• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • حقیقی اُڑن کھٹولا.۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی/پانچواں ،آخری حصہ

حقیقی اُڑن کھٹولا.۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی/پانچواں ،آخری حصہ

ہم نے پچھلے حصوں میں سمجھا کہ کیسے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن نامی ہمارا اکلوتا خلائی گھر اپنے اندر “زندگی” سموئے، زمین جیسے “زندگی “سے بھرپور سیارے کے گرد،اپنی “زندگی” گزار رہا ہے…. ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اب تک یہ زمین سے باہر واحد مقام ہے جہاں زندگی موجود ہے،یا پھر انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں رہنے والے چھ سائنسدانوں کا گروپ اپنی نوعیت کا واحد ایسا گروپ ہے جو زمین سے باہر کائناتی سمندر میں جینے کی امید پیدا کیے ہوئے ہے، چونکہ کائنات میں ہم حجم کے حساب سے ایک قطرے جتنے بھی نہیں لہذا کائنات کی بے رحم لہروں سے بچ کر ایک چھوٹی سی کشتی میں رہتے ہوئے کائنات میں جھانکتے رہنا یقیناً انسانیت کا عظیم کارنامہ ہے… لیکن کبھی کبھارعظیم کارناموں کے لئے عظیم فنڈنگ بھی درکار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان اب تک دوبارہ چاند پر نہیں جاسکا، کیونکہ ایسے میگا مشنز کو کامیاب بنانے کے لئے پورے ملک کا بجٹ داؤپہ لگ جاتا ہے۔

2010ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 17 ممالک کی فنڈنگ سے چلنے والے اس خلائی اسٹیشن پہ اُس وقت تک تقریباً 150 ارب ڈالر خرچ کیا جاچکا تھا، جبکہ اندازہ ہے اب بھی تقریباً 4 ارب ڈالر سالانہ ISS پہ خرچ کیاجارہا ہے، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2018ء تک اس پہ تقریباً 185ارب ڈالر خرچ کیا گیا ہے،اگر انہیں آج (نومبر 2018ء)کےپاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ تقریباً248 کھرب روپے(24800ارب روپے) بنتے ہیں۔یاد رہے کہ ابھی 2018ء میں پاکستان کا بجٹ 60 کھرب روپے (6000 ارب روپے) پیش کیا گیا( اوران 60 کھرب روپے میں بیرونی قرضے شامل ہیں!)۔یوں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو انسانی تاریخ میں سب سے قیمتی شے ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے سائنسدان یہ خواہش بھی ظاہر کرتے ہےکہ اسے یوں زمین پہ گرنے کے لئے بےسہارا نہ چھوڑ دیا جائے بلکہ 2030ء میں اس کے ریٹائر ہونے کے بعد جو نیا اسپیس اسٹیشن خلاء میں بھیجا جائے،اُس میں ISS کے لیبارٹری سمیت بہت سے modules (حصے) فِٹ کیے جائیں کیونکہ 2030ء تک مکمل ISS ریٹائر نہیں ہوگا اس کے بیشتر حصے قابل استعمال ہونگے…..

اگر ہم زمینی حقائق پہ بات کریں تو بین الخلائی معاہدے (Outer Space Treaty) کے مطابق چونکہ امریکا اور روس کا انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن بنانے میں کلیدی کردار ہے اس خاطر ان دو ممالک کو ہی اس اُڑن کھٹولے کے کسی بھی module (حصے) کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہےلہٰذا امریکا کی خواہش ہے کہ کسی طرح اس کو صحیح سالم زمین پر واپس لے آیا جائے اور آنے والی نسلوں کے لئے میوزیم میں بطور یاد گار اس خلائی اسٹیشن کو رکھا جائے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے تقریباً 27 خلائی شٹلز کا بندوبست کرنا پڑے گا اور اس کے باوجود زمین کی فضاء میں داخل ہوتے ہوئے خلائی اسٹیشن کے کئی حصے damage ہوجائیں گے، آپ اس کی واپسی پہ ہونے والے خرچے کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو خلاء میں بھیجنے کےلئے1 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں تو اسے زمین پہ لانے کے لئے تقریباً 20 لاکھ روپے خرچ ہونگے، اس کے باوجود بھی ہمیں کنفرم نہیں کہ اس کے کونسے حصے محفوظ رہ پائیں گے اور کونسے حصے کتنے حد تک damage ہونگے۔

اس تجویز کے علاوہ ایک اور تجویز 2010ء میں ناسا کے سائنسدانوں نےپیش کی کہ کیوں نہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی رفتار بڑھاکر اسے چاند اور زمین کے درمیان موجود LaGrange point تک پہنچا دیا جائے ، لیگ رینج پوائنٹ خلاء میں وہ مقام ہوتا ہے جہاں دو اجسام کی کشش ثقل برابر ہوجاتی ہے (اس ضمن میں تفصیلی آرٹیکل کا لنک اس مضمون کے آخر میں موجود ہے)، لہٰذا خلائی اسٹیشن کو اگر زمین اور چاند کے درمیان موجود لیگ رینج پوائنٹ پہ پہنچا دیا گیا تو یہ بغیر کسی فیول کے ہمیشہ چاند اور زمین کے درمیان موجود رہے گا اور مستقبل میں چاند کی جانب آتے جاتے ہوئے نسل انسانی اس کو بطور فیول اسٹیشن یا خلائی سٹاپ استعمال کرسکے گی…. ایک تجویز یہ بھی ہے کہ کیوں نہ ریٹائرمنٹ کے بعد انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو خلاء میں ہی رکھاجائے مگر سیاحوں کے لئے اسے کھول دیا جائے لوگ ٹکٹ دے کر اس کی سیر کرسکیں،دو دہائیاں قبل ایسا تجربہ کیا گیا تھا جس کے تحت2001ء میں Dennis Tito نامی کروڑ پتی وہ پہلے سیاح بنے تھے جنہوں نے 8 دن انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں گزارے ،اُس وقت انہوں نے ان آٹھ دنوں کے لئے 2 کروڑ ڈالر ادا کیے تھے….

اس کے علاوہ ایک تجویز اسے خلائی ہوٹل بنانے کی بھی ہے جہاں لوگ بُکنگ کروا کر کچھ دن رہ سکیں، اس سے آنے والی آمدنی تمام ممالک میں تقسیم کردی جائے یوں خلائی سیاحت نامی ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوسکے گا، شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے…..بہرحال ان تمام تجاویز کے باوجود ناسا اس امر پہ بھی غور کررہی ہے کہ اگر کوئی تجویز کامیاب نہ ہوپائی تو اس کو زمین کی فضاء میں داخل کیا جائے گا جہاں سے اسےکنٹرول کرکے سمندرمیں “پھینک”دیا جائے گا کیونکہ اگر اتنا دیوہیکل خلائی اسٹیشن آبادی پر گرا تو بہت تباہی برپا کرسکتا ہے، لیکن اس کام کےلئے امریکا کو روس کی ضرورت ہوگی کیونکہ روسی سائنسدان اپنی کچھ سیٹلائیٹس کنٹرول کرکے سمندرمیں گرا چکے ہیں مگر امریکی سائنسدان اس کام میں ناکام دکھائی دیئے ہیں، آج سے کچھ دہائیاں قبل سکائی لیب نامی مشہور خلائی اسٹیشن کو بھی امریکی سائنسدان کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے تھے جو آخرکار آسٹریلیا پہ ایک آبادی والے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا، خوش قسمتی سے اس میں کسی کو جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا کیونکہ جس مقام پر Skylab گرا وہ ساحل سمندرتھا، آج بھی اگر آپ اپنے بڑوں سے سکائی لیب کا ذکر کریں تو وہ آپ کو لازمی بتائیں گے کیسے دہشت اور خوف کا عالم تھا جس وقت پوری دنیا کو مطلع کیا گیا کہ سکائی لیب کسی بھی شہر میں کسی مقام پر بھی گر سکتا ہے۔

ایسا ہی خوف کچھ ماہ پہلے بھی  ہمیں دیکھنے کو ملا،جب چین کی ایک سیٹلائیٹ قابو سے باہر ہوگئی اور سمندرمیں گرگئی، گرنے سے کچھ گھنٹے قبل چینی سیٹلائیٹ پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش کے اوپر سے بھی گزری تھی(مضمون کے آخرمیں چینی سیٹلائیٹ کے گرنے کے متعلق تفصیلی مضمون کا لنک موجود ہے)بہرحال اگر عالمی خلائی اسٹیشن کو کنٹرول کرکے زمین پہ کسی سمندرمیں گرا دیا جاتا ہے تو یہ سب سےآسان، سستا اور محفوظ طریقہ ہوگا۔کچھ سال پہلے امریکا اور روس نے یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن کے بعد جو اگلا خلائی اسٹیشن بھیجا جائے گا اس کے لئے بھی دونوں ممالک ملکر کام کریں گے، دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں گرما گرمی کا اثر بھی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پہ پڑتا رہتا ہےجیسے کچھ ماہ قبل امریکا کی جانب سے روس پہ پابندیاں عائد کی گئیں تو روس نے اعلان کردیا تھا کہ وہ 2020ء کے بعد انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کا حصہ نہیں رہے گا ، لہٰذا آنے والے وقت میں امریکااور روس کے joint ventures کے متعلق کچھ بھی حتمی کہنا قبل از وقت ہوگا۔فی الحال خلائی اسٹیشن آمدورفت کے لئے روسی خلائی جہازسایوز (Soyuz)کو استعمال کیاجاتا ہے جس میں صرف 3 خلاء باز ہی سما سکتے ہیں اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن جاسکتے ہیں لیکن 2019ء یا 2020ء تک اسپیس ایکس (Space X)نامی پرائیوٹ کمپنی کو عالمی خلائی اسٹیشن کی جانب فلائٹس لے جانے کا ٹھیکا دے دیا جائے گا ، ان کے خلائی جہاز میں زیادہ خلاء باز بیٹھ سکیں گے جس کے باعث یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2020ء کے بعد عالمی خلائی اسٹیشن میں خلاء بازوں کی تعداد 6سے زیادہ کردی جائے گی، لیکن ایسا کرنے سے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کا خرچہ بھی زیادہ ہوجائے گا

خلائی اسٹیشن میں موجودخلاء بازوں پہ آنے والا خرچہ اتنا زیادہ ہے کہ 2015ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اوسطاً انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں موجود ایک خلاء باز فی دن ہمیں 75 لاکھ ڈالر کا پڑ رہا ہے۔خلائی اسٹیشن کی خوبصورتی میں جو بات اضافہ کرتی ہے اس میں سرفہرست یہ ہے کہ آپ انسانی ہاتھوں سے بنی اِس قیمتی ترین شے کو آسمانی چادر پہ اپنی آنکھوں سے تیرتا دیکھ سکتے ہیں، آسمانی سمندر پہ 7.7 کلو میٹر فی سیکنڈکے حساب سے تیرنے والی 109 میٹر وسیع اس خلائی کشتی کا وزن 4 لاکھ 20 ہزار کلو ہے، یہ خلائی اسٹیشن ایک دن میں 665376 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے، یاد رہے کہ چاند ہم سے تقریباً 384400 کلومیٹر ہے، یعنی اس رفتار سے اگر چاند کی جانب جائیں تو آپ ایک دن میں آنا جانا کرسکتے ہیں، 109 میٹر وسیع اس اُڑن کھٹولے میں اتنی زیادہ تاریں (wires)ہیں کہ اگر آپ تمام تاروں کو لمبائی میں بچھائیں تو یہ 13 کلومیٹر تک لمبی ہونگی،اِس میں رہنے والے 6 خلابازوں کے لئے مجموعی طور پہ7200 کلو خوراک موجود ہوتی ہے جو یہ خلاء باز 6 ماہ تک استعمال کرتے ہیں،خوراک میں ان کےلئے سبزیاں، Sea food،چکن، باربی کیو بیف،میکرونیز، چیز، میٹھی چاکلیٹس، چیری وغیرہ ہوتی ہیں(پچھلے حصوں میں کھانے کے متعلق تفصیلی ذکر کیا گیا ہے)،

چونکہ خلائی اسٹیشن میں کشش ثقل موجود نہیں ہوتی اس خاطر وہاں پانی گلاس میں پینا ممکن نہیں ہوتا، پانی پینے کےلئے خلاباز الیکٹرک واٹر کولر سے پانی ایک بوتل میں بھرتے ہیں ،کولر سے پریشر سے پانی نکالتا ہے اور پانی ایک نرم چمڑے کی بوتل میں جمع ہوجاتاہے، اس کے بعد اس بوتل کو منہ سے لگا کر چمڑے کو دبا کے پانی پی لیتے ہیں ، اگر کوئی پانی کا قطرہ غلطی سے بوتل سے باہر نکل آئے تو اسے فورا ہڑپ کرنا پڑتا ہےکیونکہ وہ آوارہ قطرہ کشش ثقل نہ ہونے کے باعث خلائی اسٹیشن کے فرش پہ نہیں گرتا بلکہ اِدھر اٗدھر گھوم کر کسی بھی مشین میں جا کر شارٹ سرکٹ کرسکتا ہے۔یہاں یہ سوال اُٹھ سکتا ہےکہ ہماری زمین کی کشش ثقل اتنی شدید ہےکہ اس نے چاند کو جکڑے رکھا ہے تو ایسا کیوں کہ خلائی اسٹیشن میں گریوٹی محسوس نہیں ہوپاتی؟ ہمیں معلوم ہے کہ یہ خلائی اسٹیشن تقریباً400 کلومیٹر کی بلندی پہ موجود ہے اور 7.7 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے آگے کی جانب چل رہا ہے، اگر آپ کسی بلند عمارت سے چھلانگ لگاتے ہیں توآپ جب تک زمین تک نہیں پہنچیں گے تو آپ فری فالنگ میں ہونگے، اس دوران آپ کو کشش ثقل محسوس نہیں ہوگی ،جس کی وجہ سے آپ کسی جانب بغیر سہارے کے اپنی مرضی سے مڑ بھی نہیں سکتے، ایسی فری فالنگ یہ خلائی اسٹیشن بھی کرتا ہے، جب کوئی شے زمین کے مدار میں 8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے تو وہ سامنے کی طرف moveتو کررہی ہوتی ہےلیکن اس دوران وہ زمین کی جانب بھی گررہی ہوتی ہے، لیکن چونکہ زمین گول ہے لہذا اس چیز کی height جیسے ہی کم ہونے لگتی ہے تو زمین خم کھا جاتی ہے تو اس شے کی زمین سے اونچائی دوبارہ وہی ہوجاتی ہے جو پہلے تھی، یہ شے جب مزید آگے جاتے ہوئے زمین پہ گرنے لگتی ہےتو زمین مزید مُڑجاتی ہے(خم کھاجاتی ہے) جس وجہ سے یہ چیز دوبارہ اسی اونچائی پہ آجاتی ہے، یوں یہ شے زمین کے گرد بغیر فیول کے گھومنا شروع ہوجاتی ہےاور zero-gravity محسوس کرنا شروع ہوجاتی ہے،(اس ضمن میں ایک ویڈیو کا لنک بھی مضمون کے آخر میں شئیر کررہا ہوں جسے دیکھ کر آپ اس mechanism کو زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں)۔

یہ خلائی اسٹیشن آسمان پہ موجود ان چند اجسام میں سے ایک ہے جو بہت چمکدار دکھائی دیتے ہیں، اگر آپ بھی اس کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو آرٹیکل کے آخر میں موجودویب سائٹ پہ جاکر اپنے علاقے کا نام لکھنا پڑے گاجس کے بعد آپ معلوم کرسکیں گے کہ یہ آنے والے کن کن دنوں میں ، کس سمت میں آپ کے شہر کے اوپر دکھائی دےگا،آپ وہ سمت اور وقت نوٹ کرلیں، بتائے گئے وقت سے کچھ منٹ پہلے آپ چھت پہ یا کھلے آسمان کے نیچے آجائیں ، اور بتائی گئی سمت کی طرف دیکھنا شروع کردیں ، تھوڑی دیر بعد اُس سمت میں ایک واضح اور روشن ستارہ دکھائی دے گا، جو ایک جانب سےنکل کر تقریباً 4 سے 6 منٹ میں دوسری جانب غروب ہوجائے گا یہ یہی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ہوگا، جو آسمان پہ ستارے کی شکل میں دکھائی دیتا ہے،اس کی نشانی یہ ہوگی کہ یہ آپ کو اپنی جگہ بدلتا دکھائی دےگا، انسانی ترقی کی یہ معراج ہے جسے آپ عام آنکھ سے دیکھ رہے ہونگے،چونکہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی اپنی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی روشنی ہی reflect کرتا ہے جس وجہ سے اسے آپ صرف غروب آفتاب کے بعد یا طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے ہی دیکھ سکتے ہیں، اس دوران ہمیں تو آسمان پہ اندھیرا دکھائی دیتا ہےمگر 400 کلومیٹر کی اونچائی پہ سورج کی روشنی اس تک پہنچ رہی ہوتی ہے جبکہ آدھی رات کو اگر یہ آپ کے شہر پہ سے گزرتا ہے تو آپ اسے نہیں دیکھ سکتے ،کیونکہ زمین کے سائے میں آجانے کے باعث سورج کی روشنی اس تک نہیں پہنچ پاتی اوردن کے وقت بھی سورج کی روشنی کے باعث آپ اسے نہیں دیکھ سکتے۔روشنی کے حساب سے یہ آسمان پہ سیارہ زہرہ کی طرح روشن دکھائی دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2012ء میں ناسا نے Spot the Station نامی سروس بھی متعارف کروائی جس کے تحت آپ رجسٹریشن کرکے ای میل الرٹ آن کروا کرسکتے ہیں،جب جب یہ خلائی اسٹیشن آپ کے شہر کے اوپرسے گزرے گا اور دیکھنے کے قابل ہوگا، تو آپ کو ناسا کی جانب سے ای میل ہوصول ہوجایا کرے گی(لنک مضمون کے آخر میں موجودہے)۔یہ خلائی اسٹیشن زمین کے 95 فیصد علاقوں سے دیکھا جاسکتا ہے، بہت زیادہ شمال یا بہت زیادہ جنوب میں موجود علاقوں کے رہنے والے اس خلائی اسٹیشن کونہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس کا گزر ان علاقوں کے اوپر سے نہیں ہوتا۔یہ خلائی اسٹیشن نسل انسانی کےلئے عظیم مثال رہے گا، ہم اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ہم اُس دور میں جی رہے ہیں جب انسان کے بنائے ہوئے اس اُڑن کھٹولے کو اپنی آنکھوں سے خلاء میں اُڑتا دیکھ رہے ہیں، یہ اسپیس اسٹیشن مستقبل میں ہونے والی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کرنے والا ہے، معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ 2030 ء تک کیا ہو،لیکن اتنا ضرورہے کہ آنے والی نسلیں اس اُڑن کھٹولے کو اپنی کتابوں میں لازمی پڑھیں گیں، لہٰذا یہ وقت miss نہ کریں اور اس کے متعلق ضرور آگاہ رہیں تاکہ جب آپ بوڑھے ہوں اور آپ کے بچے آپ کو بتائیں کہ “بابا آج سے 50سال پہلے International Space Station نامی ایک اُڑن کھٹولا بنایا گیا تھا جس میں مختلف تجربات کیے جاتے تھےاور آج اگر انسان مریخ اور چاند پہ رہ رہا ہےتو اس میں اُس اسٹیشن کا بہت بڑا کردار ہے” توآپ ان کو بتا سکیں کہ “جی ہاں بچے میں نےاس خلائی اسٹیشن کو اپنی آنکھوں سے آسمان پہ اُڑتا دیکھا ہے”۔جب بھی کبھی یہ خلائی اسٹیشن اسلام آباد کے اوپر سے گزرتا ہے تو میں اپنے والدین اور رشتہ داروں کو اس کا نظارہ کرواتا ہوں، بلکہ میں گزارش کرونگا کہ اگر ہوسکے تو جب بھی یہ خلائی اسٹیشن آپ کے شہر کے اوپر سے گزرے توآپ بھی اپنے گھر والوں،بچوں اور دیگر رشتہ داروں کو یہ منظر دکھایا کریں تاکہ سب میں آگاہی پیدا ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ چونکہ ہم سائنسی تحقیقات میں بہت پیچھے ہیں لہٰذا یہ خلائی اسٹیشن ہماری آنے والی نسلوں کے لئے motivation پیدا کرسکتا ہے، چھوٹے بچوں اور youth کو سائنس کی جانب راغب کرنے کےلئے یہ بہت اچھا اور کارآمد Toolہوسکتاہے، یقین کریں سائنس اور ہماری کائنا ت ایک جادو ہے، دوسروں کو یہ “جادو” سیکھنےکی ترغیب دیں تاکہ ہم سب زندگی کی اِن مشکلات سے نکل کر نئے جہاں میں داخل ہوسکیں …خود کو نئی جہتوں سے متعارف کرواسکیں….لہٰذا جب بھی کبھی یہ خلائی اسٹیشن آپ کے دَر پہ آئے تو اسے خوش آمدید کہیے اور بچوں کو بتائیے کہ بیٹا یہ ہے وہ “حقیقی اڑن کھٹولا” جس کے باعث نسل انسانی زمان و مکاں کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر انقلاب برپاکرنے والی ہے۔
(ختم شُد)
انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کب آپ کے علاقے پہ نمودار ہوگا، جاننے کےلئے مندرجہ ذیل ویب سائٹ پہ اپنے علاقے کا نام لکھیے:
https://www.n2yo.com/?s=25544
ناسا کی Spot the Station سروس پہ رجسٹریشن کے لئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
https://spotthestation.nasa.gov
عالمی خلائی اسٹیشن کی live ویڈیو دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجیے:
https://www.youtube.com/playlist?list=PL2aBZuCeDwlQMf6xMgQAUAY_nbHAgW5jz
https://www.nasa.gov/multimedia/nasatv/iss_ustream.html
اس سیریز کا چوتھا حصہ پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجیے:
https://www.mukaalma.com/47994
لیگ رینج پوائنٹس کے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
https://www.mukaalma.com/50115
“آسمانی محل”نامی چینی سیٹلائیٹ کے گرنےکے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
https://www.mukaalma.com/26443
خلائی اسٹیشن کیسے فری فالنگ میں ہے؟ جاننے کےلئے نیچے لنک پہ موجود ویڈیو دیکھیے:
https://youtu.be/6kOJhWA0Co0?t=315

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply