• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دو تاریخی مرض، اندھا اعتماد اور سادہ دلی۔۔۔نذر حافی

دو تاریخی مرض، اندھا اعتماد اور سادہ دلی۔۔۔نذر حافی

جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں، عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جو دماغ علم اور تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھا جاتا ہے۔ نپولین  1798ء میں جب فاتح کی حیثیت سے مصر کے مسلمان مملوکی بادشاہوں کو شکست دے کر مصر میں داخل ہوا تو اس وقت اسلام  اور مشرقی ممالک کے بارے میں جاننے والے غیر مسلم ماہرین کا ایک بڑا گروہ بھی اس کے   ہمراہ تھا، جو قدم قدم پر اس کی  کی رہنمائی  کر رہا تھا۔[1] ان ماہرین نے نپولین کو یہ سمجھایا کہ مصر کے لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ دین کے بارے میں بہت حساس  ہیں۔ لہذا لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم حملہ آور اسلام کی تعلیمات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو دینِ بشریت اور دینِ ہمدردی و اخوت سمجھتے ہیں، نیز بانی اسلام کی تعلیمات کو عالم بشریت کی سعادت و خوشبختی کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ نپولین مصر میں جہاں بھی تقریر کرتا تھا، انہی نکات کو دہراتا تھا، اس نے مصر میں پہلی انجمن شرق شناسی مصر کی بنیاد رکھی اور اہل مصر کو بہت کم فوج کے ساتھ قابو کرنے کے لئے نمازیں پڑھانے والے اماموں، قاضیوں، مفتیوں اور مقامی علمائے کرام کے لئے وظائف مقرر قائم کئے، بعض نے حکومت سے وظائف لینے سے انکار کیا تو انہیں یہ کہا گیا کہ آپ لوگ یہ رقم اپنے لئے استعمال نہ کریں بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے صرف کریں۔

اس نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ جامعۃ الازہر کے ساٹھ استادوں کو فوجی چھاونی میں عربی سکھانے اور اسلامی معارف بیان کرنے کے لئے مامور کیا، تاکہ مستشرقین دینِ اسلام کے عربی متون پر اچھی طرح عبور حاصل کر پائیں۔ نپولین کی یہ حکمت عملی اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ بہت جلد مسلمانوں نے اپنی اسلامی حکومت کے جانے کے غم کو فراموش کر دیا اور پورا مصر نپولین کے گُن گانے لگا۔ یہاں تک کہ آج بھی بعض سادہ دل مسلمان، نپولین کو عاشقِ رسولﷺاور عاشق امام حسینؑ گردانتے ہیں۔ جب نپولین نے مصر کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے نائب کلبرKleber کو یہ تاکید کی کہ مستشرقین کے مشورے سے مصر کی مدیریت کی جائے۔ چونکہ اس کے علاوہ ہر طریقہ خرچے کا باعث اور احمقانہ تھا۔[2]

یہ طریقہ کار دنیا بھر کے حکمرانوں کو سمجھ آچکا ہے اور وہ ایسے حربوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں اس کی واضح مثال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے جو بین المذاہب دعائیہ تقریب کیپٹل ہل میں منعقد ہوئی، اس میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی[3] اور اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کی واشنگٹن کے گرجا گھر میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب کے دوران توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کی ویڈیو بھی وائرل کی گئی۔ جب  تلاوت شروع ہوئی تو خاتون اول ملنیا ٹرمپ فائل اٹھانے لگیں۔ اس دوران ٹرمپ انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتے بھی نظر آئے۔[4] اس کے علاوہ مسٹر ٹرمپ کی ریاض کانفرنس کے موقع پر کی گئی یہ تقریر بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے، جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور امن پسند دین ہے۔[5]

اس طریقہ کار کو غیر مسلم حکمرانوں کی طرح مسلم دنیا کے حکمران بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ سعودی حکومت کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں ایک طرف تو بین الاقوامی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے اور دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔ یہی کچھ ہمارے پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ ضیاءالحق نے امریکی تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر اسلام کے نام پر چند مدارس، مولویوں اور مفتیوں کو خرید کر طالبان کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت بنا دیا۔ وہ ایک طرف نظامِ مصطفٰیﷺ کا اعلان کرکے ہمارے مذہبی حلقوں کو خوش کرتا رہا اور دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرتا رہا۔ اسی طرح آج بھی ہمارے ملک میں عوام کے دینی جذبات کو ابھار کر مختلف لوگ اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ آئے روز شرپسند عناصر توہین رسالت اور عشق نبیﷺ کے نام پر لوگوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں، چونکہ چالاک لوگوں کو ہماری اس کمزوری کا علم ہے کہ ہم لوگ مذہبی معاملات میں بہت جذباتی ہیں، چالاک افراد کی تقریروں سے مشتعل ہو کر سادہ دل لوگ ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب کچھ عشقِ نبی ﷺ کے نام پر کیا جاتا ہے اور بعد ازاں دوسری طرف حکومت بھی باغیوں کو کچلنے کے بجائے نمازیں پڑھانے والے اماموں، قاضیوں، پیروں، مفتیوں اور مولویوں کو خرید کر معاملے پر مٹی دال دیتی ہے۔ یوں دین دوستی کے نام پر حکومت کا پہیہ بھی گردش میں رہتا ہے اور باغی بھی مکمل آزاد گھومتے ہیں۔ اب اگر زیرِ عتاب کوئی آتا بھی ہے تو وہ بے چارہ قانون کے شکنجے میں پھنستا ہے، جس نے مولویوں اور پیروں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے آتشِ عشق میں بے خطر چھلانگ لگائی ہوتی ہے۔ جب تک لوگوں کی شعوری سطح بلند نہیں کی جاتی اور ان کی سادہ دلی کے مرض کا درمان نہیں کیا جاتا، تب تک ہمارے ہاں اسلام کے نام پر  طالبان بنتے رہیں گے، خودکش حملے ہوتے رہیں گے اور ملکی و قومی املاک جلتی رہیں گی۔ ہمیں عاشقانِ رسولﷺ کو یہ سمجھانا ہوگا کہ جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں، عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جو دماغ علم اور  تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھا جاتا ہے۔
۔

1] شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان از محمدحسن زمانی
[2] بونا پارٹ و اسلام ،وکریسٹن چرفس ،ص ۲۴۹
بشکریہ اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.org/ur/article/

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply