• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہمارا ڈی این اے ہمارے ارتقاء کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

ہمارا ڈی این اے ہمارے ارتقاء کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

یہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا کہ great apes یعنی چمپنزی اور گوریلا وغیرہ انسان کے انتہائی قریبی ارتقائی کزنز ہیں- ڈاورن سے پہلے بھی سائنس دان یہ جانتے تھے کہ جسمانی خدوخال اور ساخت کے نکتہ نظر سے چمپننزی اور انسان میں بہت زیادہ مماثلت ہے- اس لیے انہیں نزدیکی سپیشیز سمجھا جاتا تھا اور انسانوں اور چمپنزی دونوں کو ape فیملی میں شامل کیا گیا تھا- لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں کئی ایسے فاسلز دریافت ہوئے جن سے چمپنزی اور انسان کا ارتقائی تعلق واضح ہونے لگا- ڈارون نے جب انیسویں صدی کے وسط میں نظریہ ارتقا پیش کیا تو اکثر سائنس دانوں نے اسے درست تسلیم کر لیا کیونکہ یہ نظریہ فاسلز میں پائی جانے والی سٹرکچرل تبدیلیوں کی بخوبی وضاحت کرتا تھا
انسانی ارتقاء کی کہانی فاسلز میں:
اب تک ایسے کئی فاسلز دریافت ہو چکے ہیں جو انسان کے ارتقاء کے مختلف مراحل کا ثبوت ہیں- ہم انسانوں کے کئی سب سپیشیز کے فاسل دریافت کر چکے ہیں جن میں نینڈرٹالز، ڈینیسوونز، اور آرڈی پتھیکس وغیرہ شامل ہیں- ان فاسلز سے انسان کے ارتقاء کے کئی gaps پُر ہو گئے ہیں- نینڈر ٹالز اور ڈینیسوونز کا ڈی این اے بھی ہمارے پاس موجود ہے- فاسلز کا ملنا عموماً اتفاقی ہوتا ہے اور اکثر فاسلز مکمل نہیں ہوتے- اگرچہ سائنس دان فاسلز کو انسان کی ارتقاء کا ایک واضح ثبوت تصور کرتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ فاسلز کے شواہد کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے- کئی لوگ ٹرانزیشنل فاسلز کی مبینہ غیر موجودگی کو ارتقاء کے نظریے کی بہت بڑی کمزوری سمجھتے ہیں- ان کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ فاسلز کے علاوہ بھی ایسے شواہد پیش کیے جائیں جو انسان کے ارتقاء کے نظریے کو سپورٹ کرتے ہوں- سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ ہر فاسل by definition ٹرانزیشنل فاسل ہی ہوتا ہے کیونکہ ارتقاء کا پراسیس ایک مسلسل عمل ہے اور ہر فاسل اس عمل کا ایک snapshot ہے
انسانی ارتقاء کی کہانی جینز میں:
جینیات کی جدید سائنس نے ارتقاء کے بہت سے نئے شواہد پیش کیے ہیں جس کا فاسلز کی موجودگی یا غیرموجودتی سے کوئی تعلق نہیں ہے- انسان اور انسان کے ارتقائی کزنز کے ڈی این اے کے تقابلی جائزے سے ہم نہ صرف ان میں جنیاتی مشابہت کو quantify کر سکتے ہیں بلکہ مختلف انواع کی ارتقائی تاریخ بھی متعین کر سکتے ہیں- جس طرح ڈی این اے کے تجزیے سے ہم کسی بھی فرد کے ماں باپ اور اولاد کی شناخت کر سکتے ہیں، ان کے دور اور نزدیک کے رشتہ داروں کی شناخت کر سکتے ہیں، اسی طرح ہم الگ الگ انواع کے مشترکہ اجداد کی شناخت بھی کر سکتے ہیں
ریٹرو وائرس:
ریٹرووائرس ان وائرسز کو کہتے ہیں جو اپنی کاپیاں بنوانے کے لیے اپنا جینیاتی کوڈ ہوسٹ سیل (یعنی جس خلیے کو وائرس نے انفیکٹ کر رکھا ہے) کے ڈی این اے میں داخل کر دیتے ہیں- اس طرح نہ صرف وائرس اپنی کاپیاں بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ وائرس کا ڈی این اے ہمیشہ کے لیے اس ہوسٹ سیل کے ڈی این اے کا حصہ بن جاتا ہے اور جب یہ خلیہ خود تقسیم ہوتا ہے تو وائرس کا ڈی این اے اس خلیے کی اگلی نسل میں بھی متقل ہو جاتا ہے-
یہ ریٹرووائس بعض اوقات جنسی خلیوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں یعنی جنسی خلیوں کے ڈی این اے میں اپنا ڈی این اے شامل کر دیتے ہیں- اگر ایسے سپرم یا ایسے بیضے سے اگلی نسل پیدا ہو جس میں کسی ریٹرووائرس کا ڈی این اے شامل ہو چکا ہے تو اگلی نسل کے ہر خلیے میں وائرس کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے اور وائرس کا ڈی این اے اس کی تمام اگلی نسلوں میں منتقل ہونے لگتا ہے- گویا ریٹرووائرس کا ڈی این اے اگر کسی جانور میں موجود ہے تو اس کی تمام اگلی پشتوں میں ریٹرو وائرس کا ڈی این اے عین اسی جگہ پر ہو گا جس جگہ پہلے جانور کے ڈی این اے میں شامل ہوا تھا- اگر اگلی پشتیں لاکھوں سالوں میں دو الگ الگ انواع بن جائیں تو بھی ان الگ الگ انواع میں ریٹرووائرس کا ڈی این اے ایک ہی جگہ پر پایا جائے گا
اکثر جانوروں کے مکمل ڈی این اے میں کئی ریٹرو وائرسز کا ڈی این اے پایا جاتا ہے جو جانور کے ڈی این اے میں مختلف جگہوں پر ہوتا ہے- وائرس کا ڈی این اے ہزاروں سالوں تک نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور عین ممکن ہے کہ جانور پر اس وائرس کے ڈی این اے کی موجودگی کا کوئی مثبت یا منفی اثر نہ ہو- اس ریٹرووائرس ڈی این اے میں بھی اسی طرح سے میوٹیشنز ہوتی رہتی ہیں جس طرح جانور کے باقی ڈی این اے میں ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان میوٹیشنز سے جانور کو فائدہ ہونے لگتا ہے- ایسا ہی ایک ریٹرووائرس سیکونس تمام میملز کے ڈی این اے میں پایا جاتا ہے جس میں ماضی بعید میں چند میوٹیشنز کی وجہ سے ڈی این اے سیکوینس کا یہ حصہ پلیسینٹا بنانے میں مدد دینے لگا- پلیسینٹا وہ عضو ہے جس سے بچہ رحم مادر میں ماں کے جسم سے منسلک ہوتا ہے اور آکسیجن اور خوراک حاصل کرتا ہے- یہ ریٹرووائرس ڈی این اے سیکوینس تمام میملز میں پایا جاتا ہے اور تمام میملز کے مشترکہ اجداد کی نشاندہی کرتا ہے
چونکہ ریٹرووائرس کا ڈی این اے اجداد سے موجودہ نسل میں آتا ہے، اگر دو مختلف انواع کے ڈی این اے میں کسی ریٹرووائرس کا ڈی این اے پایا جائے جو دونوں انواع کے ڈی این اے کے ایک ہی مقام پر ہو تو یہ اس بات کی بہت بڑی شہادت ہو گی کہ دونوں انواع ایک ہی جد سے ارتقاء پذیر ہوئیں- دونوں انواع کے الگ الگ اجداد کے ڈی این اے میں ایک ہی مقام پر عین ایک ہی ریٹرووائرس کے ڈی این اے کے موجود ہونے کا امکان عملاً صفر ہے- اگر دو انواع کے ڈی این اے میں کئی ریٹرووائرسز کے ڈی این اے پائے جائیں جن میں سے ہر ریٹرووائرس سیکوینس دونوں انواع کے ڈی این اے میں ایک ہی جگہ پر ہو تو یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ ان دونوں انواع کے اجداد کبھی مشترکہ رہے ہیں
انسان کے ڈی این اے میں ریٹرووائرسز:
ہر انسان کے ڈی این اے میں ہزاروں ریٹرووائرسز کا ڈی این اے موجود ہے- سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ انسانی ڈی این اے کا لگ بھگ آٹھ فیصد حصہ ریٹرووائرسز کے ڈی این اے پر مشتمل ہے- جدید مشینوں سے ڈی این اے کا تجزیہ اس قدر آسان ہو گیا ہے کہ اب ہم انسان کے ڈی این اے میں مختلف وائرسز کے ڈی این اے کے ٹکڑے آسانی سے پہچان سکتے ہیں- وائرس کے ڈی این اے کے کچھ چیدہ چیدہ حصے پہچاننا انتہائی آسان ہوتا ہے کیونکہ ہر وائرس کے ڈی این اے میں وائرس کی پروٹین بنانے کے جینز، خول بنانے کے جینز، اور وائرس کے اینزائم بنانے کے جینز ہوتے ہیں- ہم ہزاروں قسم کے وائرسز کا ڈی این اے ڈی کوڈ کر چکے ہیں اس لیے اب وائرس کے ڈی این اے کو شناخت کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے
ریٹرووائرس کے ڈی این اے سیکوینس کے شناخت کے علاوہ سائنس دان انسان کے ڈی این اے میں ریٹرووائرس ڈی این اے کی موجودگی کو دوسرے طریقوں سے بھی ثابت کر چکے ہیں- انسان کے ڈی این اے سے وائرس کے ڈی این اے کو کاٹ کر الگ کر کے جب اسے لیبارٹری میں ہوسٹ خلیوں میں داخل کیا گیا تو یہ ڈی این اے جو لاکھوں یا شاید کروڑوں سال سے ہمارے اجداد سے نسل در نسل ٹرانسفر ہوتا آیا ہے دوبارہ سے وائرسز کی کاپیاں بنانے لگا- یعنی سائنس دان اس ڈی این اے کے ٹکڑے سے کروڑوں سال سے معدوم شدہ وائرس کو لیبارٹری میں دوبارہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ کروڑوں سال پرانا وائرس ہوسٹ سیل کو انفیکٹ کر کے اس میں اپنی کاپیاں بھی بنانے لگا- یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی ڈی این اے میں یہ سیکوینسز واقعی معدوم شدہ وائرسز کی ہی ہیں
اگر دو انواع کے ڈی این اے میں بہت سے ریٹرووائرس کے سیکوینسز کامن ہیں لیکن اکا دکا سیکوینسز ایسے ہیں جو ایک میں ہیں لیکن دوسرے میں نہیں، تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں انواع کے اجداد تو مشترکہ تھے لیکن ارتقاء میں سپیشی ایشن کے عمل سے یہ دو انواع الگ الگ ہو گئیں- الگ انواع بننے کے بعد کچھ ریٹرووائرس ایک نوع کے ڈی ای اے میں شامل ہو گئیں اس لیے یہ ریٹرووائرس سیکوینس ایک کے ڈی این اے میں ہے لیکن دوسری نوع میں موجود نہیں ہے- گویا دو انواع میں ریٹرووائرسز کے یکساں ہونے سے ان کے مشترکہ اجداد کا پتا ملتا ہے اور الگ الگ ریٹرووائرس سیکوینسز کی موجودگی ان کی سپیشی ایشن کے بعد کی کہانی سناتی ہیں
انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں ریٹرووائرسز کا تقابلی جائزہ:
اوپر کی گئی بحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اگر انسان اور چمپنزی کے اجداد کبھی مشترکہ نہیں رہے تو ان کے ڈی این اے میں کوئی ایسا ریٹرووائرس سیکوینس نہیں ہو گا جو دونوں کے ڈی این اے میں مشترکہ ہو (اور دونوں میں یکساں مقامات پر پایا جائے)- دونوں کے ڈی این اے میں جتنے بھی ریٹرووائرسز ہوں گے ان کا ایک دوسرے کے ڈی این اے سے کوئی کوریلیشن نہیں ہو گا- اس کے برعکس اگر انسان اور چمپنزی کے اجداد مشترکہ رہے ہیں تو ان دونوں کے ڈی این اے میں بہت سے ایسے ریٹرو وائرس کے ٹکڑے پائے جائیں گے جو دونوں کے ڈی این اے میں یکساں مقامات پر ہوں گے- البتہ کچھ ریٹرووائرسز ایسے ہوں گے جو ایک کے ڈی این اے میں ہو گے لیکن دوسرے کے ڈی این اے میں نہیں ہوں گے- یکساں وائرل ڈی این اے اور مختلف وائرل ڈی این اے کی مقدار کے تناسب سے ہم یہ بھی اندازہ لگا پائیں گے کہ دونوں کے اجداد کو الگ ہوئے بہت کم عرصہ ہوا ہے یا بہت زیادہ
اگر ہم انسان کے ڈی این اے کو سٹڈی کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کم از کم ایک کروڑ ایسے مقامات ہیں جہاں اصولاً ریٹرووائرس ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو سکتا ہے- گویا اگر ایک ریٹرووائرس انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں رینڈم انداز میں شامل ہوتا ہے تو ایک کروڑ میں ایک چانس ہے کہ دونوں انواع کے ڈی این اے میں یہ ریٹرووائرس ایک ہی مقام پر موجود ہو- یعنی اگر دونوں کے ڈی این اے میں ایک ریٹرووائرس ایک ہی مقام پر پایا جائے تو 99.9999999 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ اس کی وجہ مشترکہ اجداد ہیں اور صرف 0.0000001 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ ایسا اتفاقی طور پر ہوا- اگر بالفرض انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں بارہ ریٹرووائرسز کی سیکوینس موجود ہے اور دونوں کے ڈی این اے میں یہ بارہ کے بارہ ریٹرو وائرس سیکوینسز یکساں مقامات پر ہیں تو اس کا امکان اس قدر کم ہے کہ پوری کائنات کے تمام ایٹموں کو ایک طرف رکھا جائے اور ایک ایٹم کو دوسری طرف تو ان کی تعداد کا جو تناسب ہے اس سے بھی زیادہ تناسب مشترکہ اجداد کے امکان اور اتفاقی طور پر ایسا ہونے کے امکان کے درمیان ہو گا
سائنس دانوں نے جب انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے کا موازنہ کیا تو انہیں انسان کے ڈی این اے میں 211 جگہ ریٹرووائرس کی ایک مخصوص سیکوینس ملی اور چمپنزی کے ڈی این اے میں عین وہی ریٹرووائرس کی سیکوینس 208 مقامات پر تھی- ان میں سے 205 مقامات پر اس ریٹرووائرس سیکوینس کی جگہ انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں بالکل یکساں تھی-
اس ڈیٹا سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان اور چمپنزی کے اجداد مشترکہ تھے- ریٹرووائرس کی 205 لوکیشنز پر سیکوینس ان مشترکہ اجداد کے ڈی این اے میں پہلے سے موجود تھی- انسان کے ڈی این اے میں چھ جگہ ریٹرووائرس سیکوینسز ہمارے اور چمپنزی کے اجداد کے الگ الگ ہونے کے بعد ہمارے ڈی این اے میں شامل ہوئیں جبکہ چمپنزی کے ڈی این اے میں تین جگہ یہ وائرس سیکوینسز ہمارے مشترکہ اجداد کے الگ ہونے کے بعد چمپنزی کے ڈی این اے میں شامل ہوئیں- چونکہ ان وائرس سیکوینسز کی اکثریت ہمارے مشترکہ اجداد میں موجود تھیں اور الگ الگ ہونے کے بعد بہت کم نئی سیکوینسز شامل ہوئیں اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ارتقائی ٹائم سکیل پر انسان اور چمپنزی کے اجداد نسبتاً ماضی قریب میں ہی الگ الگ ہوئے
اگر ہم یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ انسان اور چمپنزی کے اجداد مشترکہ ہیں تو پھر ہمیں یہ وضاحت کرنا ہو گی کہ انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں اس قدر مشترکہ ریٹرووائرس اتفاقی طور پر کیسے ایک ہی جگہ پر وقوع پذیر ہو گئیں
واضح رہے کہ ریٹرووائرس کی سیکوینس اور ان کی ڈی این اے میں لوکیشن ہمارے اور چمپنزی کے مشترکہ اجداد کی واحد شہادت نہیں ہیں- بہت سا ڈیٹا جو آزادانہ طور پر حاصل کیا گیا ہمیں یہی بتلاتا ہے کہ تمام great apes کے اجداد مشترکہ تھے- یہ تمام آزادانہ شہادتیں اس قدر مضبوط ہیں کہ سائنس سمجھنے والے افراد کے لیے ان شواہد کو رد کرنا اب ممکن نہیں رہا
اس پوسٹ کے آخر میں جس ویڈیو کا لنک فراہم کیا گیا ہے اس ویڈیو کو توجہ سے دیکھیے اور پھر اس موضوع کو خود سے سٹڈی کیجیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ حقائق کیا ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ سائنس کی دنیا گروپ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply