سلمان منااہل البیت۔۔۔۔حافظ کریم اللہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اکابرصحابہ میں شمارہوتاہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت عابدوزاہداورمتقی وپرہیزگارتھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ”ابوعبداللہ“اورلقب ”سلمان الخیر“ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے آزادکردہ غلام ہیں۔ام المومنین سیدہ عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں ”کہ یہ رات میں بالکل ہی اکیلے صحبت نبوی سے سرفرازہواکرتے تھے“۔حضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم فرمایاکرتے تھے کہ ”سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اوّل بھی سیکھااورعلم آخربھی سیکھااوروہ ہم اہل بیت میں سے ہیں“۔

قبول اسلام
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علاقہ اصفہان کے ایک دیہات کے دیہاتی کسان کے اکلوتے بیٹے تھے۔آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے تھے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصول علم کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔ اسی سلسلے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ اس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا زمانہ قریب ہے۔ یہ نبی دین ابراہیمی کے داعی ہوں گے۔ اور پھر غموریا کے اس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہر دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ پادری اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلاش حق کے لئے غموریا کو خدا حافظ کہا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہر نبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتش شوق اور بھی تیز ہو گئی۔ یہ تاجرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومکہ المکرمہ لے آئے جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کامولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اورانہیں مدینہ منورہ(جواس وقت یثرب تھا) کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی۔۔۔۔ یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا۔غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ لیں، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا اوجِ ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے یہودی مالک کو کسی سے باتیں کرتے ہوئے سنا کہ مکہ المکرمہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہونے کی داعی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ کھجوریں یہ فرما کر واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مہر نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی۔ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ”سلمان“ کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ ”مہر نبوت“ کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرط محبت سے”مہرنبوت“ کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وابستہ ہو گئے۔(حاکم، المستدرک، جلد3،بزار، المسند،جلد6،طبرانی، معجم الکبیر، جلد6،ابن سعد، الطبقات الکبریٰ،جلد4ابونعیم، دلائل النبوۃ، جلد1)

مہرنبوت کی زیارت
حضرت بریدۃ بن الحصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خوان لے کر آئے جس میں تازہ کھجوریں تھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں وہ خوان پیش کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دریافت فرمایا کہ”سلمان‘‘یہ کیسی کھجوریں ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھیوں پر صدقہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھاتے اس لئے میرے پاس سے اٹھا لو۔دوسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ ”سلمان“ کھجوروں کا طباق لائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد پر”سلمان“ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ہدیہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود ہی نوش فرمایا۔ (چنانچہ بیجوری نے اس کی تصریح کی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس طرح پر دونوں دن لانا حقیقت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آقا بنانے کا امتحان تھا اس لئے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرانے زمانے کے علماء میں سے تھے اڑھائی سو برس اور بعض کے قول پر ساڑھے تین سو برس ان کی عمر ہوئی۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی علامات میں جو پہلی کتب میں پڑھ رکھی تھیں یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صدقہ نوش نہیں فرماتے اور ہدیہ قبول فرماتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان ”مہر نبوت“ ہے، پہلی دونوں علامتیں دیکھنے کے بعد پھر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پشت مبارک پر”مہر نبوت“ دیکھی تو مسلمان ہو گئے۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت یہود بنی قریظہ کے غلام بنے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کو خریدا (مجازاً خریدا کے لفظ سے تعبیر کردیا ورنہ حقیقت میں انہوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکاتب بنایا تھا۔ مکاتب بنانا اس کو کہتے ہیں کہ آقا غلام سے معاملہ کر لے کہ اتنی مقدار جو آپس میں طے ہو جائے کما کردے دو، پھر تم آزاد ہو) اور بدل کتابت بہت سے درہم قرار پائے اور نیز یہ کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے لئے (تین سو) کھجور کے درخت لگائیں اور ان درختوں کے پھل لانے تک ان کی خبر گیری کریں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ درخت لگائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معجزہ تھا کہ سب درخت اسی سال پھل لے آئے مگر ایک درخت نہ پھلا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ درخت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ کا لگایا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دست مبارک کا نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو نکالا اور دوبارہ اپنے دست مبارک سے لگایا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ بے موسم لگایا ہوا درخت بھی اسی سال پھل لے آیا۔(شمائل ترمذی،باب مہرنبوت،صفحہ30)

خندق کھودنے کامشورہ
جنگ خندق میں مدینہ منورہ شہرکے گردخندق کھودنے کامشورہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی دیاتھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزادہونے کے بعدسب سے پہلامعرکہ”غزوہ خندق“پیش آیا۔جس میں کفار ومشرکین نے پورے عرب کو ملا کر ایک بہت بڑی جمعیت کے ساتھ اس ارادے سے مدینہ شریف پر حملہ کرنے آئے تھے کہ دنیا سے مسلمانوں کا بالکل ہی صفایا کر دیا جائے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے مشورہ کے لئے صحابہ کرام کو بلایا،اور حالات بیان فر مائے۔حملہ چونکہ خود مدینہ منورہ پر تھا جس کی طرف کوئی قلعہ تھا نہ کوئی فصیل جو ان لوگوں کو مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے روکتا۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایرانیوں کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے اور مختلف حالات میں جنگ کے طریقہ کار سے واقف تھے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!اتنے بڑے لشکر کا کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہے۔اس لئے ہمیں مدینہ منورہ کے چاروں طرف خندقیں کھود کر شہر کو محفوظ کر دینا چاہئے۔یہ مشور ہ حضور اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بڑا پسند آیااور اسی پر عمل کیا گیا۔خندق کی کھدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنفس نفیس شریک تھے۔کفار مکہ کا لشکر مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے خیالی پلاؤپکاتے ہوئے بڑے جوش وخروش میں آئے مگر مدینہ شریف کے ارد گرد بڑی بڑی خندقیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔کفارومشرکین کے سارے ارادے ادھورے خواب بن کررہ گئے۔اکیس بائیس دن رُکے رہے مگر مدینہ شریف تک پہنچنا نصیب نہ ہوا اور بالآخر ناکام لوٹنا پڑا۔اس کے علاوہ آپ تمام غزوات میں شریک رہے اور اسلام کی تحفظ کی خاطر اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد فر مایا۔
فانوس بن کرجس کی حفاظت ہواکرے وہ شمع کیابجھے جسے روشن خداکرے

فضائل ومناقب
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب سے متعلق قرآنی آیات اورمتعدد روایتیں کتب احادیث میں موجود ہیں،ان میں سے کچھ بطور اختصار یہاں پر قارئین کی نذرکی جاتی ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پر”سورہ الجمعہ“ نازل ہوئی اس وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضرتھے۔جب آپ نے یہ آیت ”وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّایَلْحَقُوْابِھِمْ“تلاوت فرمائی توایک شخص نے عرض کی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جواگلوں کے ساتھ ابھی نہیں ملے وہ کون لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی جواب نہ دیاحتی کہ اس نے دویاتین بارعرض کی،اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرہاتھ رکھ کرفرمایا”اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔اگردین ثُرَیَّا (ستارے)کے پاس بھی ہوتوفرزاندان فارس وہاں جائیں گے اوردین کوحاصل کرلیں گے“۔(مسلم شریف،کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل فارس)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت طاقتورانسان تھے۔انصارومہاجرین دونوں ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کرتے تھے۔چنانچہ انصاریوں نے کہناشروع کردیاکہ”سلمان منا“یعنی سلمان ہم میں سے ہے اور مہاجرین نے بھی یہی کیاکہ ”سلمان منا“یعنی سلمان ہم میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پرسرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کابہت بڑاکرم عظیم تھا۔سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب انصارومہاجرین کانعرہ سناتوارشادفرمایا”سلمان منااہل البیت“یعنی سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔یہ فرماکران کواپنے اہل بیت میں شامل فرمالیا۔عقدمواخات (بھائی چارہ)میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کوحضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابھائی بنادیاتھا۔(ترمذی،جلددوم،مستدرک،امام حاکم،ج3،ص691)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فر مایا”دین حق کے بارے میں سبقت لے جانے والے اور دوسروں سے آگے بڑ ھ جانے والے چار لوگ ہیں۔میں عرب والوں سے سبقت لے جانے والا ہوں،صہیب روم والوں سے،سلمان فارس والوں سے اور بلال حبشہ والوں سے۔(المستد رک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،ذکر بلال بن رباح،موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:ر زادِراہ کافی ہے۔“اوریہی وہ بات ہے جس نے مجھے پریشان کیاہے۔“جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامال جمع کیاگیاتواس کی قیمت صرف15/20درہم کے برابرتھی۔(ابن ماجہ،جلد3،زہدکابیان،الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ الزہد)

Advertisements
julia rana solicitors

وصال مبارک
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کاوقت قریب آیاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایاکہ تم نے جوتھوڑاسامشک رکھاہے۔اس کوپانی میں گھول کرمیرے سرمیں لگادو۔کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جونہ انسان ہیں اورنہ جن۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں کہ میں نے مشک کوپانی میں گھول کرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرمیں لگادیااورمیں جیسے ہی مکان سے باہرنکلی۔گھرکے اندرسے آوازآئی ”السلام علیک یاولی اللہ، السلام علیک یاصاحب رسول اللہ“میں یہ آوازسن کرمکان کے اندرگئی توحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح مطہرہ پروازکرچکی تھی وہ اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ گویاگہری نیندسوررہے ہیں۔ابونعیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمربہت زیادہ ہوئی۔بعض کاقول ہے تین سوپچاس برس کی عمرہوئی۔اوردوسوپچاس برس کی عمرپرتمام مورخین کااتفاق ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات35ھجری میں ہوئی۔جبکہ بعض مورخین کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کاسال 10رجب المرجب سن33ھجری یاسن34ھجری ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامزارمبارک مدائن میں زیارت گاہ خلائق ہے۔(،ترمذی مناقب سلمان فارسی واکمال،اسدالغابہ ج2،ص328،شواہدالنبوۃ،ص221) اللہ تعالیٰ کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply