چوہتر سال بعد بھی۔۔آغر ندیم سحر

آزادی کے 74 سال بعد بھی ہمیں اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے‘پاکستان‘پاکستانیت اور ہمارے شناختی ورثے کی بحث تاحال جاری ہے۔پاکستانی ہیرو کی تلاش اور ان کی شناخت پر دانشوروں کے بحث مباحثے بھی زوروں پر ہیں مگر صد افسوس کہ ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہم کیوں ہیں‘کہاں ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے؟۔چل رہے ہیں مگر راستوں اور منزل سے بے خبر‘بس چل رہے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟۔

آج ۴۷ سال بعد ہم یہ فیصلہ کر سکے ہیں کہ ہمیں اپنے تعلیمی ادارو ں میں یکساں نصاب شروع کرنا ہوگا‘حکومتی اعلانات کے باوجود تاحال کئی (برانڈ)نجی اداروں میں یکساں قومی نصاب والی پالیسی پر عمل نہ کیا جا سکا۔آج 74سال بعد ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہماری کتابوں میں کون کون سے ہیروز ہونے چاہیں اور کن ہیروز کی تصاویر نکال دینی چاہیں۔74 سال بعد ہم یہ فیصلہ کرنے کا سوچ رہے ہیں کہ ہمیں اس ملک میں جمہوریت مضبوط کرنے کے لیے کن اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا اور کن اداروں‘شخصیات اور طاقتوں سے دست بستہ معافی مانگنی ہوگی۔ ہم ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہماری منزل کہاں ہے اور کیوں ہے۔میری اس بات سے آپ سب کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ 74 سالوں میں کوئی ایک ادارہ بھی ہم اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کر سکے۔جس ادارے‘جس طاقت ور شخصیت پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے‘وہ کرپشن کا بے تاج بادشاہ نکلتا ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ کون کرے کہ پاکستانیت کیا ہے‘پاکستانی شناخت کیا ہے‘ہمارا کلچر‘تعلیمی نظام‘ہمارے اداروں اور ہمارے سسٹم کو کن اصولوں پر آگے بڑھنا ہے‘کون کرے گا یہ فیصلہ؟‘شاید کوئی بھی نہیں کیونکہ ہم سب ایک دوسرے سے کانے ہیں۔

ان موضوعات پر جب کوئی صحافی‘قلم کار اور مفکر بات کرنے لگتا ہے تو اسے ریاست کا غدار کہہ دیا جاتا ہے‘کوئی صحافی اس پر لکھنے لگتا ہے تو اسے یہودی ایجنٹ کہہ دیا جاتا ہے‘کوئی ماہر ِتعلیم اس پر بات کرتا ہے تو ہم اسے مغربی تعلیمی نظام کا نمائندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟۔کیا ہمارے اندر ہمت نہیں کہ ہم اپنی خامیوں اور غلطیوں کا پلندہ دیکھ سکیں یا ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ہمیں دوسری قوموں کے سامنے اپنی نااہلی قبول کریں؟۔کلچر کی بات کریں تو ہم بظاہر مغرب کو گالی دینے والے مغربی کلچر کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے‘ترقی کی بات کرنے والے مغربی ترقی کو انجوائے بھی کرتے ہیں مگر دل میں نفرت بھی رکھتے ہیں‘تعلیمی نظام کی بات کریں تو میکالے کی بنائی پالیسی آج تک تبدیل نہیں کر سکے‘مغربی نظام تعلیم کی نقالی میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں مگر جب کوئی صحافی یا دانشور ہمیں کہتا ہے کہ مغرب ہم سے آگے ہیں تو ہم اسے گالی دینے لگتے ہیں‘ہم اس ریاست کا غدار کہہ دیتے ہیں،میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ ہم اس ”دوغلی پالیسی“پر کیوں عمل پیرا ہیں۔ زبان‘ کلچر‘ تعلیم‘قوانین سمیت جمہوری نعروں تک ہم دوسروں قوموں کی نقالی کرتے آ رہے ہیں‘ادارے ۴۷ سالوں میں ہم نے تباہ کیے‘ہماری طاقت ور شخصیات نے بار بار قانون کی دھجیاں آڑائیں‘ جمہوریت کو کمزور تر ہم نے کیا‘آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کو ہم نے خود سپورٹ کیا‘ملک کی یہ حالت ہم نے خود کی کہ آج ہم بیساکھیاں تلاش کر رہے ہیں مگر ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ پاکستانیت کیا ہے؟۔

کیا پاکستانیت اسے کہتے ہیں کہ آج 74سال بعد بھی ہمارے پاس کوئی روڈ میپ نہیں‘کسی ادارے کے بارے میں ہمارے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں اور اگر کوئی پالیسی یا قانون ہے بھی تو عام آدمی کے لیے‘74 سال بعد بھی اس ملک میں قانون کو طاقت ور کی لونڈی سمجھا جا رہا ٰہے‘۴۷ سال بعد بھی ہم اپنے تعلیمی اداروں کی ترلے منتیں کر رہے ہیں کہ”یکساں قومی نصاب“پر عمل کریں مگر تعلیمی اداروں کے سربراہوں کے سروں پہ جوں تک نہیں رینگی۔74 سال بعد بھی ہم یہ کہہ رہے کہ ہم جمہوریت لانے میں ناکام کیسے ہو گئے‘کیسی عجیب بات ہے کہ ملک میں بار بار قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو ہم نے تحفظ دیا‘انھیں تمغوں اور عہدوں سے نوازا اور آج جب ملک اس قدر کمزور ہو چکا کہ بیساکھیاں بھی سہارا نہیں دے پا رہیں تو ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ملک کو اتنا کمزور کس نے کیا؟،یہ ملک اس نہج پہ کیسے آیا؟۔

14گست2021 کو گلیوں میں باجے بجاتے بچوں کو کیسے سمجھائیں کہ یہ ملک جمہوری ملک ہے‘باجا بجتے بچوں کو یہ کون سمجھائے کہ ہم ایک آزادی اور فلاحی ریاست ہیں‘نئی نسل کو یہ کون سمجھائے کہ ادارے مضبوط ہوں تو ملک مضبوط ہوتا ہے کیونکہ اداروں کی تباہی کو نئی نسل بھی دیکھ رہی ہے۔2021 کا ”یومِ آزادی“ منانے والی اس نئی نسل کو میں کیسے قائل کروں کہ تم تعلیم حاصل کرو‘تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے‘کیسے قائل کروں کیونکہ میری نسل یہ بات جان چکی کہ تعلیم سے آپ کوتو کامیابی نہیں ملے گی مگر قانون کی دھجیاں اڑانے والے‘طاقت ور والدین کے بچے تعلیم کے بغیر بھی کامیابی کی کنجی حاصل کر چکے۔2021 کا نوجوان ایم فل کی ڈگری ہاتھ میں لے کر بھی دہی بھلوں کی ریڑھی لگا رہا ہے جب کہ میرے ملک کے سیاسی پیشوا ؤں کے بچے یا تو آکسفرڈ سے تعلیم پاتے ہیں یا پھراپنے باپوں کی طرح جعلی ڈگریاں لے کر عہدوں پر ترقی پاتے ہیں۔جس ملک میں چوکیدار سے لے کر اعلیٰ سرکاری افسر تک کرپشن کو تحفظ دینے لگ جائے‘اس ملک کی نئی نسل کو کوئی قائل نہیں کر سکتا کہ قائد اعظم کے چودہ نکات میں ”باجا بجانا“شامل نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں یہ کالم لکھتے ہوئے انتہائی دکھ کی کیفیت میں ہوں‘میں تاریخ و ادب کا طالب علم ہوں‘میں آئے روز اس سسٹم کی درجنوں خامیوں کو دیکھتا ہوں‘لکھتا ہوں اور آگہی کے عذاب سے گزرتا ہوں۔یہ کالم لکھنے کے بعد یہی سوچ رہا ہوں کہ میرے”محب وطن“دوست اور قاری مجھے ایک غدار سمجھیں گے‘سب یہی کہیں گے کہ کالم نویس کو صرف سسٹم کی خامیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں‘خوبیاں بھی تو بے تحاشا ہیں۔یقین جانیں مجھے یہ ماننے میں ذرا تامل نہیں کہ اس ملک نے مجھے بہت عزت اور محبت دی‘مجھے نام اور وقار دیا مجھے جب اس سسٹم کو اتنے ناتواں اور کمزور ہوتا دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بطور استادجب کلاس روم میں اپنے بچوں کو”جمہوری پاکستان“کی تعریف سمجھا نہیں پاتا تو اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں‘آج کی نسل کس قدر تیز ہے‘سب جانتے ہیں لہٰذا آج کے نوجوان کو ”جمہوری نعرے باز“کسی بھی طرح کا ”جمہوری لالی پاپ“نہیں دے سکتے۔ 14 اگست 201 21کو 74 واں یوم آزادی مناتی‘باجے بجاتی یہ نئی نسل اس سسٹم کی تباہ کاریوں سے بخوبی واقف ہو چکی سو ایک ہی حل ہے کہ اداروں کو جمہوری طرز پہ چلنے دیا جائے‘طاقت ور چاہے کسی بھی ادارے‘شعبے یا پارٹی میں ہو اسے سرعام سزا دی جائے‘تعلیمی یافتہ نئی نسل کو اپنے عمل سے یہ باور کروایا جائے کہ تعلیمی ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply