حکومت اور معاشی بحران ۔۔۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

اصل قصوروار خان صاحب کے وہ حاشیہ بردار حضرات ہیں جنہوں نے یہ کہہ کر انہیں بانس پر چڑھا رکھا تھا کہ ان کی ایک صدا پر بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈالروں کے ڈھیر لگا دیں گے ۔۔۔ گویا، جیبوں میں چیک بکس ڈالے وہ بالکل تیار بیٹھے ہیں اور انہیں تو بس عمران خان صاحب کے حلف اٹھانے کا انتظار ہے۔

اُدھر یہ حالت ہوئی کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے ووٹ کا حق ملنے کے باوجود ووٹ نہیں رجسٹر کروائے کہ کہیں اندراج کے چکر میں 1000 ڈالر نہ دینے پڑ جائیں۔

مسئلہ آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں ہے ۔۔۔۔ بقول وزیر خزانہ، کون سا پہلی دفعہ ایسا ہونے لگا ہے۔ پچھلی دو حکومتوں نے بھی یہی کیا تھا اور اب تو لگتا ہے ہمارے ہاں یہ انتقال اقتدار کا غیر اعلانیہ مگر باقاعدہ حصہ بن چکا ہے کہ حلف اٹھاتے ہی آئی ایم ایف کے در پر ماتھا ٹیکنا ہے ۔ تاہم یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی بظاہر اسی افراتفری میں یہ کام کرنے جا رہی ہے جو ماضی کی حکومتوں کا خاصہ رہا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ پھر نتیجہ بھی ان سے کچھ مختلف نہ ہو گا۔

اس خدشہ کی بنیاد یہ ہے کہ حکومت نے کسی واضح معاشی اہداف کی نشاندہی نہیں کی اور نہ ہی معاشی پالیسی اور اقتصادی سمت کا تعین نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرنا لازم ٹھہرا اور دوسری جانب 1400 ارب سے زائد لاگت کا ڈیم حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ایک جانب سی پیک کے قرضوں کی دھائی ہے جو کہ پاکستان کے قرضوں کی سالانہ واپسی کا محض دس فیصد ہے جبکہ دوسری طرف قریب 7500 ارب کی لاگت سے تیار ہونے والے 50 لاکھ گھر وں کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔

حکومت کے سامنے حقیقی مسائل ہوتے ہیں جس کے لیے تلخ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔ یہ کام خوش امیدی اور چندوں سے نہیں ہوتے، ان کے لیے pro active approach رکھنا پڑتی ہے۔ اس اپروچ کا کلیدی حصہ یہ ہے کہ آپ معیشت کے میدان میں کیا کرنا چاہتے ہیں، کیسے اور کتنے عرصہ میں۔ آپ کو تجارت سے کیا توقعات ہیں اور افرادی قوت کی استعداد اور صلاحیت سے کیا چاہتے ہیں۔ میکرو اور مائکرو پالیسیز کیا ہیں۔ اسٹیٹ کنٹرولڈ انٹرپرائزز کے revival یا ڈسپوزل پر کیا پلان ہے۔

جب تک یہ باتیں واضح نہیں کریں گے نہ آپ کا اعتماد ظاہر ہوگا اور نہ پر اعتماد کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ اپوزیشن کے زمانہ سے اپنے ٹویٹس سے ہماری خوب تربیت کرتے رہے کہ قرضوں کی معیشت میں پلاننگ کی کس قدر اہمیت ہوتی ہے لیکن اس تربیت کا عکس فی الوقت خود ان پر دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ امر اس لیے بھی اہم ہے کہ چند دوست یہ بات بہت اصرار سے کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے قرضہ جات بہت کم شرح سود پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں لینے میں کچھ حرج نہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کرنسی کی قدر میں گراوٹ، مہنگائی، عوام کے معیار زندگی میں تنزلی، روپے میں قرضوں کے حجم میں بے پناہ اضافہ اور بینکوں کی شرح سود میں بڑھوتری سے جو اتھل پتھل مچتی ہے وہ مہنگے سے مہنگے قرضے کے مقابل بہت زیادہ ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم امید کرتے ہیں کہ 1000 ڈالر والی خوش امیدی کے برعکس وزیر اعظم اب کم سود والی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں گے اور آئی ایم ایف پروگرام و اقتصادی اہداف کے متعلق ٹھوس لائحہ عمل سے قوم کو آگاہ کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply