الف سے اللہ۔۔۔۔عائشہ یاسین

بولو بیٹا ۔۔۔الف۔۔۔الف سے  انار۔۔۔۔۔
جب  کانوں میں  الف نام کی آواز آتی ہے تو قدرتی طور پر ذہن میں  الف سے  انار ہی آتا ہے۔  ایسا آخر کیوں کر ہے؟
یہ کون سا mechanism ہے جو بچپن کے نا پختہ  ذہن میں feed ہوچکا ہے۔ جو ہر recall پر بغیر کسی تاخیر اپنا جواب ذہن میں ٹرانسفر کر دیتا ہے اگر سوچا جائے تو بات بڑی سادہ سی ہے۔پر اس کا اثر بلا شبہ بڑا گہرہ اور دائمی ہے۔

ہمارے معاشرے میں بچوں کے متعلق یہ تاثر بڑا عام پایا جاتا ہے کہ یہ تو بچہ ہے بھلا اس کو کیا معلوم؟ اس کی سمجھ  میں کچھ نہیں آئے گا؟ یہ concept سراسر غلط ہے۔ اس کی پہلی مثال ہم کو مسلمان  پیدا ہونے پر مل جاتی ہے ۔جب بچے کی پیدائش پر پہلا کام اس کے کان میں اذان دینا ہوتا ہےاور تکبیر پڑھی جاتی ہے۔اس کے بارے میں چانچنے پر اس میں چھپی حکمت عیاں ہوتی ہے۔
جب ہمارا دین بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں  اذان کہنے کا کہتا ہے تو اس کا مقصد بچے کے لاشعور میں اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ہونے کی شہادت اور مسلمان ہونے کی ودیعت کا اقرار ہوتا ہے جو کہ اس کے دماغ کے پروگرامنگ یا دوسرے لفظوں میں  اس کے دماغ کے کمپیوٹر سافٹ وئیر میں feed کردی جاتی ہے اور وہ data اس کے ذہن و دماغ میں save کر دیا جاتا ہے۔
مطلب روحانی طور پر اس کی روح کو اس بات کا پابند کردیا جاتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے اور اس کا ایمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہے تو گویا اس ناطے وہ مسلمان ہے۔
یہ اس وقت کی feeding ہے جب ہم صرف گوشت پوشت کے ٹکڑے کے علاوہ کچھ بھی نہیں حتی کہ ہم نے اپنی آنکھوں کو ہی کھولا اور کانوں میں صدا آئی اور وہ ذہن کے کسی خانے میں محفوظ ہوگئی۔
یہ بات بھی تجربے میں آتی ہے کی اکثر و بیشتر بچے جانے انجانے میں پہلا لفظ اللہ ہی پکارتے ہیں جوکہ یقینا ً اس اذان کے معجزے میں سے ایک ہوسکتا ہے۔

تو ہم بات کر رہے تھے “الف سے اللہ” نہیں نہیں ہم الف سے انار کی بات کر رہے تھے ۔ ہم بات کر رہے تھے تعلیم کی پہلی سیڑھی کی جہاں پر قدم رکھتے ہی ہم میں شعور اور آگاہی کا سفر شروع ہوا چاہتا ہیں ۔
اگر یہ سفر زندگی کی سفر کی مانند اللہ سے شروع ہو تو کتنا اچھا ہو؟
کبھی سوچا آپ نے؟
سوچا تو شاید میں نے بھی نہیں پر اب سوچا ضرور ہے جب اپنے بچوں کی درس گاہ بننے کا شرف ملا۔
ماں علم و آگاہی کی پہلی درس گاہ  ہوتی ہے۔ رات میں جب ایک ماں لوری سناتی ہے تو وہ لوری ساری زندگی کان میں رس گھولتی رہتی ہے۔ لوری کا اثر اس قدر دائمی ہوتا ہے کہ بندہ بڑھاپے میں بھی اپنی ماں کی آواز سنتا ہے اور اس کو اپنی ماں کا لب و لہجہ اور خاص کر کہ وہ لوری یاد رہتی ہے۔ جیسے کمپیوٹر کے مائیکرو چپ میں کوئی بات programmed کردی جائے اور اگر سالوں بعد بھی اس پرclick کیا جائے تو وہ اپنے محفوظ حالت میں پائی جائے۔
اسی طرح جب بچے کے کند ذہن میں جو feed کیا جاتا ہے وہ تا حیات اس کے دماغ میں رہتا ہے۔اسی لئے حاملہ خواتین کو دین اسلام میں خاص طرح کا اپنا ذہنی و جسمانی خیال رکھنے کا کہا گیا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق بچے کی  افزائش و نشو و نما پر پڑتا ہے۔
یہودی طبقے کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ان نو مہینوں کے درمیان حاملہ خواتین کے لیے اک خاص پروگرام ترتیب دیتے ہیں جس میں خواتین کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے حفظان صحت اور ماحول کا خیال رکھے اور اپنی مصروفیات ان تمام چیزوں پر مبذول رکھیں جس سے ان کے ہونے والے بچے پر اچھا اثر پڑے اور وہ پیدائشی    ذہنی طور پر مضبوط اور  بھرپور صلاحیتوں کا حامل ہو۔اس مقصد کو پانے کے لیے وہ ذہنی آزمائش کے  کھیل اور نصاب بھی مرتب کرتے ہیں جن سے حاملہ خواتین کو مستفید کیا جاتا ہے۔
بچے کی ذہنی تربیت تو ماں کے  پیٹ میں ہی شروع ہوجاتی  ہے۔ بچہ ماں کی  نقل و حرکت سے پوری طرح آشنا ہوتا ہے۔اس لئے حاملہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ عبادت اور قرآن کی تلاوت کا کہا جاتا ہے تاکہ بچے کی روحانی تربیت جاری رہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جو اپنے بچے کو اس کی توتلی زبان میں کہنا سکھائیں وہ ساری عمر اس کے اندر موجود نہ ہو۔
تو کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو الف سے انار کے بجائے الف سے اللہ یاد کروائیں ۔ کیوں نہ ہم اس کو تعلیم کے راستے کی پہلی سیڑھی پر اس کا ہاتھ اپنے رب کے ہاتھوں میں سونپ کر ایک مبارک سفر کا آغاز کریں ۔
آیئے اس بات کو یقینی بنائیں  کہ ہر چیز کی ابتدا اور انتہا وہی اعلی ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہمارا پالن ہار ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply