ماضی کے کائناتی دریچے۔۔۔۔ محمد شاہ زیب صدیقی

کائنات کو کھوجنا ایک ایسی exerciseہے جو انسانی سوچ کی بندشوں کو کھولتی ہے، یہی وجہ ہے کائنات کی سیر پہ نکلا ہوا شخص اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے،اس کے لئے زمینی مشکلات کی وقعت ختم ہوجاتی ہے، نہیں یقین تو اس منفرد احساس میں کھونے کے لئے ایک بار کوشش ضرور کیجئے،آپ کو آسمان رنگین اور دُنیا بے رنگ دِکھنا شروع ہوجائے گی….ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً 14 ارب سال پہلے بگ بینگ نامی ایک واقعے سے ہوئی ، اس واقعے کے بعد ہماری کائنات اندازاً 3 لاکھ 80 ہزار سال تک اندھیروں اور گھنے بادلوں میں ڈوبی رہی، آہستہ آہستہ کائنات کے پھیلنے کے باعث یہ بادل ہلکے ہونا شروع ہوگئے اور کائنات شفاف ہوئی،جس کے بعد کائنات کے کہیں کسی گوشے میں ان بادلوں کے باعث ایک ستارہ بنا جس نے کائنات میں نئے عہد کی نوید سُنائی اس کے بعد سے آج تک ستارے بنتے آرہے ہیں اور مٹتے جارہے ہیں۔

بگ بینگ سے متعلق تحریر کا لنک

https://www.mukaalma.com/13924

علم کے حصول کا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج نسل انسانی جانتی ہے کہ ہماری کائنات میں 2 کھرب کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں تقریباً 400 ارب ستاروں پہ مشتمل ہے،کئی کہکشائیں اس سے بھی زیادہ ستاروں بھی مشتمل ہیں، لیکن یہ علم حتمی نہیں آنے والے وقت میں کہکشاؤں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے…. کہکشاں سےمراد ستاروں کا گروپ ہوتا ہے، اربوں ستارے مل جائیں تو کہکشاں بناتے ہیں، ایسے ہی کہکشائیں مل کر لوکل گروپ بناتی ہیں،ہمارے لوکل گروپ میں 54 کہکشائیں موجود ہیں،اور ایسے ہی کئی لوکل گروپس ملکر کلسٹر بناتے ہیں،ہم جس کلسٹر کا حصہ ہیں اسے وِرگو کہا جاتا ہے اس میں سو سے زائد لوکل گروپس موجود ہیں،چھوٹے چھوٹے کلسٹرز ملکر سپر کلسٹر بناتے ہیں، ہمارے سپر کلسٹر کا نام Laniakea Super cluster ہے ، Laniakea سپر کلسٹر کا سائز تقریباً 52 کروڑ نوری سال ہے…. لوکل گروپ، کلسٹر، سپر کلسٹریہ سب کیا ہوتے ہیں؟مزید تفصیل کے لئے آپ مضمون کے آخر میں لنک کا مطالعہ کرسکتے ہیں….

پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ یہ کلسٹر اور سپر کلسٹر کائنات بننے کے بہت بعد میں بنے کیونکہ ان میں کھربوں کے حساب سے ستارے موجود ہوتے ہیں اورکائنات کے اولین وقت میں ستاروں کی تعداد کم تھی لیکن اب ماہرین فلکیات نے 11 ارب 40 کروڑ نوری سال دور ایک عظیم کلسٹر دیکھا ہے جسے Hyperion Proto-cluster نام دیا ہے

یہ دس ہزار کہکشاؤں پہ مشتمل ہے اور کروڑوں نوری سال کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے،یوں اس کا شمار اب تک دریافت ہونے والےعظیم ترین کلسٹرز میں ہونا شروع ہوگیا ہے،اس تحقیق کی اہمیت اس وجہ سےزیادہ بڑھ جاتی ہے کہ عظیم کلسٹرز اب تک قریبی علاقوں سے دیکھنے کو ملے ہیں یہ پہلی بار ہے جب کائنات کے دُور دراز کناروں سے کوئی دیوہیکل کلسٹر دیکھنے کو ملا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کائنات نے پیدائش کچھ عرصے بعد ہی عظیم کلسٹرزبنانا شروع کردئیےتھے، اسی وجہ سے اس کلسٹر کی مدد سے کائنات کے اولین دور کے بارے میں خبریں بھی ہمیں ملنے کی توقع ہےکیونکہ یہ کلسٹر کائنات کی تخلیق کے محض 2.4 ارب سال بعد وجود میں آگیا تھا اور ابھی ہم اس کی جو حالت دیکھ رہے ہیں دراصل وہ اُسی وقت کی ہی ہےجب ہماری کائنات نومولود تھی،یعنی 11.4 ارب سال پہلے چلنے والی روشنی اب ہم تک پہنچ رہی ہے،اس کلسٹر میں کہکشائیں بپھری ہوئی ہیں یعنی کہیں بہت زیادہ ہیں کہیں بہت کم ہیں، سائنسدان پُرجوش ہیں کہ اس کے ذریعے ہمیں کائنات کے بچپن کے متعلق آگاہی ملنے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مظاہر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لوکل گروپ، کلسٹر اور سپر کلسٹرز کے متعلق تفصیلی مضمون کا لنک:

کائنات کا سفر ۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کلسٹر یہ بھی بتانے میں مدد کرسکتا ہے کہ انفجارِ عظیم (بیگ بینگ) نظریہ کس حد تک درست ہے کیونکہ آج تک تمام مشاہدات بیگ بینگ نظریے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔سائنس کہتی ہے کہ موجودہ علم کے مطابق ہم ماضی میں نہیں جاسکتے مگر ٹیلی سکوپ کو استعمال کرتے ہوئے کائناتی دریچوں کے ذریعے ماضی میں جھانکا ضرور جاسکتا ہے،بلکہ “ماضی” کو”Live”دیکھا بھی جاسکتا ہے، ہمارا آسمان دراصل ماضی ہی ہے آج یہ Hyperion کلسٹر موجود نہیں ہے بلکہ اربوں سال پہلے ہی کائناتی سمندر میں تحلیل ہوکر ختم ہوچکا ہوگا مگر چونکہ اس کی روشنی ہم تک اب پہنچ رہی ہے لہٰذا ہمارے لئے یہ اب بھی زندہ ہی ہے ۔کائنات حیرتوں کا سمندر ہے، انسان ہزاروں سال سے اس کو جاننے کی جستجو میں لگا ہوا ہےاور ابھی بھی ورطہ حیرت میں ڈُوبا ہوا ہے،کائنات کو جانیے اس سے ناطہ جوڑیے زندگی آسان لگے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply