ہم پیچھے کیوں ؟۔۔۔بلال حسن

ایک زمانہ تھا جب ہمارا نوجوان اتنا قابل تھا کہ ایک نئی وجود میں آنے والی سلطنت یعنی سلطنت پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے سرگرداں تھا۔ کل کا نوجوان اس مملکت کی اہمیت سمجھتا تھا اس مٹی سے محبت کرتا تھا اور دل و جاں کی بازی لگانے کو تیار تھا۔

کل سے مراد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کے ابتدائی سال ہیں۔اس وقت ہر ایک شہری پاکستان کی خاطر دن رات محنت کہ نہ صرف دعوے کرتا تھا بلکہ محنت کر کے بھی دکھاتا تھا۔کل کے نوجوانوں میں عزم تھا حوصلہ تھا اور پاکستان سے محبت اتنی تھی کہ اسکو چھوڑنے کا سوچنا بھی گوارہ نہ کرتا تھا۔مگر افسوس کہ ساتھ آج کا تقریبا ہر ایک نوجوان کل کے نوجوان سے یکسر مختلف ہے۔اگر بات کی جائے آج کے نوجوانوں کی تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید آج کا نوجوان پاکستان سے اتنی محبت نہیں کرتا جتنی کل کرتا تھا۔

آج کا ہر ایک نوجوان اپنے اچھے مستقبل کے خواب یا تو امریکہ میں دیکھتا ہے یا لندن میں۔آج کا نوجوان محنت کش نہیں آج کا نوجوان کم سے کم کام اور کم سے کم محنت کرنا چاہتا ہے۔ہمارے بحیثیت قوم پوری دنیا سے پیچھے ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہماری ملک کی جانب عدم توجہی ہے۔ہم خود کے مستقبل اور خود کے لئے اتنا سوچتے ہیں کہ ہمیں ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔آج کا ہر نوجوان ڈاکٹر انجینئر ایکٹر یا اس طرح کی دیگر شعبہ زندگی سے مستقبل میں منسلک ہونا چاہتا ہے۔آج کے نوجوانوں سے اگر ملکی حالات و سیاسیات پر بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ آدھے لوگ تو اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتے اور جو آدھے ان سب سے لگاو رکھتے ہیں انکا بھی خود کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔یا تو وہ ان سیاسی ایجنڈوں کی تائید کرتے
نظر آئیں گے جن کو انکا خاندان سپورٹ کرتا آیا ہے یا پھر ماڈرن بننے کہ کیلئے اس کو سپورٹ کرتے نظر آیئنگے جو ہر طرف چھایا ہوا ہوگا۔نہ ہی انکو اس جماعت کی تاریخ کا علم ہوگا اور نہ ہی اس کے لیڈر کی تاریخ سے واقف ہونگے۔

سیاست ایک گندی چیز ہے یہ بول کر سب اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور ملک میں ہر 5 سال بعد ووٹ دے کر اپنے شہری ہونے کی تمام ذمےداری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔مگر بہت کم نوجوان سیاست کو مستقبل بنا کر آگے اس عزم سے چلتے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلیں گے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ وہ چند نوجوان بھی جب سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ بھی اپنے مقاصد بھول جاتے ہیں۔آج کے نوجوانوں کا بڑا حصہ یہ کہہ کر ملک چھوڑ دیتا ہے کہ یہاں نوکری نہیں ملتی ۔ باہر عیش سے رہیں گے۔ مگر افسوس کوئی بھی اس دور میں اس قوم کی حالت بدلنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔

ہر شخص خود پرستی کا شکار ہے ۔ جہاں کسی کو اپنے پڑوسیوں کا حال۔پوچھنے کی بھی فرصت نہیں ۔آج کوئی بھی اس قوم کی حالت بدلنے پر آمادہ نہیں ۔ کوئی اس ملک میں رہ کر یہاں کی ستم ظریفیاں سہہ کر ان مشکلات کا حل نکالنے کا نہیں سوچتا۔کل کا نوجوان نیا ملک بنانے کی سوچتا تھا اپنی قوم کی حالت بدلنے کے لیے مگر آج کا نوجوان بنےبنائے ملک کا نظام بھی ٹھیک کرنے کی نہیں سوچتا۔یہیں سے ہوتی ہے قوم کی بربادی کی شروعات۔ جب ملک کے شہری مفاد پرست بن جائیں اور ملک و قوم کے بجائے صرف اپنا سوچیں تو یہیں سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔آج کے لوگ ٹریفک سگنل پر پولیس کی غیر موجودگی،میں سگنل توڑنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔

ہم سیاست دانوں پر ثابت ہونے والی کرپشن کی خوب مذمت کرتے ہیں اور خوب لعن طعن کرتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے اپنے گریباں میں جھانکا؟
کیا پولیس کو رشوت دے کر چالان نہ کٹوانے والے ہم نہیں؟
کیا گورنمنٹ کے ہر ادارے میں ہم رشوت نہیں دیتے؟
کیا ہم کنڈا نہیں لگاتے؟
جہاں اس قوم کو موقع  ملا وہاں اس قوم نے بھی بھرپور کرپشن کی ہے۔۔ہم بحیثیت قوم انتہائی خود پرست ہو چکے ہیں اور اسی خود پرستی کا خمیازہ ہے پاکستان کے موجودہ حالات۔ہمیں کل تک ایک لیڈر کی ایک رہبر کی ایک رہنما کی ضرورت تھی جو ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کی شکل میں ملا مگر اب ہمیں لیڈر کی نہیں بلکہ ایک قوم کی ضرورت ہے۔ایسی قوم جو اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر اس ملک کی خاطر سوچے۔ ہمیں ایسے مستقبل کے معماروں کی ضرورت ہے جو اپنے جوش خطابت سے اور لہو گرما دینے والی آوازوں سے اور آسماں سے بھی اونچی سوچ سے اس قوم کو جگائے اور اس قوم کو متحد کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ہمیں اس قوم کو اس ملک کی خاطر سوچنے کی تعلیم دینی ہے۔ہمیں اگر دنیا میں خود کو منوانا ہے تو اس کے لئے قربانی دینی ہے جدوجہد کرنی ہے پاکستان کو آگے لیجانا صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ذمےداری نہیں بلکہ بحیثیت قوم ہمیں بھی اس ملک کی خاطر آگے بڑھنا ہوگا اور اپنی محنت سے اس کی اہمیت پھر سے دنیا میں اجاگر کرنا ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply