مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی مختصر تاریخ۔۔۔حمزہ ابراہیم

پچھلے دنوں جنرل (ر) امجد شعیب کی ایک گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی جس میں موصوف یہ کہہ رہے ہیں کہ جب بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں کیا عیب ہے؟ آج کل مشکوک ہاتھوں کی مدد سے برسر اقتدار آنے والی تبدیلی سرکار کی ایک رکن پارلیمنٹ کی طرف سے اسرائیل کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔ ہمارے فوجی آقا جب ریٹائر ہوتے ہیں تو آمدن کے نئے ذرائع کی تلاش میں پورے اعتماد کے ساتھ اکثر ایسے کام شروع کر دیتے ہیں جن کے بارے میں ان کا دماغ کام نہیں کر سکتا۔یہ صاحب میڈیا میں تجزیہ کار بن کر اکثر قومی مسائل پر بونگیاں مارتے رہتے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت میں بہت  فرق ہے ، جس کو مد نظر رکھتے ہوۓ ہی بانی پاکستان جیسے تجربہ کار سیاست دان نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ خود بھارت کی کانگریس سرکار بھی نوے کی دہائی تک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کتراتی رہی ہے کیونکہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے ایک بڑا اخلاقی سوال ہے۔ یہ مذہبی سے زیادہ اخلاقی معاملہ ہے، جیسا کہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا معاملہ تھا۔ اسرائیل کے مسئلے پر بہترین تحقیقی کام یہودی پروفیسر علان پاپے(ILAN PAPPE) اور مرحوم مسیحی مفکر ایڈورڈ سعید(EDWARD SAID) ، اور ان کے علاوہ کئی ایک بڑے لوگوں نے کیا ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ ایسے ریٹائرڈ بابے اس معاملے میں بولنے سے پہلے دو چار کتابیں پڑھ لیا کریں۔ یہاں عرب اسرائیل تنازعےکا ایک تعارف پیش کرنا مقصود ہے۔

جس وقت عالمی طاقتوں نے جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کمزور ہو جانے اور غلام بنائی گئی اقوام میں بڑھتی ہوئی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے نکلنا چاہا تو ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ایشیا اور افریقہ کے معدنی وسائل کی مغربی دنیا کے صنعتی ممالک میں ترسیل کو کیسے محفوظ بنایا جائے؟ جدید صنعت اور معیشت کیلئے درکار توانائی مشرق وسطیٰ کے تیل اور خام مال کی ضروریات افریقہ اور برصغیر کی معدنیات اور زراعت سے پوری ہوتی تھیں اور یہ چیزیں مصر کی نہر سویز اور فلسطین کے ساحل سمندر کے راستے مغربی منڈیوں میں پہنچتی تھیں۔ دوسری طرف پچھلے دو ہزار سال سے یورپ میں بسنے والے یہودی اپنے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے اب فلسطین یا امریکا کی طرف ہجرت کر نے لگ گئے تھے۔
یورپ میں بسنے والے یہودیوں میں سے کچھ تو وہ تھے جن کے آبا و اجداد بنی اسرائیل کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ فلسطین پر رومیوں کے قبضے کے بعد یورپ پہنچے تھے۔ لیکن اکثر یہودیوں کا تعلق روسی نسل سے تھا جو اشکنازی کہلاتے تھے۔ اشکنازی یہودیوں کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں ہے۔بلکہ یہ نیلی آنکھوں اور گوری رنگت والے لوگ دو ہزار سال پہلے یہودی مذہب اختیار کرنے والے ایک روسی قبیلے کی نسل سے ہیں جو موجودہ یوکرین اور روس کے کچھ علاقوں میں آباد تھا۔ ماضی بعید میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کی اکثریت نے فلسطین میں رہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نہ صرف اسلام کا نظریہ توحید ان کے عقائد کے قریب تھا، بلکہ اسلام قبول کرنے والوں کو جزیہ بھی نہیں دینا پڑتا تھا۔ یورپ میں یہودیوں کو نہ صرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا بلکہ نسل پرستی کی وجہ سے بھی انہیں امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ہر حادثے یا ناکامی کو یہودیوں کی سازش کہا جاتا۔ اس نفرت کی وجہ سے بعض یہودیوں نے جنگ عظیم دوم سے پچاس سال قبل اپنے مذہب کی تعلیمات کے برعکس یہودی ریاست کے قیام کا خیال اپنایا۔ یہ لوگ صیہونی کہلاتے تھے اور مغربی اقوام کی طرف سے کینیڈا، امریکا اور آسٹریلیا اور دنیا کے دوسرے حصوں میں کمزور اقوام کے مادی وسائل پر قبضے سے متاثر تھے ۔یہ مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن یہودی نسلوں سے تعلق رکھنے اور یورپ میں نسلی تعصب کا نشانہ بننے کی وجہ سے قوم پرست بن چکےتھے۔ انہوں نے پہلے یوگنڈا کو اپنی سیٹلر کولونیل ریاست کیلئے موزوں جگہ قرار دیا۔لیکن چونکہ یہودی عوام میں اس جگہ کی کوئی کشش نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں فلسطین میں جا کر اس ریاست کی بنیاد رکھنی چاہئیے تاکہ شہریوں کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں مذہبی وابستگی کو استعمال کیا جا سکے۔ شروع میں ان کے اس منصوبے کو یہودیوں کی اکثریت نے قبول نہیں کیا۔ البتہ جرمنی میں نسل پرست نازی حکومت آنے کے بعد اس مذہب بیزار تنظیم کو بہت پذیرائی ملی۔ ہٹلر یہودیوں کو باقی غیر جرمن اقوام کی طرح پست سمجھتا تھا اور اس نے نسلی تعصب کی وجہ سے یورپ کے مفتوحہ علاقوں میں یہودی اور ہندوستانی نسل کے”جپسی”باشندوں کا قتل عام شروع کر رکھا تھا۔ اس قتل عام کے خوف سے یہودی یا تو امریکا بھاگ رہے تھے یا صیہونی تحریک کی پیروی کرتے ہوئے فلسطین جا رہے تھے۔

اسی قتل عام کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر یہودی خدا پر یقین کھو بیٹھے۔جنگ عظیم دوم کے بعد جب مردم شماری ہوئی تو معلوم ہوا کہ یورپی آبادی میں ساٹھ لاکھ یہودی کم ہو چکے تھے۔ ان ساٹھ لاکھ میں سے اکثر جنگ کے دوران مظلومی کی موت مارے گئے۔
صیہونی تحریک کیلئے سب سے بڑا مسئلہ دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کرنے پر مائل کرنا تھا۔ یہودی یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ، برصغیر اور افریقہ میں بکھرے ہوئے تھے۔ یورپ کے یہودی اپنے اپنے ممالک اور ان کے موسم اور ثقافت سے محبت کرتے تھے، اور ان کے علمی اور مالی حالات بہتر تھے۔ اگرچہ انھیں نفرت پر مبنی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر پھر بھی کسی بھی انسان کیلئے اپنی جائیداد اور وطن چھوڑ کر کسی دوسرے انسان کی جائیداد اور وطن پر قبضہ کرنا آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ فلسطین کی آب و ہوا بھی ان کیلئے زیادہ پر کشش نہ تھی۔ مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور برصغیر میں بسنے والے یہودیوں کے حالات ان علاقوں کے باقی باشندوں جیسے تھے۔ انھیں کسی نسلی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ صیہونی تحریک کو ملک بنانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں یہودی چاہئیے تھے۔ یہ ضرورت اس وقت پوری ہوئی جب یورپ میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام شروع کیا اور اس کے نتیجے میں پانچ لاکھ یہودی فلسطین آ گئے۔ اگر ہولو کاسٹ نہ ہوتا تو اسرائیل کا قیام اورپھر اسکا دفاع افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے نا ممکن ہو جاتا۔ دوسری طرف اسرائیل کے قیام کا اعلان سن کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں یہودیوں کے خلاف نفرت نے جنم لیا جس کی وجہ سے ان علاقوں سے بھی یہودی فلسطین کی طرف چلے گئے۔ آج بھی یہودیوں کو مسلمان علاقوں سے نکالنے کیلئے القاعدہ جیسی تنظیموں کی دہشتگردی ایک اہم اوزار ہے ۔ پاکستان میں بسنے والے یہودیوں کو ڈرا کر فلسطین منتقل کرنے کا سہرا فروری 2002میں ڈینیل پرل نامی یہودی صحافی کے قاتلوں کو جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی علاقے سے یہودی آبادی کو نکالنے کا مطلب فلسطینیوں کی زمین پر قبضے میں حصہ ڈالنا ہے۔ یہ یہودی جب اسرائیل جائیں گے تو اسرائیلی حکومت انہیں کسی نہ کسی فلسطینی کی جائیداد پر ہی بسائے گی۔ یہ سادہ سی بات سمجھنے کیلئے جذبات کے بجائے عقل کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی ہے بلکہ صیہونیوں کے جرائم کی سزا اپنے ہم وطن یہودیوں کو دینا اخلاقی اور اسلامی لحاظ سے بھی غلط ہے۔اس حوالے سے اتاترک کے ترکی کا کردار کافی مثبت رہا، ترکی میں بسنے والے یہودیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ آج مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد ترکی میں بستی ہے۔ ایران نے بھی اپنے ملک میں یہودی اقلیت کے حقوق کو یقینی بنا کر انکی اسرائیل منتقلی کے عمل کو روکا ہے۔

جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت نے مغربی طاقتوں کو ایک بڑے مسئلے کا حل فراہم کر دیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد مشرق وسطیٰ کو ترک کرتے ہوئے یورپ کی ایشیا اور افریقہ کے خام مال اور منڈیوں تک رسائی کی نگرانی ایک ایسی ریاست کے ذریعے کی جا سکتی تھی جو مقامی باشندوں سے ہمیشہ حالت جنگ میں رہے۔ ایسی صورت میں یہ ریاست ہر وقت مغربی طاقتوں کی محتاج رہے گی اور ان سے تعلقات اسکی مجبوری ہو گی۔ اس پس منظر میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔مقامی باشندوں کو بھی فلسطین کے آباد علاقوں میں ایک ریاست بنانے کا وعدہ کیا گیا۔یہ علاقے آج کل بین الاقوامی قانون میں غزہ اور مغربی کنارے تک محدود ہیں لیکن یہاں کے باشندوں کو مکمل شہری حقوق ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔
جنگ عظیم دوم میں جب ہٹلر یہودیوں کو مار رہا تھا تو باقی ممالک اور خود جرمن عوام نے اس ظلم پر کوئی توجہ نہ دی، یہ مغرب میں یہودیوں کو کم تر انسان سمجھے جانے کے ایک بہت گہرے رجحان کی عکاسی تھی۔ یورپ کی تاریخ اور ادب میں یہودیوں سے نفرت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی روشن خیالی کی تحریک کے بڑے بڑے علمبرداروں کی تحریروں میں جہاں بڑے جدید اور روشن تصورات پائے جاتے ہیں وہیں یہودیوں سے تعصب جیسا کھلا تضاد بھی دکھائی دیتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے باشندوں کے بارے میں بھی ان حضرات کے خیالات دوہرے معیار پر مبنی رہے ہیں، جن کا احاطہ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ امن، مساوات اور انسان دوستی کی باتوں میں انسان سے مراد یورپی نسل کا انسان لیا جاتا رہا ہے۔ اس وجہ سے جہاں صیہونی تحریک کے یہودی جمہوریہ کے تصور کو یہودی عوام میں پذیرائی ملی وہیں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپی ممالک میں اسرائیل کے تحفظ کو یہودیوں کے واپس نہ آنے کی ضمانت سمجھا گیا۔

جنگ عظیم دوم کے بعد ہولو کاسٹ میں ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل عام پر بہنے والے اکثر آنسو مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ جب یہ قتل عام ہو رہا تھا تو اس کو میڈیا میں اور جنگ کے فیصلوں میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا جنگ عظیم اول میں ترکی کی طرف سے پندرہ لاکھ آرمینی باشندوں کے قتل عام کے معاملے میں کیا گیا ۔ البتہ جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی طاقتوں نے فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ان کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں۔ اس سلوک کی وجوہات تہہ در تہہ ہیں۔ ایک تو اسرائیل یہودیوں کے یورپ سے نکلنے اور واپس نہ آنے کو یقینی بناتا ہے۔ دوسرے یہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر موجود تجارتی راستوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے جو یورپ کی کاروباری ضرورت ہے۔ اس کی تیسری اہم وجہ مسیحی صیہونیت ہے۔ بہت سے مذہبی مسیحی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس وقت تک دوبارہ ظہور نہیں کریں گے جب تک سب یہودی فلسطین میں اکٹھے نہیں ہو جاتے۔ انکے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑکے آنے پر ان یہودیوں کو عیسائیت اختیار کرنے اور موت میں سے ایک چیز کے انتخاب کا حق دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سوچ بھی بنیادی طور پر یہودیوں کے بارے میں نفرت پر مبنی ہے لیکن نسل پرستی والے عنصر کی طرح اس عنصر نے بھی اسرائیل کےلئے مغربی معاشروں میں بہت حمایت پیدا کی ہے۔ اسرائیل کو حاصل تحفظ کی چوتھی بڑی وجہ اسلام دشمنی ہے۔ یورپ کا اسلام سے واسطہ بہت پرانا ہے اور ہر مذہبی اختلاف کی طرح مسلم مسیحی اختلاف نے بھی نفرت کو جنم دے رکھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ترکی، شامات اور شمالی افریقہ کو رومی سلطنت کے قبضے سے مسلمانوں نے آزاد کرایا تھا۔ مسیحی مبلغین کی اسلامی مخالف تبلیغ اور صلیبی جنگوں نے بھی مغربی ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ان سب عوامل کو ذہن میں رکھے بغیر یا ان میں سے کسی ایک کا سادہ دلی یا جلد بازی کی وجہ سے انکار کر کے مشرق وسطیٰ کے حالات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

اقوام متحدہ میں مغربی طاقتوں نے جو اسرائیل بنایا تھا وہ نہایت کمزور ملک تھا۔اس کو دو مسائل درپیش تھے۔ پہلا مسئلہ یہ کہ جس علاقے پر یہ ریاست قائم ہونی تھی، وہاں اکثریت فلسطینی مسلمانوں کی تھی۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس ریاست کے شمالی اور جنوبی حصے کا رابطہ دس کلومیٹر چوڑی پٹی پر مشتمل تھا۔ اس ریاست کے تل ابیب جیسے اہم رہائشی اور معاشی علاقے بھی اسی تنگ پٹی میں موجود تھے۔ کسی بھی جنگ کی صورت میں اس ریاست کو مغربی امداد پہنچنے سے پہلے نابود کیا جا سکتا تھا۔ صیہونی قیادت نے پہلے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ 1948 میں نکبہ کے نام سے جانا جانے والا قتل عام کیا جس کے نتیجے میں اس علاقے کے اکثر فلسطینی اپنے گھر بار کو چھوڑ کر پڑوسی عرب ممالک میں مہاجر بن گئے۔اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بے دخلی کی مذمت کی اور فلسطینی مہاجرین کی اسرائیل کے زیر انتظام علاقوں میں واپسی کی سفارش کی، اور یہ بھی کہا کہ اگر یہ لوگ واپس نہ آ سکے تو ان کی اولادیں واپسی کا حق رکھتی ہیں۔حال ہی میں سامنے آنے والی تاریخی دستاویزات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس قتل عام سے پہلے صیہونی قیادت نے اردن کے بادشاہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان فلسطینیوں کے انخلا کو پناہ دینے کے نام پر یقینی بنائے گا۔ یہاں سے اردن کے شاہی خاندان کے صیہونی ریاست سے پرانے تعلقات کا پتا چلتا ہے نیز یہ بات سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ کیوں اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور کیوں اردن میں کسی عرب بہار یا انقلاب کا نام و نشان نہیں ملتا؟اس قتل عام کے رد عمل میں عرب عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے سد باب کیلئے 1948 میں مصر، اردن اور شام کی حکومتوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جو اسرائیل کی بھرپور تیاری اور جدید ہتھیاروں کے سامنے پسپا ہو گیا۔ تلواریں ، بندوقیں اور گھوڑے ، جدید مشین گنوں ، توپوں اور فضائیہ سے ہار گئے۔ اسرائیل نے فلسطینی اکثریت کے بعض دیگر علاقوں (جیسے الجلیل ) پر بھی قبضہ کر لیا جن کے باسی آج اسرائیل کے عرب شہری کہلاتے ہیں اور نسلی امتیاز کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ اب اسرائیل شام اور لبنان کا پڑوسی بھی بن گیا تھا۔

اسرائیل کو اپنا دفاع مضبوط بنانے کا دوسرا موقع اس وقت ملا جب مصر میں جمال عبدالناصر نے فرانس اور برطانیہ کے نہر سویز پر قبضے کے خلاف حکم جاری کرتے ہوئے نہر سویز کو قومی تحویل میں لے لیا۔نہر سویزکو 1869 میں فرانس کی ایک کمپنی نے تعمیر کیا تھا اور اس وقت کے مصری بادشاہ سے معاہدہ کیا تھا کہ یہ نہر اگلے سو سال تک اس کمپنی کی ملکیت رہے گی۔ معاہدے کے مطابق مصر کو 1969 میں اس نہر کا قبضہ ملنا تھا مگر جمال عبدالناصر نے 1956 میں اس کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا اور اسی دوران فرانس سے ایٹم بم بنانے کیلئے نیوکلیئر لیبارٹری بھی خرید لی۔ امریکا نے اس جنگ سے پہلے اجازت طلب نہ کئے جانے کی مذمت کی اور جنگ بندی کرا دی۔ اس جنگ میں جارح اسرائیل، برطانیہ اور فرانس تھے اور اسرائیل کے سوا کسی فریق کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ مصر اور شام نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے عزائم کو دیکھ کر اپنی فوجی طاقت میں اضافہ شروع کر دیا۔
اب اسرائیل کیلئے اگلا ہدف شام کی سرحد کے ساتھ موجود پہاڑیاں تھیں۔یہ پہاڑی سلسلہ جولان کہلاتا ہے۔ یہ جنگی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے کی اہم بات شام کی طرف موجود قدرتی خندق ہے جو شامی فوج کی شام سے اسرائیل کی جانب نقل و حرکت کے لیے بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ یہاں پانی کے ذخائر موجود ہیں جن پر قبضے کے بعد”مشرق وسطیٰ کے صحرا میں ہرے بھرے اسرائیل” کا خواب پورا ہو سکتا تھا۔ عربوں کے پانی کو اسرائیلی صحراؤں میں بہا کر صحرا کو قابل کاشت بنایا جا سکتا تھا۔1967 میں جمال عبدالناصر نے حسب معمول ڈینگیں مارتے ہوئے صحرائے سینا میں موجود اقوام متحدہ کے امن لشکر کو مصر سے نکال دیا۔ اس فضا نے اسرائیل کو ایک اور موقع فراہم کیا۔ مصر جنگ کے آغاز کیلئے تیار نہیں تھا۔ اسرائیل نے اچانک مصر اور شام کے ہوائی اڈوں پر حملہ کر کے دونوں ممالک کی فضائیہ کو بھاری نقصان پہنچایا۔ یہ جنگ چند روز جاری رہی اور اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں اور مصر کے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ شام کی حکمران بعث پارٹی کے مرکزی قائدین میں حافظ الاسد نے ان تمام واقعات اور عرب قیادت کی حماقت کو قریب سے دیکھا تھا۔عرب نہ صرف اسلحے کے اعتبار سے پسماندہ تھے بلکہ ان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اسرائیل کے منصوبوں کے بارے میں درست اطلاعات حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ شام کی کمیونسٹ بعث پارٹی کی حکومت کی طرف سے ”عوامی فوج“ جیسے غیر پیشہ وارانہ منصوبے ناکام رہے تھے۔ اسی طرح ملک میں آمرانہ معاشی قوانین کی وجہ سے گھٹن میں اضافہ ہوا تھا۔حکومت اور عوام میں دوریاں تھیں۔ شام کی حکومت خارجی تعلقات میں بھی تنہائی کا شکار ہو گئی تھی۔ 1970 میں اردن کے شاہ نے پاکستانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی قیادت میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا۔ (ضیاء الحق اس وقت ایک تربیتی مشن پر اردن میں تعینات تھا۔ واپسی پر اسکو ترقی دے کر پہلے کور کمانڈر اور بعد میں چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا)۔ شام کی حکومت نے اس وقت اردن پر حملے کے سوال پر غور و فکر کیا۔اس وقت وزیر دفاع حافظ الاسد نے فلسطینیوں کے جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے کیلئے زمینی فوج کا ایک برگیڈ فلسطینی قیادت کے زیر اثر قرار دیا۔ شام اردن سے مکمل جنگ کا اعلان نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مکمل جنگ کی صورت میں اسرائیل اور امریکا کی طرف سے اردن کی حمایت کے نام پر شام پر ایسا حملہ متوقع تھا جس کیلئے شامی فوج تیار نہیں تھی۔ حافظ الاسد اور اس کے دوست کئی سالوں سے داخلی انتشار اور کمزوریوں کی اصلاح کی کوشش کر رہے تھے۔ اردن میں ہونے والے سانحے کے بعد حافظ الاسد نے حکمران جماعت اور حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔شام اسرائیل کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں چلا آ رہا ہے۔ایسے حالات میں حافظ الاسد نے جہاں شام اور اس سے باہر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا جال بچھایا اور شام میں جدید علوم اور صنعت کو فروغ دیا، وہاں داخلی اعتبار سے کچھ سخت اقدامات بھی اٹھائے تاکہ اس جنگ کے دوران اندرونی دشمنوں کے وار سے محفوظ رہا جا سکے۔

چھ اکتوبر 1973 میں، جب اسرائیل میں چھٹی کا دن تھا، حافظ الاسد اور مصر کے انور سادات نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی جو عرب قیادت نے شروع کی تھی۔ اس کیلئے بھرپور تیاری کی گئی تھی اور اسرائیلی جاسوسی اداروں کو اس حملے کی بھنک نہیں پڑی تھی۔ اسرائیل کے ایٹمی حملے کے جواب کیلئے حافظ الاسد نے کیمیائی ہتھیار جمع کر لیے تھے۔ یہ حملہ نہایت کامیاب رہا اور شام نے جولان کی پہاڑیوں میں پیش قدمی شروع کر دی۔لیکن اسی وقت انور سادات نے صحرائے سینا میں اپنی فوج کی پیش قدمی روک لی۔ انور سادات یہ سمجھتا تھا کہ اسکی وقتی پیش قدمی اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گی۔ وہ امریکا سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہونے کی وجہ سے اسرائیل پر کوئی کاری وار لگانے کا قائل نہیں تھا۔ دوسری طرف اسلحے سے بھرے امریکی جہاز اسرائیل کی بندرگاہوں پر آنے لگے۔ شام کی فوج چونکہ اسرائیل کیلئے سب سے قریبی خطرہ تھی، اسرائیل اور امریکا نے اپنا تمام زور شام پر حملے میں صرف کر دیا۔ شام کے کچھ قصبوں کو آزاد کرانے کے بعد جولان کی پہاڑیوں میں شامی فوج کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا اور وہ پہاڑیاں آزاد نہ کرائی جا سکیں۔ البتہ اس جنگ کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ شام نے قنیطرہ کا علاقہ واپس لے لیا۔یہ وہی زمانہ تھا جب پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شامی فضائیہ کی مدد کیلئے پاکستانی پائلٹوں کا دستہ بھیجا۔
اسرائیل نے شام کا حملہ پسپا کرنے کے بعد انور سادات کو بھی اسکی حماقت کا سبق سکھایا اور مصر پر حملہ کر کے اسکی فوج کو دار الحکومت قاہرہ سےصرف اسی کلومیٹر کے فاصلے تک دھکیل دیا۔ اب مذاکرات میں اسرائیل کا پلڑا بھاری ہو گیا تھا۔ چھ سال تک چلنے والے مذاکرات کے سلسلے میں حافظ الاسد نے یہ موقف اپنایا کہ اسرائیل کے ساتھ عربوں کے تمام مسائل کو ایک ساتھ حل کرنا چاہئیے۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کو قبضے میں لیے گئے علاقے ترک کرنے اور گھروں سے نکالے گئے فلسطینی واپس اپنے علاقوں میں پہنچائے جانے چاہیئیں۔ البتہ امریکا اور اسرائیل، مصر اور شام کو عرب اسرائیلی تنازعے کی مساوات سے خارج کرنا چاہتے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے تعریفیں کر کے انور سادات کو شیشے میں اتار لیا تھا۔ انور سادات نے آہستہ آہستہ سب اصولی باتوں سے منہ پھیر لیا۔ مصر نے صحرائے سینا کا علاقہ واپس ملنے کی شرط پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا مگر شام نے فلسطین کا مسئلہ حل کئے بغیر اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ البتہ اسرائیل نے مصر کے مزاحمت سے نکل جانے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے اقدامات پر اکتفا نہ کیا۔ انہوں نے انور سادات سے یہ بھی منوایا کہ صحرائے سینا میں کم فوج رکھو گے، ہماری کشتیوں کو نہر سویز سے مفت گزر گاہ فراہم کرو گے۔حافظ الاسد نے اس خیانت کے بعد مصر سے تعلقات ختم کر دئیے۔ حافظ الاسد کی ایک خوبی عالمی طاقتوں کے اعلیٰ تربیت یافتہ مذاکرات کاروں کے ساتھ کسی معاملے کی جزئیات اور تفصیلات پر گھنٹوں مذاکرات کرنے کی صلاحیت تھی۔ یہ ان معاملات کے بارے میں اس کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اسکی ذہانت اور اس کی حاضر دماغی کی دلیل تھی۔یہ مذاکرات بعض اوقات دس دس گھنٹوں تک چلتے رہتے تھے۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے اس نے کبھی کوئی کمزور معاہدہ یا اعلامیہ جاری نہیں کیا۔ ہنری کسنجر کو اس چیز کا احساس ہو گیا کہ اسرائیل کیلئے اصلی رکاوٹ اسد ہے اور اسد کو ہٹانے کے سوا امریکا کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔

امریکا ویتنام کی جنگ میں براہ راست مداخلت سے سبق سیکھ چکا تھا۔ اب اس نے اپنی جنگ فرقہ پرست تنظیموں کے کندھوں پر رکھنے کا گر سیکھ لیا تھا۔اس فارمولے کا کامیاب تجربہ افغانستان میں جاری تھا جہاں فرقہ پرست تنظیموں کے ہزاروں مسلح افراد پرائی جنگ لڑ رہے تھے۔ شام کی سنی فرقہ پرست تنظیم ”اخوان المسلمون“ میں شروع سے ہی فرقہ وارانہ رنگ غالب رہا ہے۔ حافظ الاسد کا تعلق علوی فرقے سے تھا اور اس بات نے اخوان المسلمون کے تنگ نظر کارکنان کو غیض و غضب سے بھر رکھا تھا۔ جس وقت مذاکرات کی میز پر حافظ الاسد عربوں کے مفادات کی جنگ لڑ رہا تھا، شامی اخوان المسلمون نے شام میں علویوں کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں سینکڑوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ حافظ الاسد کی طرف دو گرنیڈ پھینکے گئے جن میں سے ایک کو اس نے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے دور کیا اور دوسرے پر ایک شامی فوجی نے لیٹ کرامت کے اس عظیم سیاسی سرمائے کو بچا لیا۔یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ 1982 میں حماہ شہر پر سوات کے طالبان کی طرح قبضہ کر کے طالبانی قانون نافذ کر دیا گیا۔ سرکاری اداروں کے بے گناہ اہلکاروں کو ذبح کر دیا گیا۔ یہ عالم اسلام کی جدید تاریخ میں دہشتگردوں کی پہلی بڑی فتح تھی۔ حافظ الاسد نے اس شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ ایک مہینے کی لڑائی کے بعد اخوان المسلمون کو شکست ہو گئی۔

شام ایک ایسا ملک ہے جہاں متعدد اقوام اور مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ایسے میں ایک فرقہ پرست جماعت کا اسلحہ اٹھا کر کسی شہر پر قبضہ کرنا بیوقوفی ہے۔ لیکن ان فرقہ پرست تنظیموں کا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان عوام اپنی سیاسی قیادت ان کے ہاتھوں میں دینے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ ان کے زیر اثر رہنے کو پسند نہیں کرتے۔ اگر عوام کسی حکومت کو بدلنا چاہیں تو اس کا آسان راستہ سول نافرمانی اور لاکھوں کی تعداد میں اہم شہروں کی سڑکوں پر نکل کر حکومت کو مفلوج کرنا ہوتا ہے۔ کوئی حکومت شہریوں کی شمولیت کے بغیر نہ ٹیکس اکٹھا کر سکتی ہے، نہ فوج، پولیس، انتظامیہ، مواصلات، صحت اور تعلیم جیسے اہم محکمے چلا سکتی ہے۔اگر اخوان المسلمون کو سیاسی تحریک کی کامیابی کی ذرا سی بھی امید ہوتی تو وہ کبھی اسلحہ نہ اٹھاتی۔ اکثر مذہبی تنظیمیں بہت زیادہ تنگ نظر ثابت ہوتی ہیں اور یہی صورت حال اخوان المسلمون کو درپیش رہی ہے جو اپنی تنظیم کے کارکنان کو بڑی بڑی شخصیات پر ترجیح دیتی ہے۔حال ہی میں خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے پر معلوم ہوا ہے کہ امریکا نے 1983میں صدام حسین کو شام پر حملے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب شام میں اخوان المسلمون کی شورش بڑھ چکی تھی۔ لیکن صدام اس وقت ایران عراق جنگ میں پھنسا ہوا تھا اور شام کی فوج عراق کی فوج سے کہیں زیادہ تربیت یافتہ اور مضبوط تھی۔
اس دوران لبنان میں اسرائیلی دخل اندازیاں بہت بڑھ چکی تھیں اور وہاں مسلم مسیحی فسادات عروج پر پہنچا دئیے گئے تھے۔عرب لیگ نے شام سے لبنان کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کیلئے فوج بھیجنے کی اپیل کی جس کا حافظ الاسد نے مثبت جواب دیا اور کافی حد تک فسادات کو کنٹرول کیا۔ مصر سے جان چھڑا لینے اور شام میں اخوان المسلمون کی مدد سے شورش برپا کرنے کے بعد اسرائیل نے لبنان کی سرسبز زمین کو اپنے زیر تصرف لانے کیلئے حملہ کر دیا۔ یہ 1982 کا سال تھا۔ لبنان میں اسرائیل نے مسیحی تنظیموں کو استعمال کرتے ہوئے صابرہ اور شتیلا کے علاقوں میں فلسطینیوں کا قتل عام کرایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسرائیل نے لبنان کے جس جنوبی علاقے پر قبضہ کیا تھا وہ شیعہ اکثریت کا علاقہ تھا۔ اسرائیل کے شمال میں واقع یہ چھوٹا مگر سرسبز علاقہ اپنے دریاؤں اور زراعت کی وجہ سے اسرائیل کی غذائی ضروریات اور زرعی صنعت کیلئے موزوں تھا۔ شامی فوج نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو مزید پیش قدمی سے روک لیا ۔ دوسری طرف حافظ الاسد نے شیعہ رہنماؤں کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے عوام کو ہجرت سے روکیں کیونکہ اگر انہوں نے فلسطینیوں کی طرح ایک مرتبہ ہجرت کر لی تو اسرائیل اس علاقے میں ان کو واپس نہیں آنے دے گا۔ حافظ الاسد نے ایران سے رابطہ کر کے حزب الله کی بنیاد رکھی اور اس کو تمام تربیت اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کی۔ اس تنظیم نے اٹھارہ سال آزادی کی جنگ لڑ کر سن 2000 میں اسرائیل کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ایران میں انقلاب کے بعد شام تنہا نہیں رہا تھا بلکہ اسے ایران کی شکل میں ایک مضبوط اتحادی میسر آ گیا تھا۔ نوے کی دہائی میں یاسر عرفات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد حافظ الاسد نے فلسطینی مزاحمت کی تنظیم حماس کی بھی بنیاد رکھی۔ حزب الله اور حماس کی قیادت نے ہمیشہ اس سلسلے میں شام کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اسرائیلی قبضے سے جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ سے اسرائیلی بستیوں کا ختم ہونا صرف شام کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اب بھی اگر اسرائیلی حملوں کے سامنے حماس مزاحمت کرتی ہے تو اس کا سبب شام کی بے دریغ مدد ہے۔کوئی بھی مزاحمتی گروہ کسی ملک کی پشت پناہی کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply