔ میری بھی طبیعت یہ کام کرنے پر مچل رہی تھی۔ اب ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے چپکی ہو گئی ہوں۔“
سامنے کونے میں اُگے ہوئے کوتاہ قامت کسی حد تک گنجے سے سیبوں کے سبز پھل سے لدے پھندے پیڑ جنہیں میں نے شوق و رغبت سے دیکھا تھااور مجھے بے اختیار سکردو،گلگت، ہنزہ کے سیبوں کے پیڑ یاد آئے تھے۔ایسے ہی چھوٹے چھوٹے سے قدبت اور پھل پھلواری سے لدے پھندے جن کی کیفیت اُن کمزور لاغر اور ناتواں لڑکیوں کی مانند ہی تھی جو بیچاریاں سینے کی تباہ خیز جوانی کے ہاتھوں زچ سی رہتی ہیں۔
سامنے والے بینچ پر ایک خاندان بیٹھا ہوا تھا۔میاں بیوی اور دو بچے۔عورت حسین تھی۔کھڑی ناک اور سرخ و سفید رنگت والی۔مرد تانبے کی سی رنگت والا خاصا دلکش تھا۔
دفعتاً زور و شور کی آوازیں اُس قطعہ میں گونجیں۔دو عورتیں اور ایک مرد ہمارے سامنے بیٹھے اُس جوڑے کی طرف بڑے والہانہ انداز میں بڑھے۔بڑا پرتپاک سا منظر تھا۔پرانے ملاقاتی یارشتہ دار معلوم ہوتے تھے، جو بھی تھے اُن کا خوش ہونا اور باچھیں کھلانا اُن کے خوشگوار تعلقات کا غمّاز تھا۔تانبے کے سے رنگ والے مرد نے کھڑے ہوکر سب سے پہلے مرد کے دونوں رخساروں پر بوسے دئیے۔پھر عمر رسیدہ عورت اور جوان عورت کے گالوں پر۔ایسا ہی عمل آنے والے مرد نے کیا۔پھر خواتین نے ہنستی آنکھوں اور چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کے گالوں کو چُوما۔بچے پاس کھڑے یہ سب دیکھتے ہوئے شاید اپنی باری کے منتظر تھے۔واقعی اب سب ان کی طرف متوجہ تھے۔بچوں نے پہلے مرد کی ہاتھ کی پشت پر اپنا ماتھا رکھا پھر ہاتھ چوما۔اور یہی عمل دونوں عورتوں کے ساتھ بھی کیا۔یہ سب دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ترکی معاشرت کا یہ بڑا خوبصورت پہلو لگا۔
جب دیس میں تھی تو جانکاری بس اتنی سی تھی کہ حضورؐ پاک کی ذات مقدس سے متعلقہ چند اشیاء استنبول میں ہیں۔ یہاں آ کر جانا کہ یہ توپ کپی میوزیم میں ہیں۔ ہم پہلے اور دوسرے کو ر ٹ یا رڈ سے تیسرے میں آگئے تھے اور مجھے ابھی تک وہ مقدس پویلین نظر نہیں آیا تھا اور میں تھوڑی سی بے چین بھی تھی۔
تبھی ایک احمقانہ اور جذباتی سی یاد نے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ ایک بار اخبار میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصویر ان مقدس اشیاء کی زیارت کرتے ہوئے چھپی تھی۔مجھ جیسی تھڑ دلی اسے دیکھتے ہی مارے حسد کے اپنے رب سے گلے شکووں پر اُتر آئی تھی۔
”ہاں ہاں ملکوں ملکوں کی سیریں تو تُو نے ان بڑے بڑے لوگوں کے مقدروں میں لکھ دی ہیں۔ ہم نے تو یونہی ترستے ہی  دنیا سے چلے جانا ہے۔“
اُس سمے روشن نیلگوں آسمان تلے میرا ایک ایک مُو شکر گزاری کی بارش میں بھیگا۔
یہاں چند ہی دنوں کے قیام نے مجھے باڈی لینگوئج میں خاصا ماہر کر دیا تھا۔ سکیورٹی گارڈ کے انگریزی سے پیدل ہونے پر میں نے با آواز بلند حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پڑھتے ہوئے پوری بتیسی کی نمائش کے ساتھ ایک دانت پر انگلی رکھ دی اور دوسرے ہاتھ سے چند بالوں کو پکڑ کر دکھایا۔
مقدس پویلین
اُس نے فوراً ذرا آگے شہ نشینوں والی عمارت کی طرف ا نگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے Holy Relics chamberکہا۔ سروں کو ڈھانپتے اور منہ میں درُود کی تسبیح رکھتے ہوئے کم بلندی والے دروازے جس کی پیشانی لا الہ الا اللہ کے سنہرے طُغر ے سے سجی ہوئی تھی اُس کے پہلے کمرے میں داخل ہوئے۔ایک روایت کے مطابق مقدس چیمبر کی راہداری میں سجے بہت سے طُغر ے سلطان سوئم کے اپنے ہاتھوں سے لکھے گئے ہیں۔
بلند و بالا محراب دار نیلے اور ہلکے براؤن منقش ٹائیلوں والے درودیوار قرآنی آیات، اللہ، اسکے رسولؐ اور صحابہ کے مقدس ناموں سے سجے رُوح پرور نظارہ پیش کرتے تھے۔ مسجد نبوی کا ماڈل عمار بن یاسر، خالد بن ولید، جعفر طیار، سعد بن ابی وقاص چاروں خلفاء کی تلواریں۔ کعبے کی چابیاں اور حجر اسود کا خول۔
میرے وجود کی باطنی آنکھ ایک جھٹکے سے کھُل گئی تھی۔ جس نے سر پٹ بھاگتے گھوڑوں کے سُموں سے اُڑتی گرد،اُن کی ننگی پیٹھوں پر شہ سواروں کے ہاتھوں میں لہراتی تلواروں اور فتح کے شادیانے بجاتے اُن کے پُر نور چہروں کا پل بھر میں دیدار کر لیا۔ بڑی میٹھی سی آواز میں کوئی کانوں میں گُنگُنا یا تھا۔
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ہاں وہ ایسے ہی تھے۔صاحب کردار و صاحب سیف۔
بھیگی آنکھوں سے میں درمیانی دروازے کے راستے آگے بڑھ گئی تھی۔سیما ابھی پہلے محراب والے حصے میں تھی۔
محض خوش شکل کہنا زیادتی ہو گی۔ حُسن و جمال کا وہی حال تھا کہ جس کی وضاحت کے لیے محاورے وجود میں آتے ہیں۔عورتوں کی انگلیاں کٹتی ہیں۔ شیشے کے چھوٹے سے کیبن میں بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ آواز کی نغمگی پر بھی خدا کی نظرِ عنایت تھی۔
کتنی دیر تک تو کھڑی اُس ترک بچے کو دیکھتی اور اُس کے حُسن کو سراہتی رہی۔ کمرے میں دبی دبی سسکیوں کی خفیف سی آوازیں تھیں۔ کہیں رخساروں پر آنسوؤں کی بھی قطاریں تھیں۔ کہیں متانت و سنجیدگی کی دلآویزیاں تھیں۔
شیشے کے دروازے کے پیچھے مرصع تلوار اور کمان نظر آئی تھی جو آقائے دو جہان سے منسوب ہے۔یہی وہ تلوار ہے جو ہجرت مدینہ کے وقت آپ کے ساتھ تھی۔ جب اُن درویشانہ ہاتھوں میں تھی تو سادہ تھی جب بادشاہوں کے پاس آئی سونے سے مرصع ہو  گئی۔
میں ذرا آگے بڑھ کر شیشے کے بکس میں پا ؤ ں مبار ک کا نشان دیکھنے لگی۔ اُن کے پاؤں کا نشان۔ کیسے راستے تھے جو معتبر اور مقدس ہوئے ان کے تلے آکر۔ مٹی سُرمہ شفا ہوئی۔ کاش کہیں تب جنم ہوتا۔
پھر وہ قیمتی مہر آنکھو ں کے سامنے تھی۔وہی مہر جسنے قیصر وکسرٰی کو لر ز ہ بر ا ندام کیا۔ اُن کے بے حد پیار ے اور مقدس ہا تھو ں سے لکھا ہوا وہ خط بھی تھا جو شا ہ مصر کے نام تھا۔
موئے مبارک اور دانت دونوں سر بند۔ لباس مقدس اور جھنڈا مبارک سونے اور چاندی کے بکسوں میں بند۔ لباس مقدس کے پس منظر میں ایک خوبصورت سا واقعہ ہے۔ کعب بن زہیر نے حضورؐ کی شان میں لکھی گئی ایک نعت کے ذریعے حضورؐ سے فوری طور پر اسلام قبول نہ کرنے کی معذرت کی۔ نعت کا ایک مصرع کچھ یوں ہے۔
یہ دنیا ہمارے نبی کے نور سے منور ہے۔
تا جدا رِ دو جہا ں نے خو ش ہو کر اپنا عبائے مبارک عنا یت فر ما یا۔
کعب جب تک جیئے کلیجے سے لگائے رکھا۔ بعد از مرگ خلفاء نے حِرزِ جان بنایا۔ بنی اُمیہ سے عباسیوں اور اُن سے مصرکے مُلو ک تک پہنچا۔ 1517؁ میں فتح مصر کے بعد عثمانی سُلطان سلیم دوم نے ان مقدس تبرکات سے استنبول کو سجایا اور اسے اپنے سا تھ رکھا۔
خِرقہ مقدس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ باہر سے کالی اُون اور اندر سے بادامی رنگ کا ہے۔ تو یہ وہی کالی کملی ہے جس کے عشق میں دُنیا مبتلا ہے۔ میں سامنے شیشے کے دروازے کے پیچھے رکھے گئے سونے کے صندوق کو حیرت و یاس سے تکتی تھی۔ کاش کہیں سلیمانی ٹوپی ہوتی تو اندر گھُس جاتی۔ آنکھوں کو لگا کر بصارت تیز کرتی۔ ہاتھوں کو چھو کر انہیں پارس کرتی۔ ہونٹوں سے بوسہ دیتے ہوئے سانسوں کو عطر بیز کرتی۔
بظاہر میں سونے کے صندوق کو دیکھتی تھی پر ذہن تاریخ میں اُلجھا ہوا تھا۔ اور تصور نے اُڑا کر مجھے وہاں کھڑا کر دیا تھا جہاں تُرکیہ کا سلطان وقت، عمائدین سلطنت اور خاص الخاص اہل خانہ کے ھمراہ پندرہ رمضان المبارک کو اپنے ہاتھوں سے اِس مبارک لبادے کو عرقِ گلاب کے پانیوں میں غسل دینے کے لیے نکالتا۔ غسل کے بعد اس پر ململ کا کپڑا رکھا جاتا۔حاضرین صرف ململ کے کپڑے کو چھوتے۔ عرق گلاب تو ٹانک بن کر کہیں ایک جُرعہ یا ایک گھونٹ کسی نصیب والے کو ملتا۔ یہ بھی روایت ہے کہ چند سلاطین نے جنگ میں فتح کی ضمانت کے طور پر بھی اسے پہنا۔ ان میں محمد سوئم کا نام زیادہ مشہور ہوا۔
ادھر اُدھر گھومتے پھرتے دفعتاً داخلی حصے کے بائیں طرف ایک لمبی سی روڈ پر نظر پڑی۔
”ارے“ بے اختیار ہی زبان سے نکلا تھا۔
”تو یہ عصائے موسیٰ ہے۔ سبحان اللہ۔“
ساتھ ہی اس عصا سے متعلق بے شمار معجزے یادداشتوں میں دوڑتے چلے آئے تھے۔
یہ حضرت موسیٰ کا وہی عصا ہے جس کا ذکر بارنطینی بادشاہ ہفتم نے اپنی کتاب Book of Ceremonies میں کیا ہے۔ کتاب کے مطابق عصا کو اصلی مقدس صلیب کے ھمراہ عظیم constantine the great یروشلم سے قسطنطنیہ لائے۔ یہاں اِسے بازنطینی بادشاہ کے عظیم محل سے ملحق ایک خصوصی گرجا میں رکھا گیا۔ اسکے عصا والے خانے میں ایک تلوار بھی رکھی گئی۔ اس کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ یہ وہی تلوار ہے جس سے شاہ ڈیوڈ نے Goliath کو قتل کیا تھا۔ اسکے ایک طرف عربی اور دوسری طرفAssyrian زبان میں تحریر بھی ہے۔ اسکی دریافت بھی 1696میں معجزانہ طور پر مصطفےٰ دوم کے دور میں اندرونی خزانے سے ہوئی۔ اس نے بلقان میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا۔
دیوار میں بنی محراب کے فرش پر بیٹھتے ہوئے میں نے انتہا درجہ رشک بھرے جذبوں سے استنبول کے بارے میں سوچاتھااور سیما ں سے کہا تھا جو میرے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔
”تو یہ عصائے موسیٰ ہے۔سبحان اللہ“ بے اختیار ہی زبان سے نکلا تھا۔
ساتھ ہی اس عصا سے متعلق بے شمار معجزے یادداشتوں میں دوڑتے چلے آئے تھے۔
یہ حصرت موسیٰ کا وہی عصا ہے جس کا ذکر بازنطینی بادشاہ ہفتم نے اپنی کتاب Book of Ceremoniesمیں کیا ہے۔کتاب کے مطابق عصا کو اصلی مقدس صلیب کے ہمراہ عظیم constantine the great یروشلم سے قسطنطنیہ لائے۔یہاں اِسے بازنطینی بادشاہ کے عظیم محل سے ملحق ایک خصوصی گرجا میں رکھا گیا۔اس کے عصا والے خانے میں ایک تلوار بھی رکھی گئی۔اس کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ یہ وہی تلوار ہے جس سے شاد ڈیوڈنے Goliath کو قتل کیا تھا۔اس کے ایک طرف عربی اور دوسری طرف Assyrian زبان میں تحریر بھی ہے۔اس کی دریافت 1696میں معجزانہ طور پر مصطفےٰ دوم کے دور میں اندرونی خزانے سے ہوئی۔اس نے بلقان میں اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا۔
دیوار میں بنی محراب کے فرش پر بیٹھتے ہوئے میں نے انتہا درجہ رشک بھرے جذبوں سے استنبول کے بارے میں سوچا تھا اور سیما سے کہا تھا جو میرے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔
”کیسا مالا مال ہے یہ“
طاقت کتنا بڑا ہتھیار ہے۔ عثمانی سلاطین نے خدا اور اس کے رسول کے گھروں کی اضافی تعمیر و مرمت طلب کام اور اُنکی آرائش و زیبائش کے کام ہمیشہ اپنے ذمے لیے۔ پر معاوضہ بھی خوب وصول کیا۔ بے شمار مقدس تبّرکات وہاں سے اُٹھائے اور استنبول میں لا سجائے۔ مصر کو فتح کیا تو قاہرہ کو خالی کر دیا۔طاقت اور زمینی پھیلاؤ کا ھما سر پر بیٹھا۔دولت کی دیوی چرنوں میں ڈھیر ہوئی تو خلیفہ یعنی عا لم اسلام کے لیڈر ہونے کا کلاہ بھی اپنے سر پر رکھا۔
”زبردست کا ٹھینگا سر پر۔
سیما دھیمے لہجے میں گا ئیڈ کو کسی یو رپی وفد کے ساتھ بو لتے سن کر سر گو شیا نہ انداز میں مجھ سے مخا طب ہوئی۔
ہم امر یکہ کو گالیاں نکا لتے ہیں۔ اس سے انسا نیت کی تو قع کرتے ہیں۔ کتنے احمق ہیں ہم لوگ؟طا قت کا ایک اپنا چلن  اور اپنا قا نو ن ہے۔طا قت ور کا جو جی چاہے وہ کرے۔کمز ور کو گلہ کا اختیا ر نہیں۔ راستہ صرف ایک ہے طا قت ور بنو۔“
بات تو سولہ آنے سچ تھی۔
”وا قعی اب جب سعو دی عرب خو د امیر کبیر ملک ہے۔ اپنے مقدس نو ا درا ت کی واپسی کا تقاضاکربیٹھا ہے۔“
گارڈ ہمار ے سر پر آ کر کھڑا ہو گیا۔اشارے سے اُس نے اُٹھنے کو کہااوراشارے سے ہی یہ بھی واضح کیا کہ یہاں بیٹھنا منع ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُٹھنے میں مدد دینے کے لیے اپنے بازو کا سہارا بھی دیا۔پر اٹھتے اٹھتے میں پنجابی میں بہت بڑبڑائی تھی۔
”ارے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ایک ترقی یافتہ ملک جہاں سیاحت اسکا ایک بڑا کماؤ پوت بن گئی ہے۔ادھر ویک اینڈ ہوا ادھر اس کے یورپی اور عرب ہمسا ئیوں کے شوقین،من چلوں اور جوانوں،بوڑھوں کے ٹولے سلطان احمت سکوائر میں بکھرے نظر آتے ہیں۔استنبول کے ہوٹلوں میں کمرہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔کیا ہے جو ان کے آرام کیلئے چوبی بینچوں کا اہتمام کردیا جائے۔بیچارے ہم جیسے دعائیں ہی دیں گے۔جیسے میں ماسکو اور پیٹرز برگ والوں کو دیتی تھی۔
لائبریری
کتابیں اُن سے محبت اور لائبریریوں کے سیٹ اپ ہمیشہ شاہوں اور عمائدین سلطنت کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں۔ احمد سو ئم ماہر اور مشتاق خطاط اور کتب ناقہ لکھنے والا تھا۔ لائبریری کی تعمیر اُس نے اپنے اور شاہی ملازموں کے لیے کروائی۔ مقدس چیمبر کی راہداری کے عین اوپر عربی میں اُس نے خود خطاطی کی۔
اس کی تعمیر کردہ لائبریری حُسن و جمال کا مرقع تھی۔ احمد سو ئم کے دو ر کو تو ٹیولپ پیریڈ بھی کہا جا سکتا ہے کہ گل لالہ میں اُس کی حد درجہ دلچسپی نے نہ صرف باغوں کو زینت بخشی بلکہ اُس کی یہ جمالیاتی حس کپڑوں اور ٹائلوں کے ڈیزائنوں میں بھی اُبھر کر سامنے آئی۔
لائبریری کا ڈھانچہ اُوپر تلے کی بڑی بڑی کھڑکیوں اور مطالعہ کے لیے آرام دہ نچلے دیوان کے ساتھ بڑا پُر وقار نظر آتا ہے۔ ذیلی ڈھانچہ کھڑکیوں کے ساتھ بلند ہے کہ تازہ ہوا کی باقاعدگی اور تواتر سے آمد و رفت الماریوں میں رکھی گئی قیمتی کتابوں اور مسودات کو نمی سے محفوظ رکھے۔
”اللہ کیسے میرا جی چاہا تھا کہ میں اُس دیوان پر بیٹھوں، لیٹ جاؤں، الماریاں کھولوں، عربی فارسی اور ترکی میں لکھے گئے قلمی نسخوں کو دیکھوں۔ بلا سے میرے پلّے کچھ پڑے نہ پڑے۔ آئینہ دیکھے بغیر مجھے اپنی آنکھوں سے گرتی حسرت نظر آتی تھی۔ کاش میں وی آئی پی ہوتی تب شاید ان الماریوں کے پٹ کھل جاتے اور میں اُن شہ پاروں سے آ نکھو ں اور روح کی پیا س بُجھا سکتی۔
کچھ ایسے ہی حسرت بھرے الفاظ کا سیمانے اظہار کیا تھا۔
٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply