• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مہاجر واقعی فرزندان زمین نہیں ؟ متروکہ سندھ کا وارث کون ہے ؟۔۔۔کاشف رفیق محسن

کیا مہاجر واقعی فرزندان زمین نہیں ؟ متروکہ سندھ کا وارث کون ہے ؟۔۔۔کاشف رفیق محسن

دو تاریخی مغالطے ایسے ہیں جن سے مہاجروں کی تیسری نسل یعنی نیوجنریشن قطعی طور پر نا بلد ہے ایک یہ کہ اسکے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ ہے کہ مہاجر فرزندان زمین نہیں دوسرا وہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہی کو مہاجر دشمن گردانتی ہے ۔ تین سوال اہم ہیں جنکا جواب جانے بنا نسل نو کا ان مغالطوں سے نکلنا ممکن نہیں ۔
1 : کیا مہاجر واقعی فرزندان زمین نہیں ؟
2 : کیا پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہی واحد مہاجر دشمن طاقت ہے ؟
3 : متروکہ سندھ کیا ہے ؟ کون اسکا وارث ہے ؟

ایک مختصر سے مضمون میں گو کہ ان تمام امور کا کماحقہ احاطہ ممکن نہیں پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی حد تک اس غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے جس کے جھوٹے مگر موثر پروپیگنڈے نے جنوبی سندھ کے مہاجروں کو احساس محرومی کی ہولناک تاریکیوں میں دھکیل رکھا ہے ۔ ستم بالائے ستم کہ جنوبی سندھ کی واحد اکثریتی نمایندہ جماعت ایم کیوایم نے اس خطے پر تیس برس تک خود کو پارلیمانی سیاست میں مہاجروں کی واحد نمایندہ جماعت ثابت کیا اور کروڑوں مہاجروں نے نہ صرف یہ کہ اسے سراہا بلکہ آج تمام تر ریاستی جبر کے باوجود اسکا دم بھرتے ہیں مگر ان تیس برسوں میں ایم کیوایم نے بھی “عملی سیاست” کے تقاضوں کے پیش نظر نہ کبھی مہاجروں کو بے زمینی کے اس احساس محرومی سے نکالنے کی کوشش کی اور نہ ہی متروکہ سندھ کے حقائق سے پردہ اٹھایا ۔ یقینی طور پر اس میں عملی سیاست کی بہت سی مجبوریاں پیش نظر رہی ہونگی جنھوں نے ایم کیوایم کی قیادت کو اوائل دنوں میں جی ایم سید اور آخر دنوں میں جام صادق کا مقرب رکھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے نصف میں مسلم اقلیتی صوبوں یوپی ، بہار اور حیدرآباد کے مسلمانوں نے اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دینا شروع کی اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف یوپی جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 13 فیصد تھی اس وقت کی سول بیوروکریسی میں 2 فیصد کی نمایندگی رکھتی تھی اسکے برعکس مسلم اکثریتی صوبوں یعنی بنگال پنجاب سندھ اور شمال مغربی صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باجود علم و ہنر میں اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے بہت پیچھے تھے ۔ تقسیم ہند کے منصوبہ سازوں یعنی مسلم لیگ کی قیادت نے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ الگ ریاست کی جدوجہد میں اپنا فعال کردار ادا کریں مسلم قومیت کی بنیاد پر بننے والی اس ممکنہ ریاست میں اقلیتی صوبوں کا خاص خیال رکھا جائے گا یہاں تک کہ انھیں یہ بھی کہا گیا کہ اقلیتی صوبوں کے مسلم علاقے بھی نئی مملکت کا حصہ ہونگے مگر کیئے گئے وعدوں کے برعکس اعلان تقسیم میں مسلم ریاست کا جغرافیہ کچھ اور نکلا اس تاریخی جھوٹ کے باوجود مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں اپنا نہایت فعال ترین کردار ادا کیا ۔ شمالی ہندوستان کے ان مہاجروں نے اس نوزائدہ مملکت کی تاریخ اپنے خون سے لکھی اور قیام پاکستان کے بعد جب سرحد کے اطراف میں خون ریزی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی سے اپنے تیس سے چالیس ہزار بنے بنائے خوبصورت گھر چھوڑ کر ڈھائی سے تین لاکھ کی تعداد میں پنجاب پہنچنے والے مہاجرین کو پنجاب نے خوش دلی سے قبول کیا اور انکی تیسری نسل بھی آج پنجاب میں مطمعن زندگی گزار رہی ہے مگر بدقسمتی سے پنجاب ، پشاور کوئٹہ اور سندھ میں ہندووں اور سکھوں کے قتل عام کا سلسلہ تقسیم کے اعلان سے قبل ہی شروع کر دیا گیا سندھ میں ایک عام سندھی نہیں جی ایم سید اور ایوب کھوڑو کی شکل میں سندھی وڈیرہ شاھی نے سکھوں اور ہندوں کی املاک پر قبضے کیلئے ایک طرف تو اس قتل عام کی سرپرستی کی تو دوسری طرف اپنی مسلم قومیت کے تصور کو طاق نسیاں میں رکھ کر مہاجروں کی صورت آنے والے متروکہ سندھ کے وارثوں کا راستہ روکنے کیلئے سندھی قوم پرستی کی داغ بیل ڈال دی یہ الگ بات کہ سندھی قوم پرستی اور سندھی وڈیرہ شاھی نے خود ایک عام سندھی کو غربت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں دیا ۔

سچ تو یہ ہے کہ کراچی حیدرآباد سکھر لاڑکانہ اور ٹنڈوآدم کی 90 سے 95 فیصد آبادی غیر مسلم سندھیوں پر مشتمل تھی۔ اگر سندھی قوم پرست حمیدہ کھوڑو کی کتاب ” کاغذات برائے علیحدگی سندھ از بمبئی ” ہی کا مطالعہ کر لیا جائے تو اس میں واضع لکھا ہے کہ سندھ میں 20 فیصد زمین ہندو چھوڑ کر گئے اور مسلم سندھیوں کا سندھ کی زمین پر صرف 30 فیصد پر حق بنتا ہے ۔ ہندو آبادی پر ظم و ستم کا سلسلہ سندھی وڈیرہ شاھی کی طرف سے 1928 ہی سے شروع کیا جا چکا تھا کراچی میں ہندووں کی املاک پر قبضے کیلئے جی ایم سید اور ایوب کھوڑو نے اپنے رفقا سمیت ایک پری پلان حملے میں سینکڑوں ہندووں کو ہلاک کر دیا وہ گرفتار بھی ہوئے مگر بعد ازاں انھیں رہا کر دیا گیا ۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی ایک بار پھر سندھی قوم پرستوں نے ہندووں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کی اور انکی املاک پر قبضے کرنے لگے پاکستان سے بچ کر جانے والے ہندووں اور سکھوں نے جب ہندوستان میں پینچ کر خود پر ہونے والے ظلم کی داستان سنائی تو دلی سمیت پورے پنجاب ، بھرت پور ، راجستھان، گجرات اور یوپی میں ہندو بھڑک اٹھے اور مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوگیا اس قتل عام میں ایک محتاظ ترین اندازے کے مطابق بیس سے تیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا صرف دلی سے دو ڈھائی لاکھ مسلمان اپنے تیس چالیس ہزار خوبصورت گھر چھوڑ کر کیمپوں میں آگئے گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ پاکستان آنے کا فیصلہ کر چکے تھے

پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے درمیان طویل ترین مذاکرات کے بعد یہ معاھدہ طے پایا کہ جو گھر مکان اورزمین ہندو و سکھ پاکستان میں چھوڑ کر آئے ہیں وہ ہندوستان سے جانے والے مہاجرین کو اور جو جائیدادیں مہاجر یہاں چھوڑ کر جارہے ہیں وہ پاکستان سے آنے والے ہندووں اور سکھوں کو الاٹ کر دی جائیں اس معاھدے میں طے پایا کہ یہ زمینیں ہندو سکھ اور مسلمان مہاجرین کے علاوہ کسی صورت کسی دوسرے کو الاٹ نہ کی جائیں چناچہ دلی سے پنجاب پہنچنے والے دو ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو تو پنجاب نے نہایت خوش دلی سے قبول کیا اور انکی تیسری اور چوتھی نسل بھی آج وہاں مطمعن زندگی گزار رہی ہے مگر شمالی ہندوستان سے ہجرت کرنے والے بیس لاکھ سے زائد ان مہاجرین کو جنھوں نے سندھ کا رخ کیا اور اور متروکہ سندھ یعنی کراچی سمیت سندھ کے وہ شہری علاقے جو ہندو اور سکھ خالی کر کے گئے تھے ( یا سندھی وڈیرہ شاھی اور قوم پرستوں نے جنھین چلے جانے پر مجبور کیا تھا ) ان مہاجرین کا حق تھا یہ مہاجر اس متروکہ سندھ کے وارث تھے ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے جانے لگے اس وقت کے وزیر اعلی ایوب کھوڑو نے مہاجروں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کرنا شروع کر دیا ایسے میں محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان نے مہاجروں کو انکا حق دلانے میں اپنا فعال کردار ادا کیا اس دور کے اخبارات میں دونوں قائدین کے بیانات آج بھی محفوظ ہونگے جس وقت شمالی ہندوستان سے مہاجروں کے قافلے کراچی اور سندھ پہنچے سندھ کی کل آبادی 3 لاکھ 84 ہزار تھی جس میں مسلم سندھی آبادی 2 فیصد بھی پوری نہیں تھی تاریخ کا سچ یہ ہے کہ مسلم سندھی کبھی سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئے ہی نہیں تھے اور اب صورتحال یہ تھی کہ سندھی قوم پرست جی ایم سید اور ایوب کھوڑو کی صورت متروکہ سندھ پر قابض ہو رہے تھے وہ متروکہ سندھ جو کراچی سے ٹنڈوآدم تک مہاجروں کا حق تھا اور مہاجر اسکے وارث تھے ۔

یہ وہ پہلا موقع تھا جب سندھی وڈیرہ شاھی نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مہاجروں کو بے زمین ، پناہ گزیر ، تلیر اور مکڑ جیسے القاب دینا شروع کیے اور یہ سلسلہ پھر کبھی رکا نہیں اس میں کچھ قصور خود مہاجر اکابرین کا بھی تھا کہ مہاجر بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے حصے میں آئی تھی جو پنجاب کی نوکر شاھی کے ساتھ مل کر ابتدائی چند برسوں میں اقتدار کی محلاتی سازشوں میں مصروف رہی اور دوسری طرف سندھی وڈیرہ شاھی جس نے ایک عام سندھی کو صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور جو مہاجروں کے علم و ہنر سے لرزاں تھا اندرون سندھ یعنی کراچی حیدرآباد کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری علاقوں سے مہاجروں کو نقل مکانی پر مجبور کرتا رہا بھٹو کے ابتدائی دور میں انکے کزن ممتاز بھٹو کی وزارت اعلی میں تو مہاجروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا چنانچہ اندرون سندھ سے مہاجروں کو ایک بار پھر ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور وہ حیدرآباد اور کراچی آ کر آباد ہوئے ۔ ہونا تو یہ چاہیے  تھا کہ متروکہ سندھ جو مہاجروں کا جائز حق تھا اسے ایک الگ صوبہ کا درجہ دے دیا جاتا مگر تعصب اور نفرت کی آگ نے کراچی کے دارلخلافہ کی حیثیت کو بھی ختم کر ڈالا یہ درست ہے کہ ابتدائی برسوں میں مہاجر بیوروکریسی اور پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ ایک جان دو قالب تھے اور اس وقت مہاجر اکابرین سندھی دانشوروں اور قوم پرستوں کے بہلاوے میں آگئے امن اور شانتی کے ساتھ اکھٹا رہنے کی باتیں کی گئیں سندھی وڈیرہ شاھی اور قوم پرستوں کو اس وقت اندازہ تھا کہ اس وقت مہاجر الگ صوبہ بنانے کی پوزیشن میں ہیں اور پھر رفتہ رفتہ جب علم و ہنر سے مالا مال مہاجروں نے شبانہ روز محنت کر کے 3 لاکھ آبادی کے ویران کراچی کو بین الاقوامی شہر بنا دیا اقتدار کے ایوانوں میں مہاجر نوکر شاھی اپنا اثر کھو چکی تو شہد ٹپکاتی زبانوں نے بغلوں سے چھریاں نکال لیں ۔

یہ بھٹو کے ابتدائی دور کی کہانی ہے ہم اس میں ایک عام سندھی کو قطعی طور پر قصور وار نہیں ٹھہراتے کہ وہ آج بھی قوم پرست سندھی وڈیرہ شاھی کے سامنے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزار رہا ہے اور پھر دور شروع ہوا اسی کی دہائی کا جس کے ابتدائی سالوں میں ایک مسلسل احساس محرومی نے مہاجروں کو ایم کیوایم کے پلیٹ فارم پر جمع کردیا اور مسلسل تیس برس تک ایم کیوایم تمام تر ریاستی جبر کے باوجود اپنی حیثیت کو تسلیم کرواتی رہی سندھی وڈیرہ شاھی کے دیئے گئے پناہ گزیر ، تلیر اور مکڑ جیسے تضحیک آمیزخطابات کے مقابلے میں ایم کیوایم نے جنوبی سندھ کے مہاجروں کو ” مہاجر ” شناخت دی جو ایم کیوایم کا کارنامہ ہے مگر بدقسمتی سے ایم کیوایم کو اتنا موقع کبھی نہیں دیا گیا کہ وہ متروکہ سندھ کی صورت مہاجروں کے تمام مسائل کے کلی حل کیلئے الگ صوبے کی تحریک چلا سکے ۔ تاریخ کا یہ وہ موڑ ہے جہاں سندھ کی وڈیرہ شاھی اور پنجاب کی اسٹیبشمنٹ کے مفاد یک جاں ہوگئے جس کا خمیازہ آج بھی جنوبی سندھ کے ساڑھے تین کروڑ مہاجر بھگت رہے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں بھی لکھا کہ نظری اور عملی سیاست میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ قبر کا حال مردہ جانتا ہے کہ مصداق یہ بات ایم کیوایم کی قیادت ہی جانتی تھی کہ خود کو اردو زبان بولنے والا سندھی کہنے اور مہاجرقومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں بدلنے کے لیے اسے کیسے کیسے دباؤ  کا سامنا کرنا پڑا مگر ہوس پرست اسٹیبلشمنٹ اور سندھی قوم پرستوں کو وہ پھر بھی مطمئن نہ کر سکی اس سے بہتر ہوتا کہ وہ ابتدا ہی سے الگ صوبہ کا ایک نکاتی مطالبہ لیکر آگے بڑھتی جو نہ تو غیر آئنی مطالبہ ہے اور نہ ہی اس میں کسی عام سندھی کا کوئی نقصان ہے ۔ یہ طے ہے کہ سندھ دھرتی پر ایک عام سندھی اور مہاجر کا اگر کوئی دشمن ہے تو وہ قوم پرست سندھی وڈیرہ شاھی ہے جسے پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کا پورا آشیرباد حاصل ہے ۔ مہاجروں کی نسل نو کو جان لینا چاہئے کہ لفظ ” مہاجر ” انکی شناخت بن چکا ہے جو ایم کیوایم کا تیس برسوں کا واحد کارنامہ ہے ۔

آج جنوبی سندھ نہیں  صرف کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے متجاوز ہے گو کہ اسٹیبلشمنٹ اور قوم پرست سندھی وڈیرہ شاھی نے یہاں بھی اپنے روایتی بغض اور ایجنڈے کو ملحوظ خاطر رکھ کر کراچی کی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ بتائی ہے مگر اقوام متحدہ کی ان رپورٹس کا کیا کریں گے جو سن 2014 کی شایع شدہ ہیں اور جن میں کراچی کی آبادی 3 کروڑ 14 لاکھ بتائی گئی ہے نادرہ کے اس ریکارڈ کا کیا کرینگے جو مردم شماری سے دو برس قبل کراچی کی آبادی 2 کروڑ 60 لاکھ بتا رہا ہے کراچی کی حقیقی آبادی اس وقت دنیا کے 120 ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے مگر اس شہر کی بدقسمتی کہ محض مہاجر دشمنی میں اسے اسکا جائز حق نہیں دیا گیا اتنی کثیر آبادی کے کسی میگا سٹی کو محض وفاق اور صوبے کی قوم پرست حکومتوں کے زیر اثر کسی بلدیاتی فنڈز سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اس شہر کے رقبے اور آبادی کا حجم کسی ملک جتنے وسائل اور بجٹ کا طالب ہے اس پر ستم یہ کہ ملک کی مجموعی صنعت کا 45 فیصد حصہ رکھنے والا اور قومی آمدنی میں 70 فیصد حصہ ڈالنے والا شہر کراچی اگر اپنے حقوق کی بات کرئے تو کہا جاتا ہے کہ ” ہم ستر برس سے مہاجروں کو پال رہے ہیں ” وڈیرہ شاھی کے یہ کاسہ لیس غلام عقل و خرد سے بیگانے نہیں یہ اس ایجنڈے کا حصہ ہیں جو ابتدا سے جی ایم سید اور ایوب کھوڑو کی شکل میں نسل درنسل انکے ذہنوں میں فیڈ کیا گیا ہے

۔ متروکہ سندھ تو بہت بڑا حصہ ہے جسکے کہ مہاجر جائز وارث ہیں اور قوم پرست سندھی وڈیرہ شاھی اس پر قابض ہے ہم تو بات کرتے ہیں انتظامی یونٹ کی ہم نہیں کہتے کہ آپ جو صوبہ بنائیں اسکی حدیں کراچی سے لاڑکانہ تک ہوں اور اسکا نام دیگر صوبوں کی طرح لسان پر ” مہاجرستان ” رکھا جائے ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے جنوبی سندھ کے شہروں کو ملا ایک الگ انتظامی یونٹ کی شکل دے دی جائے کہ عوام کو انکا حق ملے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو ۔ نقل مکانی نے گو کراچی میں آبادی کا تناسب بدلا ہے اور اب موجودہ حکومت افغانیوں کو بھی شہریت دینے پر غور فرما رہی ہے مگر اس کے باوجود کراچی اور جنوبی سندھ میں مہاجروں کی اکثریت برقرار ہے اور ان علاقوں میں اقلیت میں موجود مقامی پختون ، بلوچ ، سندھی اور پنجابی اس سے قبل بھی پرسکون زندگی گزار رہے تھے اور نئے صوبے کے قیام کے بعد بھی یقینی طور پر مطمئن زندگی ہی گزاریں گے ایک عام سندھی کا اس میں فائدہ یہ ہے کہ وسائل بڑھنے سے اور انکا حیطہ عمل بڑھنے سے وسائل ان تک پہنچیں گے اقتدار پر قابض نام نہاد قوم پرست سندھی وڈیرہ شاھی ایک عام سندھی کا حق مار کر بڑے شہروں میں اپنے محل بنا کر عیاشی نہیں کر سکے گی ۔ ایم کیوایم کی قیادت سمیت تمام مہاجر اکابرین پر لازم ہے کہ اب وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کو ایک نقطے پر مرتکز کر لیں متروکہ سندھ انکا جائز حق ہے اور الگ صوبہ کا مطالبہ قطعی طور پر آئنی حق ہے اب نوکریوں اور مراعات کی سیاست سے باہر نکل کر مہاجر قوم کے دکھوں کے مداوے کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گذشتہ روز ڈی جی صاحب فرما رہے تھے کہ ایم کیوایم لندن وہ واحد جماعت ہے جس کا عسکری ونگ ہے کل بھی تھا اور آج بھی ہے اب اس ہرزہ سرائی پر کوئی کیا کہئے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب اس عسکری ونگ نے کیا سلیمانی ٹوپی پہن رکھی جو باوجود 35 برس سے آپ کی کراچی میں موجودگی کہ نظروں سے اوجھل ہے ؟ دس برس تک آپ کے آرمی چیف نے اس جماعت کو سینے سے لگا کر رکھا کیا اس وقت بھی یہ عسکری نیٹ ورک موجود تھا ؟ دو درجن آپریشن آپ کر چکے پھر بھی یہ عسکری نیٹ ورک موجود ہے ؟ ایم کیوایم نے سن 91 کے آخر میں آپ کو ان کریمنلز کی لسٹیں فراہم کیں جو ایم کیوایم کی چھتری استعمال کرتے ہوئے کرائم میں ملوث تھے مگر آپ نے لسٹیں دینے والوں کی کمر تھپتھپا کر شاباش کہنے کے بجائے ان کریمنلز کو بکتر بند گاڑیوں میں بٹھا کر ایم کیوایم پر قبضے ہی کی کوشش کرڈالی اور اب ایک زبان کی غداری کو جسکا کہ کوئی زمینی وجود نہیں بنیاد بنا کر مہاجر قوم پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے ۔ ان حالات میں یہ مہاجر قیادت اور اکابرین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے جائز حق یعنی متروکہ سندھ کی صورت جنوبی سندھ صوبے کیلئے آواز اٹھائیں، ُپرامن دستوری جدوجہد کریں اور مہاجروں کی نسل نو کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ وہ نہ صرف فرزندان زمین ہیں بلکہ وہ فرزندان زمین ہیں جنھوں نے باقی تمام قومیتوں کو فرزندان زمین کہلوانے کا حق پاکستان تخلیق کر کے اپنے اجداد کے لہوسے دلوایا ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ،انسانیت ہی میرا مذہب ہے اور انسانیت ہی اسلام کا اصل چہرہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply