نقل مکانی سے جلاوطنی کی کہانی۔۔۔۔۔سہیل احمد لون

زندگی بڑی بے رحم اورتلخ حقیقت ہے ٗ ایسے ایسے نا قابل ِ یقین واقعات سے اٹی پڑی ہے کہ بتانے اورسوچنے والے حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ریاض علی فرینک فورٹ سے لندن بذریعہ برٹش ائیر ویز محو پرواز تھا۔ ریاض گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے جرمنی مقیم تھااوراس دوران اس نے یورپ کے کئی ممالک کے علاوہ برطانیہ کی بھی سیر کی تھی۔ دوران سفر وہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر سے دوستی کرکے وقت گزارنے کا عادی تھا۔ آج اس کا دل کسی سے بات کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا، ماضی میں جیسے ہی جہاز ٹیک آف کرکے اپنی پرواز ہموار کرتا تووہ اپنی سیٹ بیلٹ کھول کر ساتھ والی نشست پر بیٹھے مسافر سے ہم کلام ہو جاتا۔ سفر میں دوست بنانا اس کا مشغلہ بن چکا تھاٗ رخصت ہونے سے قبل بعض اوقات نوبت یہاں تک آجاتی کہ فون نمبر، گھر کا پتہ یا ای میل ایڈریس کا تبادلہ بھی ہوجاتا۔ اگر ساتھ والی نشست خالی ہوتی تو ائیر ہوسٹس اور مسافروں کی رضامندی سے وہ نشست بھی تبدیل کر لیتا۔ آج جب وہ اپنی نشست پر بیٹھا تو اس کے ساتھ بیٹھے بوڑھے مسافر کو سیٹ بیلٹ باندھنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔اسے دیکھ کر ریاض نے فوراً اس کی مدد کی، جس پر ساتھ والے مسافر نے اس کا شکریہ ادا کیا۔

ریاض کو پینتیس برس قبل کا وہ زمانہ یاد آگیا جب وہ پہلی بار لاہور ائیر پورٹ سے الوداع کیا گیا تھا،جہاز کو کبھی قریب سے نہیں دیکھا تھا سوجہاز  کا اس کے ذہن میں ایک عجیب سا تصور تھا۔ آج اگر کوئی جہاز میں نہ بھی بیٹھا ہو مگر ذرائع ابلاغ کی بدولت اسے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جہاز میں کیسے سفر کیا جاتا ہے۔ ریاض کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے بزرگ نے اس کی طرف دیکھا تو ریاض نے قصداً جمائی لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسے نیند آرہی ہے حالانکہ نیند اور چین سے اس کی دوستی ختم ہوئے مدت ہوگئی تھی۔ آج کیوں وہ دوران سفرکسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ساتھ بیٹھے بزرگ نے بھی ریاض کو ہاتھ کے اشارے سے میٹھی نیند کے مزے لینے کا کہہ دیا۔ ریاض نے آنکھیں بند کرلیں لیکن دل اسے ماضی اور دماغ مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے باریش بزرگ نے جیسے ہاتھ کے اشارے سے مسکراتے ہوئے سو نے کے لیے کہا تھا بالکل اسی انداز سے ریاض کے والد فیاض مرحوم بھی اسے بچپن میں سونے کے لیے کہا کرتے تھے۔ ریاض تین بہنوں کا اکلوتا اور چھوٹا بھائی تھا، ماں باپ اور بہنوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ ریاض کے والد گاؤں میں کھیتی باری کرتے تھے، اپنے گاؤں اور کام سے تو وہ بہت خوش تھے مگر زمین کے معمولی تنازعات اور نسل در نسل خاندانی دشمنی کی وجہ سے پریشان بھی رہتے تھے۔ اللہ تعالی نے اتنی مدت بعد انہیں جائیداد کا وارث عطا فرمایا تو انہوں نے وراثت سے زیادہ وراث کو ترجیح دی۔اپنی زمین چچا زاد بھائیوں کے حوالے کر دی۔ گھر بھی معمولی سی رقم کے عوض بیچ کر چند پیسے جیب میں ڈالے، لاہور میں زندگی نئے سرے سے شروع کی جس کا مقصد اپنے بچوں کا بہتر مستقبل تھا۔

زندگی کے نشیب و فریب سے گزر تے ہوئے ریاض جوانی اور اس کے والد بڑھاپے میں قدم رکھ رہے تھے۔ شہر میں آکر انہوں نے بچوں کو اپنی حیثیت کے مطابق تعلیم تو دلوا دی تھے مگر چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے جوان لڑکیوں کے رشتے بمعہ جہیز ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا تھاجسے ریاض نے بھی محسوس کیا۔ ایک دن ریاض نے اپنے باپ کو کہا کہ اس کا دوست جرمنی جا رہا ہے اگر آپ بھی مجھے اس کے ساتھ باہر بھیج دیں تو ہمارے معاشی مسئلوں کا حل نکل سکتا ہے۔ ماں باپ کسی بھی صورت اپنے گوشہ جگر کو پردیس بھیجنے کو تیار نہ تھے مگر ریاض کے پاکیزہ مقصد اور ضد کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اسے جرمنی بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ماں نے اپنے زیور بیچے اور بچیوں کی شادی کے لیے جمع رقم اسکے باہر جانے میں خرچ ہوگئی۔

ریاض جرمنی پہنچ گیا جہاں اس نے دن رات ایک کرکے محنت کی، تینوں بہنوں کی شادی میں امیگریشن کی پابندیوں کی وجہ سے شرکت تو نہ کر سکا مگر جرمنی سے بھیجی گئی رقم سے تمام کام خوش اسلوبی سے ہوئے۔ آخر کار وہ دن بھی آگیا جب ریاض کو جرمنی کی شہریت مل گئی اب وہ آزادی سے اپنی ماں اور دھرتی ماں کے دیدار کے لیے آسکتا تھا۔ گیارہ برس بعد ریاض پہلی بار پاکستان گیا تو اس کے ماں باپ اسے دولہے کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ریاض نے بتایا کہ اس کی چھٹی تو تین ہفتوں کی ہے اتنی جلدی سب کیسے ہوگا؟ شاید وہ ذہنی طور تیار بھی نہ تھا مگرجب ماں نے بتایا کہ اس کے باپ کو کینسر ہے اور وہ چند ہفتوں کا مہمان ہے تو ریاض کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ پردیس میں وہ پریشان نہ ہو اس لیے باپ کی بیماری کی خبر اسے نہ دی گئی۔ ماں باپ کی خواہش کے آگے ریاض نے سر تسلیم خم کر لیا اور ایک ہفتے میں شادی بھی ہوگئی۔ نئی دلہن کو اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑتے ہوئے ان کی خدمت کرنے کی تلقین کی۔

جرمنی پہنچ کر ابھی یادوں کے آئینے پر وقت کی دھول بھی نہیں جمی تھی کہ اسے باپ کے انتقال کی خبر ملی۔ پہلی فلائٹ سے وہ لاہور پہنچا جہاں باپ کا جنازہ اس کے انتظار میں رکھا ہوا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد ریاض نے سال میں ایک بار پاکستان کا چکر لگانا شروع کر دیا۔اس کے دو بیٹے بھی پیدا ہوئے، وہ بڑا خوش قسمت تھا کہ اس کی ماں اور بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہوا تھا۔ سب خوش و خرم رہتے تھے، گھر میں پیسے کر فراوانی اور مرد کی غیر موجودگی سے ریاض کے بیٹے بگڑتے جا رہے تھے۔ ریاض کی والدہ کا ر کے حادثے میں جان بحق ہو گئیں تو ریاض نے اپنے بیوی بچوں کو جرمنی بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ پردیس میں ایک طویل عر صہ اپنوں کے لیے اکیلے گزار نا ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔ فیملی کو جرمنی کا ویزا ملا تو ریاض نے دل کھول کر شاپنگ کی، اکیلے رہتے ہوئے اس نے کبھی گھر کی تزین و آرائش کا کوئی خیال نہیں رکھا تھا۔

بیوی بچوں کے آنے سے قبل پہلی بار اس نے گھر میں نیا فرنیچر اور بڑی گاڑی خریدی۔جس گھر کا دروازہ وہ ہمیشہ چابی سے کھولتا اورجو چیز جہاں چھوڑ کر گیا ہوتا وہیں پڑی ملتی۔ اب کام کے بعد گھر آنے پر دروازے پر گھنٹی بجانے میں اُسے اتنا ہی مزہ آتا جتنا کسی برہمن کو مندر کی گھنٹی بجا کر، گھر داخل ہوتا تو ہر چیز قرینے سے پڑی ہوتی۔ چھٹی والے دن گھر کی صفائیاں، کپڑے دھوکر استری کرنا، دو تین کھانے بناکر فریج میں رکھنا تاکہ ہفتے کے باقی دنوں میں کام پر جاتے ہوئے لنچ بکس بنا نے میں آسانی ہو،اب گھر پہنچ کر کوئی کام ہی نہیں۔چھٹی والے دن پکنک پر جانا، کبھی کسی فیملی والے کے گھر جانا یا ان کو اپنے گھر بلا کر دعوت کرنا۔ پردیس میں فیملی والوں کے ساتھ مراسم اکثر وہی رکھتے ہیں جن کی فیملی ساتھ ہو۔ چھڑے تو چھڑوں کے ساتھ ہی میل ملاپ رکھتے ہیں۔ بچوں کو آتے ہی سکول داخل کروایاجہاں سب سے پہلے ڈوئچ زبان سکھانی شروع کی۔ بیوی بھی جرمن زبان سیکھنا چاہتی تھی ریاض نے اسے بھی فوراً سکول داخل کروا دیا۔

میں بڑا خوش تھا کہ زندگی کی گاڑی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہے مگر چند ہی دن میں سکون کے ٹائروں سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی۔ بیوی بچوں کو تو اس نے سکول پڑھنے کے لیے بھیجا تھا مگر انہوں نے اسے ہی پڑھنے ڈال دیا۔ بیوی بچے اسے بات بات پر اپنے حقوق اور اسکے فرائض کے بارے میں بتاتے۔چند ہی دنوں میں لب و لہجے کے ساتھ ساتھ ان کے لباس میں بھی فرق آگیا۔ وہ ایک دن کام سے ذرا جلدی آگیا گھر جانے کو دل نہ کیا پریشانی کے عالم میں اسی پارک میں بیٹھ گیا جہاں کبھی وہ اکیلے رہتے ہوئے تازہ ہوا کے لیے آتا تھا۔ وہاں اپنی دونوں بیٹوں کو اوباش لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے دیکھا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو پکڑ کر گھر لانے کی کوشش کی مگر وہ شراب کے نشے میں اپنے باپ کو برا بھلا کہنے لگے۔ جس پر ریاض کو غصہ آگیا اس نے اپنے بیٹوں کو ڈانٹا اور زبردستی گھر لے جانے کی کوشش کی۔

اسی اثناء میں کسی نے پولیس کو فون کردیا، چند سیکنڈ بعد پولیس کی گاڑیاں وہاں آگئیں۔ریاض کے بیٹوں نے اپنے باپ کے خلاف پولیس کو شکایت لگائی جبکہ وہاں موجود تمام لڑکوں اور لڑکیوں نے بھی اس بات کی گواہی دی کہ ریاض اپنے بیٹوں پر تشدد کررہا تھا۔ جلتی میں تیل ڈالنے کے لیے وہاں دو راہگیر بھی شہادتی بن گئے۔ معاملہ عدالت تک گیا جہاں ریاض کی بیوی نے بھی اپنے شوہر پر الزام عائد کیا کہ اس کی آزادی سلب کی گئی ہے اس پر بے جا پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ جج نے سزا کے طور پر ریاض کو گھر سے نکال دیا اور تین ماہ تک اسے ماہر نفسیات کے پاس جانے کا کہا۔ اس کے بعد بیوی بچوں کے ساتھ ملاپ اس کے معالج یعنی ماہر نفسیات اور بیوی بچوں کے فیصلے پر مشروط تھا۔ یہ تین ماہ ریاض کے لیے ان تین دہائیوں سے بد تر تھے جو اس نے اکیلے گزارے تھے۔ بیوی بچوں کے جبر کا جواب ریاض نے صبر سے دیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے معالج اور بیوی بچوں کے بیانات کی روشنی میں ریاض کو دوبارہ اپنے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ ریاض نے اپنے بیوی بچوں کو ان کی خواہش کے مطابق کھلی آزادی دی اور عیاشی کروائی۔جب بیوی بچوں کو یہ یقین آگیا کہ ریاض کی حیثیت نوٹ نکالنے والی مشین سے زیادہ نہیں تو ریاض نے ان کو پاکستان چھٹیاں منانے کا کہا۔ سب فوری راضی ہوگئے، ریاض اپنے بیوی بچوں کو لے کر پاکستان آگیا۔

ابھی پاکستان گئے ہوئے چار دن ہی گزرے تھے، ریاض اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھا پرانی یادیں تازہ کر رہا تھا کہ اس کی بیوی کا فون آگیا کہ اس کے بچوں کو پولیس نے حوالات میں بند کر دیا ہے۔ ریاض اپنی بہنوں سے معذرت کرکے اپنے سسرال جاتا ہے جہاں اس کی بیوی پریشانی کے عالم میں اس کا انتظار کررہی تھی۔ ساری بات سن کر وہ اسے تسلی دیتا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت ریاض الماری سے چھوٹا ہینڈ بیگ پکڑ لیتا ہے جس میں فارن کرنسی اور سب کے پاسپورٹ تھے۔ تھانے کے ایس ایچ او سے ریاض اکیلے میں ملاقات کرتا ہے، روپوں میں رشوت لینے والے ہاتھوں پر جب ریاض نے کرکراتے ہوئے یورو رکھے تو ایس ایچ او نے کہا ……آپ حکم دیں جناب! ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ ریاض نے جواب دیا کہ ان پر ایسے الزامات لگاؤ کہ یہ باہر نہ آسکیں۔ تھانے سے نکلتے ہوئے اس کے منہ پر ایک عجیب سی فاتحانہ مسکراہٹ تھی، بیوی بچوں کے پاسپورٹ جلا کر وہ اسی دن بغیر بتائے جرمنی واپس چلا گیا۔ بیوی کوطلاق کا نوٹس پاکستان سے ہی بھجوا دیا تھا۔ جرمنی پہنچ کر اداروں کو اپنی علیحدگی اور طلاق کا بتا دیا۔بیوی بچوں کا ویزا ابھی (indefinite) لامتناہی مدت کا نہیں ملا تھا۔ اس لیے ریاض کو یقین تھا کہ اگر بیٹے حوالات یا جیل سے باہر آ بھی گئے تو ملک سے باہر نہیں آسکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جرمنی پہنچ کر اسے گھر کا تالہ کھولتے ہوئے کافی تکلیف ہوئی، اب پھر ہر چیز اسی حالت میں پڑی ہوگی جہاں وہ چھوڑکرجائے گا کیونکہ چیزیں بدلتی نہیں ……انسان ہی بدل جاتا ہے۔ اب ریاض نے جرمنی چھوڑ کر برطانیہ جا کر آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جہاں وہ باقی ماندہ زندگی نئے سرے سے شروع کرسکے۔ جہاز کی لینڈنگ سے ایک جھٹکا لگا جس سے ریاض کی سوچ کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔ جہاز لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر ٹیکسی کر رہا تھا، ساتھ والے مسافر نے مسکرا کر ریاض کی طرف دیکھا جس کا جواب ریاض نے اس کی سیٹ بیلٹ کھول کر دیا۔جب زندگی کا شریک سفر اور حقیقی وارث ہی وارث نہ بنیں تو ایسے میں دوران سفر دوستی سے لاوارثی ہی بہتر……! ائیر پورٹ سے نکل کر ریاض نے ٹیکسی نہیں لی بلکہ لوکل بس کا انتخاب کیا کیونکہ بس ڈرائیور یہ نہیں پوچھتا کہ کہاں جا نا ہے؟ جب تک ریاض نقل مکانی کرتا رہا تھا اسے منزل کا پتہ ہوتا تھا مگر آج شاید پہلی بار اپنوں سے بچھڑ کر کوئی آشیانہ تلاش کرنے جارہا ہے جس کا فیصلہ ابھی تک وہ کر نہیں پایا……!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply