موبائل فون اور افریقہ کی جنگ۔۔۔وہارا امباکر

کیا آپ ٹینٹالم (Tantalum) اور نیوبیم (Niobium) کو جانتے ہیں؟ یہ دو عناصر ہیں جو حرارت میں خراب نہیں ہوتے، کثیف ہیں اور ان کو زنگ نہیں لگتا۔ شاید یہ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہوں کیونکہ یہ ہر موبائل فون کا حصہ ہیں۔ یہ آتے کہاں سے ہیں؟

جب دنیا بنی تو عناصر کی تقسیم یکساں نہیں تھی۔ ہر جگہ کی اپنی چٹانوں کی ساخت تھی اور ہر علاقے میں کوئی عنصر زیادہ آ گیا۔ کہاں پر کیا آیا اور کونسا حصہ کس کے کنٹرول میں رہا اور کس عنصر کی کب اہمیت رہی، اس بنیاد پر تجارت ہوئی اور جنگیں۔ روانڈا کا نام آپ نے نوے کی دہائی میں ہونے والے قتلِ عام کے حوالے سے سنا ہو گا لیکن ایک اور اہم دن 1996 کا تھا جب روانڈا ہوتو حکومت کے معزول ہونے پر ہوتو قبائل کانگو پہنچے۔ یہ پہلی کانگو جنگ کا آغاز تھا جس میں نو ممالک نے اور دو سو قبائل نے حصہ لیا۔ گھنے جنگلوں والا اور معدنی ذخائر سے مالامال کانگو وہ ملک ہے جہاں پر لاقانونیت اور انارکی کا دور دورہ ہے۔ یہاں پر نہ سڑکیں ہیں اور نہ چلنا پھرنا آسان ہے۔ غریب گاؤں والوں کو جنگ میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ دنیا میں ٹینٹالم (Tentalum) اور نیوبیم (Niobium) کا ساٹھ فیصد کانگو میں تھا اور دنیا میں موبائل فون کی ٹیکنالوجی کا آغاز تھا۔

جنگ موبائل فون نہیں کرواتے۔ لوگوں کی نفرتیں اور عداوتیں کرواتی ہیں لیکن ان عناصر کی مانگ کا مطلب یہ کہ ان پر قبضے کے لئے لڑنے کی وجہ مل گئی۔ یہ دونوں دھاتیں coltan نامی پتھر میں اکٹھی ملتی ہیں۔ 1991 میں ان کی دنیا میں مانگ صفر تھی اور 2001 میں ایک ارب ڈالر۔ نہ موبائل فون رکھنے والوں کو پتہ تھا کہ یہ کہاں سے آتا ہے اور نہ اس کے نکالنے والوں کو پتہ تھا کہ یہ کہاں جاتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے والی منافع سے کانگو کی جنگ چلتی رہی۔ اس کو حاصل کرنا آسان تھا۔ کیچڑ میں کدال لے کر چٹان نکل آتی۔ کسان کو اپنی محنت کی قیمت مل جاتی۔ لوگوں نے کھیتوں میں کام چھوڑ دیا۔ کانگو میں خوراک کا حال پہلے بھی اچھا نہ تھا۔ کسانوں کے کھیتی باڑی چھوڑ دینے کا مطلب یہ نکلا کہ خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ اس غربت سے گوریلا شکار ہونے شروع ہو گئے۔ گوریلوں کی نسل خطرے میں پڑ گئی۔ گوریلا سے بھی بدتر حالت انسانوں کی ہوئی۔ ایک بُری حکومت اچھی حکومت سے بدتر ہے لیکن حکومت کا نہ ہونا بدترین ہے۔ اس کو نکالنے کے لئے جبری مشقت کے کیمپ بنے۔ اچھی زمین حاصل کرنے کے لئے قتل و غارت شروع ہوا۔ 1998 سے 2001 تک اس آگ کے شعلے سب سے اونچے بھڑکتے رہے۔ موبائل فون کمپنیوں کو احساس ہوا کہ اس کاروبار کی وجہ پر انارکی کس قدر پھیل رہی ہے۔ انہوں نے کانگو سے یہ لینا بند کر دیا اور آسٹریلیا سے مہنگا خریدنا شروع کر دیا۔

کانگو زرِ مبادلہ جانا بند ہو گیا۔ لڑنے والوں کو پیسے ملنا بند ہو گئے اور آگ ٹھنڈی ہو گئی لیکن 2006 میں یورپین یونین نے سیسے کے سولڈر پر پابندی لگا دی۔ اس کا متبادل ٹین بھی سب سے زیادہ کانگو میں پایا جاتا تھا۔ یہ چکر پھر شروع ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جوزف کونریڈ نے ایک دفعہ کانگو کے بارے میں کہا تھا کہ لوٹ مار کے چکر نے کانگو میں انسانی ضمیر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ صدیوں سے چلنے والا چکر یہاں پر آج بھی جاری ہے۔ پچھلے بیس برس میں یہاں پر پچاس لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہونے والا یہ سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ کانگو میں ہونے والی جنگوں کی اپنی تاریخ ہے۔ لیکن یہاں کی جیولوجی اور اس کی کیمسٹری سے فنڈ ہونے والی جنگیں اب زیادہ مہلک ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply