• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ادارتی صفحات کاقتل، نوجوانوں سے مثبت سرگرمی چھین رہے ہیں۔۔۔۔سید شاہد عباس

ادارتی صفحات کاقتل، نوجوانوں سے مثبت سرگرمی چھین رہے ہیں۔۔۔۔سید شاہد عباس

ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، نہ تو اس کے خاندان میں کوئی صحافی تھا نہ ہی اس نے کسی بھی قسم کی صحافتی تعلیم حاصل کی تھی۔ بلکہ اس نے خالص کاروباری معاملات میں تعلیم مکمل کی تھی۔ لیکن شو مئی قسمت کہ  تعلیم مکمل ہوتے ہوتے خاندان کے بکھیڑوں نے اس کو ذہنی مریض بنا دیا ۔ دواؤں کا ڈھیر، نہ کسی سے ملنا، نہ بات کرنا، کچھ بعید نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں وہ اس دھرتی پہ ایک بوجھ کی مانند ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس نے اپنا غصہ، غم، دکھ بیان کرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک ایسے قافلے میں شامل ہو گیا جو اپنے غموں کو بھی مثبت آغاز کی جانب لے جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس نے صرف اپنے خیالات کو، اپنے مسائل کو، اپنی مشکلات کو لکھنا شروع کر دیا۔ اس سے نہ صرف وہ لکھنا شروع ہو گیا بلکہ اس کو لکھنے کے بعد اپنے لکھے ہوئے کو پڑھنا ایک اچھا مشغلہ محسوس ہونے لگا۔ وہ تعلیم کے حوالے سے صحافی / لکھاری نہیں تھا لیکن تجربے اور مشاہدے کی بنا پہ وہ لکھنا شروع ہو گیا۔ جیسے جیسے وقت گزرا اپنے مسائل کے علاوہ وہ دوسروں کے مسائل پہ بھی قلم اُٹھانے لگا۔ اور آج باقاعدہ صحافتی تعلیم نہ ہونے کے باوجود نہ صرف وہ ایک اچھا لکھاری شمار ہوتا ہے بلکہ اس کا لکھا ہوا تحقیق کے مراحل سے گزر کے سامنا آتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے مشاہدات کو حقائق کی چھلنی سے گزارتا ہے، اپنے خیالات کو تاریخ کے صفحات سے منسلک کرتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے، اس نوجوان جیسے ہزاروں ایسے فری لانسرز موجود ہیں جن کے لیے لکھنا کمائی کا ذریعہ تو نہیں ہے لیکن وہ لکھتے ہیں اپنے ذہنی کرب کو کم کرنے کےلیے۔ اور ایسے نوجوان اپنے لکھے ہوئے کو پرنٹ میڈیا میں دیکھ کر ایک عجیب سی طمانیت بھی محسوس کرتے ہیں۔ جو ایک مثبت لمحے کا آغاز بن جاتا ہے۔

پاکستان میں پرنٹ میڈیا کا دور اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، لیکن اب نئے دور کے جدید تقاضوں کے تحت انٹرنیٹ کی افادیت کے باوجود پرنٹ میڈیا میں اپنے لفظوں کی اشاعت آج بھی ایک خوش کن احساس ہے۔ پاکستان میں صفِ اول کے اخبارات دو ادارتی صفحات کے ساتھ جانے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ جب کہ حجم میں چھوٹے مگر معیار میں اچھے اخبارات کی پہچان ایک ایسا ادارتی صفحہ رہا ہے جس میں اداریے کے ساتھ ساتھ چھ سے سات کالم شائع ہوتے ہوں۔ باقی گزارے لائق اور نام کے اخبارات ادارتی صفحے پہ کبھی شو بز کبھی بزنس اور کبھی کھیلوں کی خبروں کو شائع کر کے تھوڑا بہت کام چلا لیتے ہیں۔ مفتے کے لکھاری یعنی فری لانسرز کو اخبار نہ تو باقاعدہ کچھ دیتا ہے نہ ہی ان کے کالم کو باقاعدہ جگہ میسر آ سکتی ہے اور نہ ہی ان کے کالمز کو من و عن شائع کیا جاتا ہے۔ کبھی بہترین کالم کوایڈیٹر کے نام خطوط میں جگہ ملتی ہے تو کبھی ایک ماٹھا کالم بھی مناسب جگہ پہ شائع ہو جاتا ہے۔ اور کبھی دو صفحات کے کالم کو ایک پیراگراف پہ کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال ان تمام مسائل کے باوجود فری لانسرز کی ایک بہت بڑی تعداد مثبت سرگرمی کو جاری رکھے ہوئے تھی۔ وہ اپنےنام کو صفِ اول کے اخبارات میں چھپ جانے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ لیکن پچھلے چند دنوں کے دوران پاکستان کے صفِ اول کے اخبارات نے اپنے ادارتی صفحات پہ کانٹ چھانٹ شروع کرتے ہوئے ان کی تعداد دو کے بجائے ایک کر دی ہے۔ اور میگزین صفحات پہ بھی قدغن لگنا شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان کے چند بڑے اخبارات نے تو اپنے باقاعدہ لکھاریوں تک کو جواب دے دیا ہے۔ یقینی طور پر اخبارات اب کاروباری مفادات کے تحت نکالے جا رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ آج بھی خبروں سے زیادہ اخبارات کی پہچان ان کے اداریے، ان کے کالم نگار، ان کے کہانی نگار، ان کے قطعات لکھنے والے اور ان کے میگزین رپورٹرز ہیں۔ لیکن اخبارات شاید اب اس حقیقت سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں کہ وہ دو ادارتی صفحوں کا بوجھ اٹھائیں یا پھر قتل و غارت گری ، فسادات، سیاسی چپقلشیں اتنی طاقتور ہو گئی ہیں کہ وہ نوجوانوں سے اس پلیٹ فارم کو چھیننے کے در پہ ہیں۔

فری لانسرز یعنی مفت کے لکھنے والے نہ صرف اپنے ذہنی کرب کو الفاظ میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ وہ اخبارات کی تشہیر کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔ وہ فخر کے ساتھ اپنی تحریر کو اخبار کی پیشانی سے منسلک کرتے ہیں۔ اور اخبار اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ویب سائیٹ سے گوناگوں کمائی بھی کر رہے ہیں۔ اب پاکستانی معاشرے میں جب پہلے ہی مسائل کا سیلاب ہے وہاں نوجوانوں سے ایک مثبت سرگرمی چھین کر اخبارات اس خیال پہ مہرِ حقیقت ثبت کر رہے ہیں کہ ان کے لیے اچھی تحاریر کے بجائے کاروباری مفادات زیادہ اہم ہیں۔ پاکستان میں باقاعدہ صحافیوں کے لیے تنظیمیں کھبمیوں کی طرح وجود میں آ چکی ہیں لیکن کوئی تنظیم ایسی وجود میں نہیں آ سکی جو فری لانسرز کے لیے بھی کچھ کرنے کا عندیہ دے۔ نیوز ویب سائیٹس جو بلاگز کے حوالے سے کمائی شروع کر چکی ہیں وہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے کسی صورت تیار نہیں کہ وہ اپنی ویب سائیٹ کے لیے اپنی تحریریں بھیجنے والوں کے لیے آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی مگر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ عنائیت کریں۔ بہت سے فری لانسرز ایسے ہیں جو منجھے ہوئے اور اپنی دانست میں تجربہ کار لکھاریوں سے اچھا لکھ رہے ہیں اور ان کے لکھے ہوئے کو وائرل کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کہ خود ہی ہو جاتا ہے مگر کیا ہے کہ وہ ہیں فری لانسرز، جن کا لکھا ہوا، اخبارات، میگزین ، ویب سائٹس مفت تو لینا چاہتی ہیں مگر ان کو کچھ سہولت دینا ان کو گوارا نہیں ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ کہ ان سے اخبارات میں اپنے الفاظ کو جگہ پانا بھی مشکل سے مشکل بنا دیا جا رہا ہے۔ اور جس حساب سے اخبارات کے ادارتی صفحات کم ہو رہے ہیں کچھ بعید نہیں کہ ادارتی صفحہ برائے نام ہی رہ جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بڑے صحافی پرنٹ میڈیا تو ایک طرف الیکٹرانک میڈیا پہ بھی قابض ہیں۔ جب کہ کم آمدنی والے صحافی اور فری لانسرز چند ہزار کے لیے بھی ایسے پاپڑ بیل رہے ہیں کہ دکھ دل میں جگہ کر لیتا ہے۔ کوئی بھی چینل بڑے فخر کے ساتھ اپنے آغاز کے ساتھ پرنٹ میڈیا کے بڑے ناموں کو اپنی سکرین پہ جلوہ گر دکھاتا ہے۔ لیکن اچھے سے اچھا فری لانسر بھی ایک رپورٹر تک کی ملازمت پانے سے قاصر رہتا ہے۔ سی وی کا جائزہ لیں تو ماسٹرز، تحاریر کا جائزہ لیں تو ہزاروں میں لیکن ان کے نام کے ساتھ فری لانسر کا لاحقہ جگمگا رہا ہوتا ہے۔ خدارا پاکستان کے نوجوانوں سے یہ مثبت سرگرمی نہ واپس لیجیے۔ اور اگر اخبارات کے لیے مشکل ہے تو فری لانسرز سے ہی عرض کر دیجیے دوسرے ادارتی صفحے کے اخراجات بھی یہ بے چارے خود ہی برداشت کر لیں گے۔ لیکن ان کے الفاظ کو یوں بے یارو مددگار نہ چھوڑیے۔ یہ دلیل سے بات کرنے والے ہیں، انہیں معاشرے کے رحم و کرم پہ نہ چھوڑیے۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply