ایران امریکہ تنازعہ, جنگ عظیم سوئم کی ڈرل۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد

میری عادت ہے کہ میں تصویر کے دونوں رخ اور دونوں پہلوؤں پر غور و فکر کرتا ہوں اور جب کسی دلچسپ نتیجے پر پہنچتا ہوں تو وہ لوگوں میں بیان کرنے سے نہیں چوکتا۔خیر دو دن سے میں نے ایران امریکہ تنازعہ اور مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال پر بہت مفصل لکھا لیکن یہ بات بتادوں کہ وہ لکھا ہوا صرف ایک رخ اور ایک پہلو سے مفصل تھا۔آج میں ایران امریکہ تنازع اور مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال پر پھر روشنی ڈالوں گا, پر آج میرے قلم سے دوسرے رخ اور دوسرے پہلو کی تفصیلات صفحہ قرطاس پر آئیں گی۔

بات یہ ہے کہ عالمی جنگوں, سازشوں اور فتوحات و تباہیوں کی یہ آخری اور فیصلہ کن صدی ہے جس میں فرسٹ, سیکنڈ اور تھرڈ پارٹیز کھل کر میدان میں آئیں گی۔لیکن ان سب کی ایک ہی کوشش ہوگی کہ میدان یہ اپنی مرضی کا سجائیں اور فیصلہ کن ضرب سے پہلے اپنے دشمن کو اتنا کمزور اور لاغر کردیں کہ وہ ایک ہی ضرب میں ڈھیر ہوجائے یا واپس پلٹ کر جواب دینے کی اس میں سکت نہ رہے۔

خیر موجودہ عالمی صورتحال میں دراصل جس چال کو شد و مد سے چلا جارہا ہے وہ کہلاتی ہے “دکھانا دائیاں اور لگانا بائیاں”۔

یہی چال مختلف اوقات میں برطانیہ, امریکہ, اسرائیل اور بھارت دراصل چین, ایران, سعودیہ اور پاکستان کے ساتھ چل چل کر ابتک محفوظ ہی نہیں بلکہ طاقتور ہوگئے ہیں۔برصغیر ہند اور مشرق وسطی میں خونی و خطرناک کھیل کا آغاز تو تبھی ہوگیا تھا جب برطانوی سامراج کا سورج غروب نہیں بلکہ غرق ہونے کی کگار پر تھا۔مطلب برطانوی کولونیل ازم نظریہ بری طرح فلاپ ہوگیا تھا اور آزادی آزادی کی لہر ہر جگہ چل رہی تھی, تب سپر پاورز اور نیو ورلڈ آرڈر متحرک ہونا شروع ہوئے اور ایک ایسی لانگ ٹرم پلاننگ کی جو ان کے سبھی مذموم مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوئی۔برصغیر پاک و ہند اور مشرق وسطی پوری دنیا کے ذرخیز اور معدنی وسائل سے مالا مال خطے ہیں جن پر 1911ء کے بعد اس وقت کی کولونیل پاورز اور سپر پاورز کا کنٹرول جاتا ہوا نظر آرہا تھا تو انہوں نے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح کے مصداق کچھ کٹھن فیصلے کیئے اپنی اقوام کی خاطر۔پر ان فیصلوں سے پہلے 1975ء تک نظام اور نظامت کا ایسا پیچیدہ اور خطرناک جال بُنا کہ جس میں ایک ایک کرکے تمام اسلامی ممالک بلخصوص برصغیر اور مشرق وسطی کے نوزائیدہ اسلامی و نظریاتی ملک پھنستے چلے گئے کہ آج وہ دن ہے جب ہر ملک کسی نہ کسی اندرونی و بیرونی پریشانی اور خطرے کا بری طرح شکار ہے۔

گزشہ گزرے سو سال مطلب 1900ء-2000ء تک کا مشاہدہ کریں تو کسی بھی عقل و شعور والے کو سارا کھیل سمجھ آجائے گا کہ دنیا پر کیا چل رہا ہے اور کیوں چل رہا ہے؟

جنگ عظیم اول کا مقصد,

جنگ عظیم دوم کا مقصد,

دی لیگ آف نیشنز کے قیام اور خاتمے کا مقصد,

اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد,

سلامتی کونسل کا مقصد,

نیٹو افواج کا مقصد,

یورپی یونین کا مقصد,

اوپیک کا قیام و مقصد,

سپرپاورز وارز کا مقصد,

فورتھ و ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار فیئر کا مقصد,

عرب سپرنگ کا مقصد,

گلوبل ویلیج تھیوری اور ون ورلڈ آرڈر کا مقصد,

ایجنڈا 21 کا مقصد,

فری میسن و الیومیناٹی فوبیا کا مقصد,

این جی اوز و سی بی اوز کا مقصد,

نیشن تھیوری کا مقصد,

اور اب

ورلڈ اکانومک زون کی تشکیل اور قبضے کا مقصد,

سب ایک بہت بڑے مقصد کا بنیادی انفراسٹرکچر ہے دراصل جس کو دنیا کے ہر الہامی مذہب میں جانا تو جاتا ہے پر وائے افسوس کہ اکثریت میں مانا نہیں جاتا۔پر ہم بطور مسلمان جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ سب ایک بڑی جنگ یعنی “ہرمجدون” (متوقع و مبینہ جنگ عظیم سوئم), “گریٹر اسرائیل”, “تھرڈ ٹیمپل” اور “دجال کی آمد” کے لیئے ہوا اور ہورہا ہے۔جس کے لیئے مقتدر دجالی قوتیں کبھی معصوم بن کر اور کبھی طاقتور بن کر اپنی چالیں چلیں گی تاکہ مقررہ وقت تک یہ کامیاب ہوجائیں اور دنیا پر دجل و فریب کےسائے اتنے گہرے ہوجائیں کہ ایمان کی روشنی کسی صورت جھلک نہ سکے۔

یہاں تک بات کرنے اور اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہی تھا کہ عام قاری جو انٹرنیشنل افیئرز اور کرنٹ افیئرز کو بس ایک عام سی خبر سمجھتا ہے یا کچھ جانتا ہی نہیں ذرا اس کے دماغ کے بند دریچے بھی کھلیں اور اس کو بھی معلوم پڑے کہ کیا چلتا رہا ماضی میں اور اب کس جانب حالات رواں دواں ہیں۔اب بات کرتے ہیں مشرق وسطی اور برصغیر کی موجودہ صورتحال کی جو خیر ایک دم وجود میں نہیں آئی جیسا کہ اوپر مذکورہ حوالوں میں بتا چکا لیکن وہ ماضی بعید سے جڑے حوالے ہیں جن سے اکثریت کی شناسائی ہے پر خطے کی موجودہ صورتحال میں تبدیلی کی لہر مرحلہ وار چلی۔

مختصر نکات سے سمجھانےکی کوشش کرتا ہوں۔

پاکستان میں موجود فرسودہ کولونیل ازم نظریہ کی باقیات نظام میں تبدیلی لانے والوں کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اور ریفارمز سے قوم کو نابلد رکھنے کے لیئے فیوڈل ازم کا جدید جمہوری ڈھانچہ متعارف کروایا گیا سیاست اور پارٹی سسٹم کے ذریعے۔

پاکستان پر جمہوری و فوجی حکومتوں کی چھینا جھپٹی کو سپانسر اور پرموٹ کیا جاتا رہا۔

متحدہ اسلامی کونسل کے قیام کو بھانپ کر پاکستان اور مشرق وسطی میں قیادت اور سیاست کا بحران پیدا کیا گیا سیاسی و عدالتی قتل کرواکر۔

پاکستان کو ایک ان چاہی جنگ کا حصہ بننا پڑا بلکہ بنایا گیا تاکہ اسکی معیشت کو استحکام اور دوام حاصل نہ ہو۔

جنگ میں پاکستان کے تلوں میں موجود تیل دیکھ کر اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی جس کا رخ واپس موڑنے کی خاطر پاکستان کی 75000 سے زائد قیمتی جانیں داؤ پر لگیں اور 110 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا۔

فغانستان میں کوئی مستقل اور قابل عمل حکومت تشکیل نہ ہونے دی گئی جو اس کو میدان جنگ کے بجائے ملک بنانے پر غور کرتی۔

ایران پر پہلے مذہبی انقلاب برپا کروایا گیا پھر اس کو دنیا سے کاٹنے کا بندوبست کیا گیا تجارتی پابندیوں کے ذریعے۔

چین کی اقتصادی اور معاشی جنگ کا راستہ پاکستان کو بنتا دیکھ کر پالیسی بدلی گئی اور کچھ لو اور کچھ دو والا فیز لانےکی کوشش کی گئی۔

پاکستان چین اور سعودیہ ٹرائیکیا بنتا دیکھ کر امریکہ و اسرائیل کو اپنے لالے پڑے اور ایران و بھارت کو اپنے, لہذا بھارت نے ایران کو اور ایران نے بھارت کو خطے میں اپنی بقاء و بالا دستی کی خاطر استعمال کرنے کی ٹھانی اور امریکہ و اسرائیل نے ان دونوں کے کندھے پر اپنی بندوق رکھ کر چلانے کی ٹھانی, نتیجہ یہ نکلا کہ جب کام نہیں بنا تو امریکہ و اسرائیل کی ڈکٹیٹیشن پر بھارت ایران سے غیر محسوس انداز میں کنارہ کش ہوا, اور امریکہ نے اب ایران کو ہی چارہ بنا کر مشرق وسطی میں شکار کی خاطر شکار گاہ تشکیل دے لی۔

اب خطے میں امریکہ کا شکار اولین طور پر پاکستان اور اس کا سی پیک و گوادر کی بندرگاہ منصوبہ ہے جس کے بوتے پر چائنہ ون بیلٹ منصوبے کو تکمیل دیکر اپنی اقتصادی سپر پاور ہونے کا اعلان کرے گا لہذا اس سے بہترین وقت اور کونسا ہوسکتا ہے امریکی حملے کا جب ملکی و غیر ملکی سطح پر پاکستان بہت دباؤ اور پریشانیوں کا شکار ہے۔

یہاں مطلب پاکستان میں عرب سپرنگ طرز کے حالات بنا کر خاموشی سے حملہ ہی دراصل وہ گھنونی چال ہے جس کا اندازہ پاکستانی عوام کو نہیں۔

*سو ارب ڈالر کا قرضہ,

*کرنسی کی گراوٹ,

*ذرمبادلہ کے ذخائر میں شدید گراوٹ,

*کرنسی, گولڈ, کاٹن, ٹرانسپورٹ, آئل, فارما سیوٹیکل, فرٹیلائزر, پیسٹی سائیڈز, گروسری, میڈیا اور ایجوکیشن مافیا کا آؤٹ آف کنٹرول ہونا اور ذخیرہ اندوزی,

*لسانی و مسلکی تحاریک کا شور مچنا,

*مسلکی دہشتگردی کو ہوا دینا,

*وفاق اور صوبوں کی جمہوری چپقلش اور ایک پیج پر نہ ہونا,

*کرپشن کا جن بے قابو ہونا,

*مہنگائی اور بیروزگاری کا دور دورا ہونا,

*آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی صورت ڈکٹیٹرز کا مسلط ہونا,

*فی کس شرح آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ,

*تعلیم و صحت کے مسائل بڑھ جانا,

*دھرنوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ بڑھ جانا اور یونین بازی کی لہر,

*افواج پر عدم اعتماد کی فضاء تشکیل دینا ان کی تضحیک اور تذلیل کرکے,

*انسانی حقوق کی کمیابی اور دگرگوں صورتحال اور اس کو کیش کروانے والی این جی اوز,

*سول سوسائٹی کے نام پر باغی عناصر کا عوام میں اشتعال اور غم و غصہ بڑھانا,

*آؤٹ آف کنٹرول حکومت بلکہ ریاست مخالف میڈیا,

*حزب اختلاف کا غیر ضروری معاملات پر شور اور احتساب میں رکاوٹ بننا,

*ہمسائیہ ممالک کا یکطرفہ سفارتی تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی پراکسیز کو بروئے کار لانا,

اور

*اس تمام صورتحال میں عوام کا منتشر اور متتفر ہونا۔

یہ سب وہ عوامل ہیں جو ایک ریاست کو زوال پذیر کرنے میں اپنا بھرپور کردار کرتے ہیں اور بیشک مراکش, مصر, یمن, شام اور لیبا اس بات کو سمجھنے کے لیئے بہترین مثالیں ہیں۔

ایسی کمزوریوں سے پُر ریاست پر امریکہ حملہ کرکے اپنی عوام کے مفادات کی حفاظت نہ کرے, اسرائیل کی مدد نہ کرے اور چین کو لگام نہ دے تو پھر وہ کاہے کی سپر پاور؟

میرا خیال ہے کہ اب قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکہ خطے میں بحری بیڑے, B52 طیارے اور ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو کیوں اور کس کے لیئے لیکر آیا ہے اور کس لیئے بزدل عرب ریاستیں امریکہ کو اپنی بحری حدود اور اڈے دینے پر راضی ہوگئیں ہیں اور کیوں اسرائیل بار بار امریکہ کو اکسا رہا کہ وہ سعودیہ ایران جنگ شروع کروائے جبکہ سعودیہ امریکہ کو اکسا رہا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرے جبکہ دراصل امریکہ ادھر ان سب کے بجائے پاکستان کے لیئے آیا ہے؟

پاکستان نے سرکاری سطح پر کہہ دیا ہے کہ ممکنہ جنگ میں پاکستان ایران کا حلیف نہیں بنے گا بلکہ سعودیہ کا حلیف بنے گا۔ ۔ ۔ کیوں؟

کیونکہ چین ایک ہزار ٹن تیل ایران سے خرید رہا ہے باوجود امریکی پابندیوں کے, جس پر جلد امریکہ چین پر بھی تجارتی و اقتصادی پابندیوں کا اعلان کرے گا۔

جبکہ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چائنہ ان پابندیوں کو ہوا میں اڑائے گا ہی بلکہ پاکستان کو بھی آزمائے گا اس صورتحال میں۔

تو دو چیزیں متوقع ہیں, امریکہ کی شدید غیر اخلاقی ناراضی اور سعودیہ کی جزوی اخلاقی ناراضی۔

کہ پاکستان اور چین کو ایران عالمی مارکیٹ سے 30% کم ریٹ پر تیل دے رہا ہے جس پر سعودیہ تحفظات کا پہلے ہی شکار ہے تو ایسی صورت میں اس کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کم ہوگا۔

اور یہ بات پاکستان کو معلوم ہے لہذا بروقت اقدام اور پھر فطری لگاؤ کی وجہ سے پیشگی اعلان کردیا تاکہ بوقت ضرورت سند رہے۔

اس سے تعلقات اگر بہتر نہ بھی ہوئے وقتی صورتحال میں, تو ختم بھی نہیں ہونگے اور ناراضی لانگ ٹرم نہیں ہوگی۔

پر اصل مدعا وہیں برقرار ہے کہ امریکہ اپنی ناراضی کا اظہار نہ تو سفارتی اداب کو ملحوظ رکھ کر کرے گا نہ ہی منہ زبانی باتوں سے ٹلے گا, جبکہ اس کی تمام اندرون بیرون پراکسیز اور وار ٹولز نے پاکستان کی موجودہ کمزور حکومت کو جکڑا ہوگا اور عوام کی اکثریت معاشی بدحالی کا شکار ہوکر سڑکوں پر ہوگی۔

تو ایسے میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ امریکہ کی بہت بڑی وار ڈرل ہے جنگ عظیم سوئم سے قبل جس کا نقشہ بلکل تیار ہے پر دنیا اس وقت تیار نہیں بشمول اسرائیل۔

وہ کیسے؟

آئیے جنگی نقشہ سمجھ لیجیئے موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھ کر تاکہ ہماری بات نتیجہ خیز اختتام پذیر ہو۔

امریکہ خلیج میں فوجی ڈیپلائمنٹس کرکے سیٹل ہوچکا اور سفارتی سطح پر تمام اینٹی ایران عرب ممالک کو اعتماد میں لے چکا۔

دوسری جانب بھارت اپنی افواج اور جدید ہتھیار پاکستانی بارڈرز, بلخصوص سیالکوٹ سیکٹر سے لیکر تمام ایل او سی پر لے آیا ہے۔

امریکہ نے بغداد میں موجود اپنے سفارتی عملے کو فوراً عراق چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

ایرانی فورسز سٹینڈ بائے پر ہیں ہی, پر ساتھ ہی ایران نے اپنی پراکسیز دوست ممالک میں ایکٹو کردی ہیں, اس کے علاوعہ ایران جدید میزائلوں سے لیس سسٹم عراق اور یمن میں دے چکا ہے کسی بڑے حملے کی صورت جوابی کاروائی کے لیئے جو کہ قرین قیاس اسرائیل پر حملے کی صورت ہی ہوگا۔

امریکہ قطر میں بھی اپنی فوجی طاقت کو اتار چکا ہے۔

بھارت پہلے سے افغانستان میں پاکستان سے متصل بارڈر پر موجود ہے بھارتی کونسل خانوں کی آڑ میں لیکن دستیاب معلومات میں وہاں کافی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے, اس لحاظ سے پاکستان کو بہت سے تھریٹس ہیں قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان اور گوادر میں سی پیک روٹ پر خاص طور پر۔

اگر امریکہ غلطی سے بھی ایران پر حملہ کرکے جنگ کا طبل بجائے گا تو روس اور چائنہ ایران کی پشت پر پائے جائیں گے۔ (یہاں پاکستان اور سعودیہ کا بہت بڑا امتحان متوقع ہے)۔

جبکہ اسی جنگی صورتحال میں بھارت ایک بار پھر پاکستان کو انگیج کرنے کی کوشش کرے گا خاص کر بی ایل اے اور بی آر اے و براس کے علیحدگی پسندوں کو ساتھ لاکر بلوچستان کے میدان میں, پر وہاں چائنہ جواب دینے کو پاکستان کے ساتھ ہوگا اعلانیہ و غیر اعلانیہ دفاعی معاہدوں کی وجہ سے۔

مطلب یہ کہ;

پاکستان اور چائنہ بھارت کو, روس امریکہ کو اور ایران اسرائیل کو ٹف ٹائم دیں گے۔

اور ہاں یاد رہے کہ امریکی فوج پہلے سے سعودیہ, قطر, کویت, عرب امارات اور عمان میں موجود ہے۔

اس ساری صورتحال میں برطانیہ, یورپی یونین اور نیٹو کا کردار کیا رہے گا؟

تو یہ بات کسی بیوقوف ترین انسان کو بھی پوچھی جائے تو وہ پہلے آپ کو بیوقوف کہہ کر خوب ہنسے گا اور پھر بتائے اور سمجھائے گا کہ یہ سب پہلے سے ہی امریکہ اور اسرائیل کی جیب میں ہیں لہذا ان کا کردار سمجھنا کونسا مشکل ہے؟

البتہ تازہ اپڈیٹس کے مطابق برطانیہ نے اپنے شہریوں کو ایران کا غیر ضروری سفر کرنے سے روک دیا ہے اور مشرق وسطی کے لیئے سیفٹی الرٹس جاری کردیئے ہیں۔

اب مختصراً یہ کہ پاکستان کے کرپٹ اور بکاؤ سیاستدان جلد ہی بہت بڑی کال دے رے لانگ مارچ اور لاک ڈاؤن و دھرنے کی, ڈالر کو اسی طرح پر لگے رہیں گے اور یہ 180 سے 200 پر جاکر مستحکم ہوگا, بیروزگاری اور مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا تو عوام سڑکوں پر کسی سیاسی ایجنڈے کے بغیر بھی نکلے گی, گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے سے جلتی پر تیل والا کام ہوگا, مہنگائی کا جن ایک دیو بن کر نازل ہوگا اور ڈالرز کی منی لانڈرنگ و ذخیرہ اندوزی سے ذر مبادلہ کو اور ذک پہنچائی جائے گی۔

تو اس صورت میں کیا آپشن بچتا ہے؟

آئین کی کتابیں گھر گھر بانٹ کر ان کی اجتماعی تلاوت بہتر رہے گی یا زہر مفت بانٹ کر خودکشی کا آپشن بہتر ہوگا یا خانہ جنگی کی طرف حالات جاتے دیکھ کر خود روپوش ہونا بہتر ہوگا؟

کیونکہ ڈالر کی وجہ سے روپئے میں گراوٹ وہ پہلا اور اہم مرحلہ تھا جب پتہ چلتا کہ ہم ایک قوم ہیں یا ہجوم؟

تو پتہ چلا ہم ہجوم ہیں وہ بھی گروہ در گروہ۔

ڈالر کو گرانے کا واحد حل یہی تھا کہ پاکستانی خواہ ایک ڈالر کے بھی مالک ہوتے اس کو بیچ کر ملک کی معیشت مستحکم کرتے, پر کیا ہوا؟

ڈالر خرید کر چھپا لیئے کہ اور قیمت بڑھنے پر بیچیں گے تو منافع ہوگا وہ بھی رمضان المبارک کے مہینے میں۔

خیر حالات پہلے بھی بد اور بدتر ہوئے پر ہم افواج کی مہربانی اور اللہ کی مرضی و مدد سے سلامت رہے, تو اس بار بھی بدترین ہوتے حالات میں بھی ہم بچ نکلیں گے پر شرط اس بار صرف افواج کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور اللہ پر توکل تک محدود نہیں بلکہ ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے اور متحد رہنے کی بھی شامل ہے۔

یہ حالت افواہ سازی اور پراپیگنڈا وار کے لیئے بہترین ہیں۔

اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم افواہوں اور پراپیگنڈوں کا شکار ہوتے ہیں یا اپنے اندرون و بیرون اور دیدہ و نادیدہ دشمنوں کو ان کا شکار کرتے ہیں۔

عالمی منظر نامہ بظاہر جنگی اور کشیدہ ہے پر ہم بروقت اور بہترین فیصلے کرکے اور متحد و متفق رہ کر صورتحال کو اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔

جنگ عظیم سوئم نہیں ہوگی فی حال لیکن آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ جنگ عظیم سوئم کی ڈرل ہے, لہذا اس ڈرل میں اپنا آپ دکھا اور منوا لیجیے تاکہ جب جنگ عظیم سوئم برپا ہو تو ہم ذہنی و جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی مستعد و تیار ملیں دشمن کو۔

پھر بتاتا چلوں کہ ایران اور امریکہ کی جنگ ایک بریکنگ نیوز ہوگی لیکن اگر یہ سچ ہوئی تو پھر یہی “بریکنگ نیوز” سے بدل کر “بریکنگ رولز” (مطلب موجودہ ورلڈ الائنسز, بلاکس, ٹریٹیز اور دلی ہمدردیاں سب بدل جائیں گی کہ ماضی کے حریف اس وقت حلیف بن جائیں اور حلیف حریف بن جائیں, اور یہ ضرور ہوگا, سمجھدار کو اشارہ ہی کافی) بن جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایران امریکہ تنازعہ کو میں تو اب جنگ عظیم سوئم کی ڈرل کی نظر سے دیکھ رہا ہوں, آپ بھی سوچیئے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply