فکرِ اقبال۔۔۔۔محمد عبداللہ اکبر

شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اُن کی شخصیت، شاعری علم و حکمت ان کی فکر اور نظریات کے معترف صرف مشرق کے لوگ ہی نہیں بلکہ مغرب والے بھی ان کے فلسفہ زندگی سے متاثر ہیں۔ بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک ان کی زندگی ایک مومن اور کامل مسلمان کی زندگی ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو پیغام دیتے ہیں اسلاف کی طریقوں پہ چلنے کا درس دیتے رہے اور انہوں نے ایسے جینے کے طریقے ہمارے سامنے رکھے کہ ہم نہ صرف اس دنیا میں شان سے جیئیں بلکہ روز آخرت میں اپنے رب کے سامنے سرخروئی حاصل کریں۔
علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خوبی اور امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کا کلام ایک مستقل ، متعین مربوط نظام ِفکر اور نظریے کے تابع ہے جس کی پشت پر اسلام کا فراہم کردہ ایک مضبوط نظام حیات ہے۔ اس کے باوجود وہ تمام شعری محاسن جو کسی بھی شہرہ آفاق شاعر کے کلام میں متوقع ہوسکتے ہوں ، ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ان کی عظمت ، ان کے جذبات کی شدت وصداقت، ان کے کلام کی مقصدیت، ان کے شعر کی مستی وکیف، آہنگ اورموسیقیت میں مضمر ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ بچپن سے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھا کرتے تھے اور ان کی پرورش ایک مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہیں خاص حُب تھا۔ ہم ان کو اور ان کی شاعری کو بھی اسی حُب میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مسلمان کو خاص مقام دیا ہے اور ایک ایسے نقطہ نظر پہ لانا چاھا جو محمد ﷺ اپنی امت کے لیے واضح کر گئے علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سوچ اور فکر تھی کہ اگر مسلمان ان کے بتائے ہوئے نقاط اور طریقوں پر عمل کر لے تو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے ان کی اس سوچ اور فکر کا اندازہ آپ ان کے اس شعر سے لگائیں کہ
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
دیکھیں کہ ان کے اس قطعہ سے ہی ظاہر ہے اور جو سمجھ آ رہی ہے کہ ان کا انداز بیاں اور ان کا انداز اسلوب کسی عام شاعر کی طرح رنگ و بو عشق و معشوقی یا کسی رنگین داستاں سے مزین نہیں کہ جس کی طرف نوجوان لوگ زیادہ متوجہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ امید کرتے ہیں کہ شاید کہ آج کہ نوجوان کے دل میں میری بات اتر جاۓ۔ شاید کا لفظ انسان تب استعمال کرتا ہے جب وہ بے یقینی کی کیفیت میں ہوتا ہے وہ آنے والی نسل کے بارے میں کس حد تک حساس تھے ان کے اس قطعہ سے اندازہ کریں ان کی شاعری کا انداز بیاں اور ان کا اسلوب اوروں سے بہت ہٹ کر ہے۔ رنگین، بناوٹی اور جھوٹی چمک دمک سے مبرا ہے ایک حقیقت ایک خلوص ایک جذبہ ایک سوچ فکر اور نظریے سے مزین اور بھرا ہوا شاعری کا مجموعہ ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری سی ایک مرد مومن کی زندگی کے لیے جو فلسفہ و فکر واضح کیا کہ جب بھی اس کو کوئی صاحب علم و دانش پڑھتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسے دین کا ترجمان شاعر کی صورت میں مل گیا ہو اتنی گہرائی، مقصدیت حیات و ممات اور کائنات کے اسرار ان کی شاعری میں پائے جاتے ہیں شاید ہی کسی شاعر نے بیان کئے ہوں۔ ان کی شاعری ہر عمر کے لوگوں کے لیے سیکھنے کا پہلو رکھتی ہے خواہ بوڑھا ہو جوان ہو یا بچہ۔
آج ہم اپنی زندگیوں کہ معاملات پر نظر دوڑائیں اور غور کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کے شب و روز میں اتنا گم ہو گئے ہیں کہ ہمیں اس دنیا کا خالق جس نے ہمیں اس دنیا میں فقط اس لیے پیدا کیا کہ ہم اس کی عبادت کریں ہمیں اشرف المخلوقات بنایا تا کہ ہم اس کا شکر ادا کریں ہمیں نبیوں میں سے سب سے اونچی شان والے نبی ﷺ کا امتی بنایا ہمیں وہ رب یاد ہی نہیں نہ اس کے احکام نہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ زندگی کہ جنہوں نے ہماری خاطر جنگوں میں اپنے جسم پر زخم جھیلے اور پورے پورے جتھوں کے زخم وہ اکیلا ہی سہہ گیا اور دعائیں کرتا رہا کہ یااللہ میری امت میری امت کیا یہ ہماری بدنصیبی نہیں ہے کہ ہم اللہ، خالق کی یاد سے غافل ہو گئے اور اس نبی کی تعلیمات سے غافل ہو گئے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے فلسفہ خودی سے ہمیں خود شناسی، خدا شناسی کا درس دیتے ہیں۔ خودی کا نظریہ سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کا بغور مشاہدہ کریں کہ خودی کس چیز کا نام ہے؟
علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں کہ
ہے نور تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں
کہ رب کی ذات تو تیرے اس خاک سے بنے جسم سے ظاہر ہے اس کے نور کا تو معجزہ ہے۔ آج انسان تو اتنا غافل ہے کہ کہ قرآن کو پڑھتا تو ہے ہم اس دین کو پڑھتے تو ہیں فارمیلٹی پوری کرتے ہیں لیکن کیا فائدہ اس علم کا جو علم نیت نا بن سکا اور وہ نیت جو ارادہ نا بن سکی اور وہ ارادہ جو عزم نا بن سکا وہ عزم جو قصد نا بن سکا اور وہ قصد جو عمل نا بن سکا اور وہ نتیجہ جو محاسبہ نا کر سکا اور وہ محاسبہ جو توبہ نا کرا سکا ایسے علم کے بارے میں اللہ قرآن میں کہتے ہیں۔
کمثلٍ حمارٍ یحملُ اسفارا۔
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
ایک اور جگہ اقبال اسی چیز کی ترجمانی کرتا ہوا کہتا ہے کہ
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
اقبال کی خودی کی سوچ اور فکر
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
یہ اشعار پڑھ ایک سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے جو اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ پیدا کرنا چاہ رہے ہے کہ اے حضرت انسان تو سوچ کہ میں کیا ہوں؟ میں کون ہوں؟ میں کائنات میں کس لیے آیا ہوں؟ میرے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اور میں نے کہاں جانا ہے؟
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفاں سے کیا
نا خدا تو بہر بھی تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
دیکھ آ کر چاک گریباں میں کبھی
قیس تو لیلی بھی تو صحرا بھی تو مخمل بھی تو
واۓ ناکامی تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو مینا بھی تو مستی بھی تو ساقی بھی تو حاصل تجلی تو
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو راہرو بھی تو رہبر بھی تو منزل بی تو
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
تو جب خودی سے آشنائی ہوتی ہے تو کائنات کے سارے رنگ ایک وجود کے اندر دکھائی دیتے ہیں اور وہ وجود انسان ہے اور جب انسان اس وجود انسانیت کو پہچان لے تو وہ اس وجود کا اس دنیا میں آنے کا مقصد پہچان لیتا ہے تو وہ پھر وہ راز دان بن جاتا ہے فطرت کے رازوں کا امین بن جاتا ہے پھر وہ خدا کا ترجمان بن جاتا ہے پھر وہ راز کن فکاں بن جاتا ہے۔
اپنے آپ کو دیکھنا کہ انسان تو کہاں کھڑا ہے
وفی انفسکم افلا تبصرون
ذرا من میں جھانک کر کے تو دیکھ جب انسان اپنے اندر جھانکتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے۔
من عرف نفس فقد عرف رب
اور جو اپنے آپ سے آشنا ہی نہیں جس کو خودی کا تعقل ہی نہیں ملا ذات سے آگہی ہی نہیں ملی پھر اسے کسی اور کا پتہ کیسے چلے گا اس آئینے میں پہلے اپنے وجود کو دیکھ۔
یہاں اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں کہ
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں میں عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سِرّ زندگانی ہے
نکل کر حلقہ و شام سحر سے جاوداں ہو جا
مساف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر پر نیاں ہو جا
گزر جا بن کہ سیل تند رو سے
گلستاں راہ میں آۓ تو جوۓ نغمہ خواں ہو جا
تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
تو جب کتاب اللہ سے من میں اجالے ہوتے ہیں اور زندگی کو زندگی کا حقیقی روپ ملتا ہے تو انسان کہاں کھڑا ہوتا ہے جب حب رسول ﷺ سے تربیت ہوتی ہے۔
یہ حُب رسول قرآن کی تربیت ہی تھی کہ اقبال جب یورپ سے پڑھ کہ آۓ تو کسی نے تصور میں سوال کیا اقبال تو نے وہاں روشنیاں روشن خیالیاں نہیں دیکھیں تو نے وہاں آزادی اظہار راۓ کہ نام پہ ہر حد کو عبور کرنا نہیں سیکھا اقبال نے شاید اسی کے جواب میں کہا ہو گا
خیرا نا کر سکا مجھے جلواۓ دانش فرنگ
سرمہ تھا میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
زمستانی ہوا میں گرچہ تیزی تھی شمشیر کی
لندن میں بھی نا مجھ سے چھوٹے آداب سحر خیر
عزیزو! آج ہم اقبال ڈے تو منا رہے ہیں پر ہمیں یہ سوچنا دیکھنا اور سمجھنا ہے کہ فکرِ اقبال کیا تھی اقبال کی فکر اور سوچ کتاب اللہ اور حدیث رسول کی ترجمان تھی۔
آئیے ہم بھی اپنی سوچ و فکر کے زاویے کتاب اللہ اور حدیث رسول ﷺ کے مطابق ترتیب دیں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply