انیسویں صدی میں یہاں کے جزیروں کا پہلی بار سائنسی مطالعہ کیا گیا اور یہاں پر دنیا کی سب سے بڑی صنعت لگی جس نے کئی ملکوں کی تاریخ تبدیل کی۔ گوانو کی صنعت کا ابتدا یہیں سے ہوا۔ سب سے زیادہ سپلائی پیرو سے تھی۔ جہاں اس نے چند دہائیوں میں کھیتوں میں جان ڈالی، وہیں پر پیرو کی معیشت میں بھی۔ صنعت کے آغاز کے بعد چند ہی سال میں پیرو کی معیشت دس گُنا ہو چکی تھی۔ چند دہائیوں تک یہ چلتا رہا۔ فضلے کے ذخائر بھی کم ہو رہے تھے۔ لیکن اس وقت تک کانکنوں نے نائیٹریٹ کے بڑے ذخائر صحرائے ایٹاکاما کی ریت تلے دریافت کر لیے تھے۔ یہ چلی سالٹ پیٹر تھا۔ سوڈیم نائیٹریٹ جو یہاں کی ریت کا حصہ تھا۔
سوڈیم نائیٹریٹ کا استعمال صرف کھاد میں نہیں تھا بلکہ بارود میں بھی۔ یعنی زندگی اور موت دونوں میں۔ بڑی آبادیوں اور زیادہ تباہ کُن اسلحے کی کنجی اس ریت میں تھی۔ اس نے پیرو کی معیشت کو دفن کر دیا۔ پیرو کو واپس پاؤں پر کھڑے ہوتے کئی نسلیں لگیں۔
اس صحرا میں کان کنی کے قصبے بننا شروع ہوئے۔ صحرا کا زیادہ حصہ کاغذوں پر بولیویا کا تھا۔ بولیویا کم آبادی والا ملک تھا لیکن اس سے پہلے چاندی کی دوڑ میں اس علاقے کو آباد چلی نے کیا تھا اور اب نائیٹریٹ کی کان کنی کی صنعت چلی کے لوگوں کے خون پسینے سے لگی تھی۔ اب اس کے قیمتی ہو جانے کے بعد بولیویا اور پیرو نے اتحاد کیا اور یہاں کی کانوں پر قبضہ کر لیا۔ 1879 میں چلی نے اعلانِ جنگ کر دیا۔ چار سال جاری رہنے والے جنگوں کے اس سلسلے میں پیرو اور بولیویا کو عسکری شکست ہوئی اور چلی نے پورے صحرا پر قبضہ کر لیا۔ اگلے کچھ برسوں میں نائیٹریٹ کی یہ صنعت یہاں کی سب سے منافع بخش صنعت بن چکی تھی۔ چلی کی معیشت کی برآمدات کا ستر فیصد اور مجوعی معیشت کا نصف سے زیادہ اس صحرا کے پتھر تھے۔ سرمایہ کاری نے اور بڑی تعداد میں مزدوروں نے یہاں کا رخ کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں آبادیاں بننا شروع ہوئیں۔ شہر اُگنا شروع ہوئے اور چلی کے لئے ایک ترقی کا ایک بڑا دور شروع ہوا۔
کیمسٹری اور جنگ سے شروع ہونے والے اس عروج کا زوال بھی کیمسٹری اور جنگ سے آیا۔ چلی کا عالمی نائیٹریٹ کی سپلائی میں اس قدر زیادہ حصہ تھا کہ یہ بیسویں صدی کے آغاز پر تقریبا تمام دنیا کا انحصار چلی پر تھا۔ نہ صرف کھیتوں کے لئے، بلکہ فوجوں کے لئے بھی۔ یہاں پر بھاری برطانوی سرمایہ کاری تھی۔ پہلی جنگِ عظیم سر اٹھا رہی تھی۔ برطانیہ چلی سالٹ پیٹر کی رسد کاٹ سکتا تھا۔ جرمن سائنسدان نے اس کا متبادل ڈھونڈ لیا تھا۔ متبادل خاصا مہنگا تھا لیکن اس کے بغیر جرمنی کا گزارا نہیں تھا۔ جرمنی نے اس متبادل کے گرد اپنی صنعت بنانا شروع کر دی۔ یہ جرمن سائنسدانوں کا دریافت کردہ ہیبر بوش پراسس تھا جس کی وجہ سے پہلی جنگِ عظیم میں جرمن فوجوں کی اسلحہ سپلائی جاری رہی۔ جنگ ختم ہو گئی مگر ہیبر بوش پراسس نہیں۔ صنعتی پراسس، اکانومی آف سکیل اور سیکھنے کے عمل کے باعث متبادل نائیٹریٹ کا طریقہ سستا ہو گیا۔ جس طرح یہ سستا ہوتا گیا، چلی کی نئی آبادیاں ایک ایک کر کے اُجڑتی گئیں۔
یہ نئی کیمسٹری جہاں پوری دنیا کے لئے زندگی تھی، وہاں اس نے چلی کی معیشت کو تباہ کر دیا اور عالمی سیاست میں کردار ختم کر دیا، ویسے ہی جیسا کچھ عرصہ پہلے پیرو کے ساتھ ہوا تھا۔ کیمسٹری کے ایک قدم کی وجہ سے بننے والے شہروں کو کیمسٹری کے اگلے قدم نے اجاڑ دیا تھا۔ ان اجڑے ہوئے گھوسٹ ٹاؤنز کو دیکھنے اب صرف کچھ شوقین سیاح جاتے ہیں۔
جرمن سائنسدانوں ہیبر اور بوش کو اس پر الگ الگ نوبل انعامات ملے۔ ساتھ دی گئی تصاویر اس صحرا کے ایک گھوسٹ ٹاؤن ہمبرسٹون کی ہیں جو آباد اس لئے ہوا کہ ہم نائٹروجن پتھروں سے لینا شروع ہوئے تھے اور غیرآباد اس لئے کہ یہ ہم نے ہوا سے لینا سیکھ لیا۔
ہیبر بوش ری ایکشن پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_893.html
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں