• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہالنیڈ میں نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری کی ضرورت نہیں

ہالنیڈ میں نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری کی ضرورت نہیں

نیدر لینڈ کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں آٹھ لاکھ مسلمانوں کی سرگرمیوں کے مدِ نظر ان کی چھان بین کرے گی تاکہ بنیاد پرست اور دہشت گرد مسلمانوں کا سراغ لگا کر ان کی سرگرمیوں کا تدارک کیا جاسکے ۔یہ فیصلہ ڈچ حکومت میں اعلی سطح پر کیا گیا جس کے پس منظر میں مسلمانوں کا عقیدہ ،بنیاد پرستی اور مذہبی سرگرمیاں شامل ہیں ۔
ڈچ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے مسلمانوں کے عقائد کے بارے میں سروے کے اس مطالبے سے انسانی گروپوں اور سوشل اداروں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی ہے ۔حکومت کی طرف سے ہونے والی چھان بین ،تحقیقات اور کڑی نگرانی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہالینڈ کی مساجد اور دوسرے مذہبی اداروں میں متعین اماموں ،سربراہوں اور مختلف انجمنوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہے کہ انہیں مالی عطیہ اور دوسری شکلوں میں رقوم کی فراہمی کہاں سے ہورہی ہے۔اور کون ایسے افراد ہیں جو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے قانون کی زد میں آسکتے ہیں ۔
نیدر لینڈ (ہالینڈ دراصل اس کے ایک صوبے کا نام ہے )براعظم یورپ کے شمال جنوب میں واقع ہے۔جو کہ نارتھ سی سے منسلک ہے جس کے اس پار انگلستان واقع ہے ۔
میرے حساب سے اگر رات کو ایمسٹر ڈیم کی کسی بلند ترین عمارت پر کھڑے ہوکر نارتھ سی کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو لندن کی بتیاں چلتی نظر آتی ہیں ۔ہالینڈ کی مشرقی سرحد جرمنی کو چھوتے ہوئے جنوب تک پہنچتے پہنچتے بیلجیئم سے جا ملتی ہے۔یہ ملک خطہ زمین کے ایسے مجموعے پر مشتمل ہے جو سطح سمندر سے 36 فٹ نشیب میں پھیلا ہوا ہے ۔
یہ تو تھا ہالینڈ کا مختصر سا محلِ وقوع۔۔۔ لیکن بات ہورہی تھی سیاست کی ۔۔دہشت گردی کی،بنیاد پرستی کی اور حکومتی چھان بین کی ۔۔۔۔ تمام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی امیگریشن مخالف پم فورٹن کی پارٹی نے اس خوبصورت ،روادار اور سیکولر ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک لہر سی دوڑا دی ہے ۔مگر اس میں قصور مسلمانوں کا بھی ہے کہ وہ عرصہ دراز تک مغربی معاشرے میں ہرنے کے باوجود اپنے اپنے ماحول کے خول سے نکل نہیں سکے ۔کیوں نہیں نکل سکے ؟
یہ ایک الگ اور طویل بحث ہے ،جس میں ننانوے فیصد قصور اسلامی ملکوں سے بالخصوص تیسری دنیا سے ہجرت کرکے آنے والوں کا ہے ۔
حال ہی میں ایک بار پھر ہالینڈ کی مساجد کے اماموں کے رویے اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک ڈچ ٹی وی چینل نے پروگرام پیش کیا جس میں عام لوگوں کے ذہن سے محو ہوتے اس سلگتے مسئلے نے پھر سر اٹھالیا ۔دائیں بازو کا نقطہ نظر رکھنے والے افراد اور سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے کہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے حوالے سے تحقیقات اور چھان بین ضرور ہونی چاہیے اور اگر ہماری روایتی آزادی پر کچھ قدغن لگائی جائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
اس انتہا پسندی کی ایک وجہ یہ بھی قرار دی جارہی ہے کہ حکومت کے کچھ خفیہ اداروں اور حساس انجمنوں نے آدھی درجن سے زائد مساجد کے اماموں اور مذہبی راہنماؤں کے خطبے اور تقاریر ٹیپ کی تھیں جن میں مسلمانوں سے “بنیاد پرست”بننے کی اپیل کی گئی تھی اور مذہبی فریضہ کے ساتھ جنت کی بشارت کی نوید بھی دی گئی تھی ۔ان آڈیو ٹیپ کی خبر منظرِ عام پر آنے سے ڈچ آبادی کافی برہم ہے۔آڈیو کے دوران ویڈیو ٹیپ میں ایک مراکشی امام کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ے کہ خدا جلد ظالم ٹرمپ اور اس کے نائب “نیتن یاہو” کو دنیا سے اٹھا لے گا۔اور مسلمانوں کی دعائیں جلد قبول ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایک حالیہ انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں ہونے والے القائدہ ،داعش کے ظالموں کے بعد وہ دہشت گرد ہالینڈ میں داخل ہوگئے یں ۔ادھر یو این او کے ہیڈ آفس نیویارک کو دہشت گرد تنظیموں کے ذمہ داروں نے ایک خط لکھا ہے جس میں یہ دھمکیاں دی گئی ہیں کہ عالمی مارکیٹ کو ہینگ اور وسری بین الاقوامی تنظیموں پر حملے کیے جائیں گے ۔جس کی وجہ سے ڈچ حکومت نے سکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کردیا ہے ۔گزشتہ دنوں ایک اسلام تنظیم کے کچھ ایسے اراکین کو بھی پکڑا گیا ہے آج ہالینڈ میں مقیم نوجوان مسلمانوں کو افغانی اور مشرقِ وسطی کے دوسرے ملکوں میں مغرب کے خلاف حملوں کے لیے بھرتی کرتے تھے ۔میرے حساب سے ہو سکتا ہے کہ ہالینڈ کی حکومت اور ایجنسیوں کے مذکورہ اعتراضات کسی حد تک صحیح ہوں ۔
اگر یہ سچ ہے تو مسجد کے اماموں اور مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ جذباتی نہ بنیں اور ڈچ سیاست میں دخل اندازی سے پرہیز کریں ۔فلسطینیوں پر اسرائیل ،چیچنیا پر روس اور شام اور افغانستان پر امریکی مظالم کے پس منظر میں اپنی مساجد کی پالیسی بنائیں کہ ہر ملک کے سیاسی اور سماجی حالات مختلف ہوتے ہیں کہ کوئی حکومت بالخصوص مغربی حکومتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے اس کے باشندے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو کر انہیں امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں کہ ہر حکومت امن ہی میں ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے۔
نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری لگانے کا وقت یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ زمانہ ہوش کا ہے جوش کا نہیں ۔
ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں میں ایک قابل لحاظ تعداد پاکستانی و بھارتی مسلمانوں کی بھی ہے ۔اور میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مجھے امید کامل ہے کہ وہ انتہا پسند مسلمانوں ،بنیاد پرست اماموں اور کسی بھی حوالے سے دہشت گردی کے نظریات رکھنے والے مسلمانوں کا ساتھ نہ دے کر اور وسیع النظر سے کام لے کر ڈچ عوام اور ڈچ حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کریں گے کہ بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کے ڈنڈۓ بلآخر دہشت گردی کے ساتھ جاملتے ہیں ۔
عمر رفتہ کے ہر ایک طاق جلتا ہے دیا
تم سےملنے کا،بچھڑنے کا،سنبھل جانے کا

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply