یادوں کے جگنو۔رفعت علوی/قسط2

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش

ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں!

اورہماری کاؤچ نے ہوٹل امپیریل کے پورچ سے نکل کر ایک سپاٹا بھرا، ہماری منزل تھی ویسٹ بینک۔۔۔۔مجھے لوقا یعنی انجیل مقدس کا ایک پیراگراف یاد آگیا۔۔۔ “پھر جب یسوع صلیب پر چڑھائے جانے لگے تو مجمع میں کھڑے کچھ حواری اپنے گھٹنوں پہ گرکر آہ و بکا کرنے لگے، لوگوں نے انھیں روکا تب یسوع نے کہا انھیں رونے دو یہ ان کی بشیریت اور دانائی کا مظہر ہے اگر یہ چپ رہے تو پھر پتھر پکاریں گے”،

میں نہ تو قصہ چہار درویش کا قصہ گو ہوں جو شربتی چمپئی اور گلابی اردو لکھتا تھا، نہ مجھے قرۂ العین کی طرح سخن طرازی کا سلیقہ ہے جو جھومتی، گھومتی اور رقص کرتی کہانیاں کہتی تھیں، نہ مجھ میں وہ لن ترانی چٹخارہ اور چرب زبانی ہے جو قصہ خوانی بازار میں بیٹھنے والے داستان گو کی زبان میں ہے، وہ قصہ خواں جو پشاور کی سرد راتوں میں کندنی دہکتی انگیٹھیوں کے گرد موٹی اونی مٹیالی چادریں لپیٹے گھنٹوں سسپنس اور رومان سے بھرپور کبھی ختم نہ ہونے والے قصے گھڑتے تھے اور نہ ہی میں وہ کہانی گرہوں جس نے الف لیلی کی داستان شروع کی تو ہزار راتوں تک کہانیاں سناتا رہا، میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ میں آپ کو اُس وقت کی اپنی دلی کیفیت بتا ہی نہیں سکتا، کسی الفاظ میں بھی نہیں، اس لئےجب صبح ٹھنڈی ہواؤں کی سنگت میں ہماری کوچ ویسٹ بینک جانے کے لئے ہوٹل کے پورچ سے نکل رہی تھی تو میری کیفیت عجیب تھی میں کچھ بدحواس سا تھا.

میں نے آج تک فلسطین سے متعلق جو کچھ بھی پڑھا تھا سنا تھا میرے سامنے اس کی ایک فلم سی چلنے لگی، پہلےمیرے سامنے الخلیل آیا جہاں امام اللنبیاء حضرت ابراہیم کی قبر تھی اور جہاں ایک زمانے میں بازار سجا کرتا تھا، پھر بیت اللحم میں مٹی کا وہ حجرہ دکھائی دیا جہاں الگ تھلگ رہنے والی کنواری مریم نے اس نبی کو جنم دیا جو مسیحا کہلایا، جس کے ماننے والے آج آدھی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، فلسطین۔۔۔پیغمبروں کی سرزمین، وہ سرزمین جہاں حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، ،حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور بہت سے دیگر پیغمبر پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے، اسی سرزمین سے ہمارے خاتم النبیﷺ  کو معراج کے لئے لے جایا گیا۔اسی زمین میں کہیں ہمارا قبلہ اول بھی تھا ہماری کوچ کے بریک زور سے چڑچڑائے، ہم سب کو ایک زوردار دھچکہ لگا اور میں چونک پڑا۔۔۔

ایلنبے بیرج، جسر المک حسین، کنگ حسین بیرج، الکرامہ بیرج عثمانی سلاطین کے بنائے ہوئے اس پل کے کتنے نام تھے دریائے اردن کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوا الحسین برج ہمیں سامنے نظر تو آ رہا تھا مگر ابھی بہت دور تھا، گاڑیوں کی طویل قطاریں تھیں اور کوسٹر اور کاؤچ والی اس قطار میں ہم بہت پیچھے تھے، رملہ، رام اللہ، یروشلم اور بیت اللحم سے بہت دور مگر جیریکو شہر سے نزدیک جو ویسٹ بینک کو جارڈن سے ملاتا تھا ٹیکسیاں کوچز، بسیں، کوسٹرز اور پرائیویٹ گاڑیوں کے ہارن کا شور اور سب کے سب کا رخ الحسین بیرج کی طرف، گاڑیوں کی قطاریں دور تک لگی ہوئی تھیں۔ پل کے آہنی گیٹ بہرے گونگے اور نابینا شخص کی طرح بے مہری سے ساکت کھڑے تھے، بہت دیر ہوگئی اور کوئی گاڑی اپنی جگہ سے نہ ہلی، لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر باہر کھڑے سگرٹ پیتے رہے اور باتیں کرتے رہے الا نتفاضہ۔۔الا نتفاضہ ۔۔الانتفاضہ۔۔کوئی شخص ہماری گاڑی کے پاس سے چلاتا ہوا گذرا۔۔۔۔ہمارے ڈرائیور نے برابر سے گزرتے ہوئے شخص کو روک کر کچھ پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ کندھے سکوڑ کر گردن ہلاتا آگے بڑھ گیا۔۔

گیٹ کی دوسری طرف ایک مٹیالے رنگ کی ایک چھوٹی سی بلڈنگ سے تین فوجی مشین گن چھتیائے ہوئے باہر نکلے اور ہاتھ ہلا ہلا کر گیٹ کے پاس کھڑے ہوئے لوگوں سے کچھ کہنے لگے، ہمارا گائیڈ سعید دیر ہوئی گاڑی سے اتر کر ہمارے پاسپورٹ لے کر انٹری پاس لینے گیا ہوا تھا، ابھی ہم لوگ اس کی واپسی کے منتظر ہی تھے کہ دریائے اردن کے اس پار ویسٹ بینک کی جانب کافی دور دھوئیں کے مرغولے اٹھتے نظر آئے، ہم نے دیکھا کہ سیاہ کثیف دھوئیں کا ایک بادل آسمان کی طرف بلند ہو رہا تھا پھر ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی اور مشین گنوں کے برسٹ کی آوازیں آنے لگیں مجمعے میں بے چینی پھیل گئی، برج الحسین کے دونوں اطراف میں فوجیوں کی نقل و حرکت میں تیزی آگئی اور کسی نے اسپیکر پر عربی عبرانی انگلش اور فرنچ زبانوں میں اعلان کرنا شروع کردیا اعلان میں بار بار الا نتفاضہ اور اپ رائیزنگ کی وارننگ دی جارہی تھی، ہم نے دیکھا کہ سعید تیز تیز قدموں سے تقریبا” بھاگتا ہوا گاڑی کی طرف آ رہا ہے اور اس کا منہ لٹکا ہوا ہے وہاٹس ہیپینڈ، وہاٹس ہیپینڈ؟whats happend۔۔ہم سب نے ایک ساتھ پوچھا …

حماس کا اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا ہے، فلسطین ۔۔میرا مطلب ہے اسرائیل میں داخلے کے سارے راستے دونوں اتھارٹیز کی طرف سے غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیے گئے ہیں سیدی عرفات ۔۔ سوری بیڈ لک سیدی عرفات ۔۔ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے، نہ آج نہ کل اور نہ جانے کب تک۔۔وہاں ایک بار پھر انسانیت گولیوں پہ بھونی جارہی ہے اور ہمارے ڈرائیور نے بھری پری سڑک پر ہارن بجاتی بسوں دھواں چھوڑتی ٹیکسیوں اور ہمیں برا بھلا کہتے دوسرے ڈرائیوروں کی پرواہ کئے بغیر گاڑی وہیں سے واپسی کے لئے گھما دی۔ مجھے اپنی بیوی کے جذبات کا تو علم نہیں مگر سب ہی جانتے ہیں کہ وہ ایک پریکٹیکل مسلم تھی اور مذہبی معاملات میں عقل نہیں دل کی سنتی تھی لہذا اس کے صدمے کی نوعیت تو بالکل الگ ہی رہی ہوگی مگر میرے خوابوں کا شبستان میرے ارمان اور میری تمناؤں کا نخلستان، میرے خوابوں کا گلستان سب کے سب دریائے اردن کے پار سے اٹھنے والے سیاہ پوش دھوئیں کے مرغولوں میں چھپ کر رہ گئے تھے، کثیف دھوئیں کے اندر جلتی آگ کے شعلے سوز نہاں کی طرح میری روح پر آسیب کی طرح چھا رہے تھے، تل ابیب کے طرب زاروں اور عشرت گاہوں ، حیفہ کے قہوہ خانوں اور یروشلم کے صنم خانوں پہ ایک بار پھر ایک طویل رات بسیرا کرنے والی تھی برج الحسین کے اس پار جیریکو نامی چھوٹے سے آتش کدے میں مظلوم فلسطینیوں کے خیمے گھر اور مکانات نہیں میرے خواب جل گئے تھے۔۔ شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔ہائے۔۔دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادوں کے جگنو اک ایسی گٹھٹری جس میں پڑے کئی رنگین خواب کب سے مہک رہے ہیں، بہت سے شوخ و شنگ لمحے ہمک رہے ہیں، کچھ شگوفے ہیں جو چٹک رہے ہیں،کچھ ہنستی مسکراتی کھلنڈری شوخ وضعداریاں ہیں،شرماتی کھلکھلاتی مہر بانیاں ہیں دل سوزیاں ہیں اور کچھ کچھ نادانیاں بھی ہیں، نادانیاں بھی کوئی ایسی ویسی؟ کوئی توقعات پوری نہ ہونے پہ جدا ہوا، کسی کو مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانے کا شکوہ تھا، کسی کوکسی سے بے وفائی کا گلہ، کہیں ہرجائی پن کے طعنے اور  بھیگتی آنکھیں، کسی سے ہم اس لئے روٹھے کہ۔۔خیر اب جانے دیں اس قصے کو۔۔

پھول بھی تو ہیں اس گٹھٹری میں، ہرطرح کے، کوئی بے رنگ ہے کوئی چنچل اور شوخ کسی کی مہک سے انجمن معطر ہے کہیں اداس یاسمین کی افسردہ کرنے والی خوشبو پیراہن بدل رہی ہے، پھول ہیں تو پھولوں کا پھول سب کا سردار گلاب بھی ہے، اور جب گلاب ہے تو اس کے ساتھ کا نٹے بھی ہیں جس کا دل چاہے اس کے کانٹوں سے الجھ کر اپنا دامن پھاڑ لے مگر سامنے سے، آتش بازی والے انار بھی ہیں اور مہتابیاں بھی، جو جلتی بھی ہیں اور جلاتی بھی ہیں یادوں کی اس گٹھٹری سے العین کے ایک مشاعرہ کی یاد جھانک رہی ہے ۔۔

“العین”ایک سو بیس کلو میٹر۔۔ ہم جیسے ہی دوبئی کی حدود سے باہر نکلے دوڑتی بھاگتی سڑک کے کنارے پر نصب پہلے سنگ میل نے ہمارا استقبال کیا، ہماری چار گاڑیاں ایک دوسرے کے تعاقب میں کالی سیاہ سڑک پر دوڑی چلی جا رہی تھیں، سورج ڈوبنے میں ابھی ذرا دوری تھی۔ مجھے آصف رضوی صاحب کا دعوت نامہ ملا، مستان صاحب کے توسط سے، یہ مستان صاحب العین میں ادبی زندگی کے روح رواں تھے، اور ان سے تعلق بھی ظہور الحسن جاوید کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ آصف صاحب ایک مشاعرہ کررہے تھے سٹی آف گارڈن “العین” میں، العین یعنی میری آنکھ، باغوں پھولوں اور تتلیوں کا شہر شارجہ سے ایک سو  پچاس کلومیٹر  کی دوری پر ابو ظہبی کا نخلستان۔

میں آصف رضوی صاحب سے واقف نہ تھا، کبھی نام بھی نہ سنا تھا، اظہر زیدی جیسا سوشل اور جان پہچان والا شخص بھی آصف صاحب کو نہیں جانتا تھا، مستان صاحب سے دوبارہ  رابطہ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ آصف رضوی صاحب کا العین میں ایک اسکول ہے اور اسی اسکول کے دس سالہ قیام کے جشن کی خوشی میں یہ مشاعرہ اسی اسکول کی حدود میں ارینج کیا گیا ہے۔ ساری لاعلمی اور محدود معلومات کے باوجود بھی ہم سب العین جانے کو تیار ہو گئے کہ اردو ادب کی کونپلیں جس جگہ بھی پھوٹ رہی ہوں وہاں آبیاری کرنا ہماری  ذمہ داری بنتی ہے، پی آئی اے کے ریجنل منیجر سلمان جاوید صاحب سے بات ہوئی وہ بھی ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے ادھر میری بیوی نے ناہید میر کو فون کردیا۔ ناہید بھابھی دبئی میں پاکستان کونصلیٹ کے فرسٹ سیکریٹری “میر بادشاہ” کی صاحب ذوق بیگم تھیں میر باشاہ کون؟۔۔ اردو کے عاشق، کیریئر بیورکریٹ ۔۔ پاکستانی بیوکریٹ کی فوج ظفر موج میں ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے بلکہ اب تو ایسے لوگ صرف کتابوں میں ہی نظر آتے ہیں، تعلق ان کا گلگت سے تھا۔۔ اسماعیلی تھے اور انھوں نے شادی کراچی یونیورسٹی کی ایک باصلاحیت اردو اسپیکنگ لڑکی سے کی تھی، ان کے فرقے میں برادری سے باہر رشتہ جوڑنا ناقابل معافی تھا سو اس کی سزا کے طور پر انھیں اسماعیلی کمیونٹی کی طرف سے بائیکاٹ کا سامنا تھا۔ العین مشاعرے کا دلچسپ ذکر، اس میں ہونے والی کھٹی میٹھی نوک جھونک اور میر بادشاہ کی شاہی طبیعت کی باتیں ضرور ہوں گی مگر ایک بریک کے بعد۔۔ بریک تو بنتا ہے بھائی!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے ۔۔

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply