اسلام کربلا میں۔۔۔۔محمد منیب خان

“میرے بھائی! حسین رض  کو رونے والی آنکھ اور سینہ کوبی کرنے والے ہاتھ کی ضرورت نہیں، انہیں تو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کے نانا کے دین کو اس کی اصل اساس پر پھر سے قائم کر دیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو ہم غم حسین منانے کی بجائے جشن حسین منانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔” راشد ساز کے لکھے یہ الفاظ ان کی تصنیف “کودرا” میں جب سے پڑھ لیے ہیں یہ میری سوچ و فکر پہ ہتھوڑے کی مانند ضربیں لگاتے ہیں۔ اور میں اس پہ مضطرب کیوں نہ ہوں کہ ہم شیعہ اور سنی وقت کے ساتھ ساتھ بخوشی جزئیات میں کھو گئے اور ایسے کھوئے کہ اصل منزل یعنی دین کو اس کی اساس پہ قائم رکھنے سے غافل ہو چکے۔ تاریخ کو وحی پہ مقدم بنا دیا گیا اور تاریخی روایات ایسی مقدم ہوئیں کہ قرآن کے اندر تحریف کی روایت تک کو ہم صدیوں سے گلے لگاتے آ رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پہ یہ روایات درج ہوتی رہیں اور ایک جسم اور ایک دیوار کی مانند سمجھی جانے والی امت کا عضو عضو اور اینٹ اینٹ بکھرتی رہی۔ ہم اپنی اپنی اینٹوں کو سنھبالنے میں یوں مگن ہوئے گویا یہی پوری دیوار کی نمائندگی ہے۔ واقعہ کربلا نے اس تقسیم کو مزید گہرا اور واضح کیا اور پھر کم و بیش ڈیڑھ سو سے دو سو سال بعد اس تفریق کی جڑوں سے وہ پودے نکلنے شروع  ہوئے جن کی آبیاری ہم سب وقت کے ساتھ ساتھ کی اور اب وہ اس قدر تناور درخت بن چکے ہیں کہ ان کی کسی شاخ کو ہلانا بھی کوئی سہل نہیں۔ 

یوں تو اندرونی خلفشار کی بازگشت شہادت عثمان رض  سے ہی شروع ہو چکی تھی لیکن واقعہ کربلا نے اس پیدا ہوتی خلیج کو مزید گہرا کیا اس پہ مستزاد یہ کہ واقعہ کربلا کے کم و بیش ڈیڑھ دو سو سال بعد مرتب ہونے   والی تاریخ میں ایسے رقیق واقعات شامل ہو گئے جن سے مختلف ذرا بھر بات کرنا بھی توہین سمجھا جانے لگا۔ بقول “کودرا” “اگر طبری کی تاریخ سے قال ابو مخنف اور قال ابو ہشام کی تکرار  نکال دی جائے تو کربلا کی مبالغہ آمیز روایات کا محل زمیں بوس ہو جاتا ہے”۔ یہ تاریخ مرتب ہوتی رہی اور اس سے نہ صرف کتابوں کا پیٹ بھرتا رہا بلکہ ام کتاب (فرقان) کو ایک طرف رکھ دیا گیا۔ 

یہ سب سوچنے اور پڑھنے کے بعد میرے اندر اضطراب ہے۔ شہادت حسین رض  سے کوئی رو گردانی نہیں لیکن مقصد حسین رض کو یکسر بھول جانا کہاں کا انصاف ہے؟ تاریخ نے مقصد حسین رض  جہاں بھی بیان کیا وہاں یزید کو ملعون و مطعون بنا کے پیش کیا۔ یزید اس قدر ملعون تھا تو تاریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ یزید نے حضرت ابن عباس سے حضرت حسین رض  کی شہادت کی تعزیت کی۔ مزید اگر یزید اس قدر ملعون تھا تو بہت سے صحابہ رض  اس وقت خاموش کیسے رہے، جب کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تھے اور اکیلے بھی نہیں تھے اپنے خانوادے کے ساتھ تھے۔ میں اس بات سے یزید کو کوئی شک کا فائدہ نہیں دینا چاہتا بلکہ میں روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی حضرت امام حسین رضہ کے عمل کو ہی حجت سمجھوں گا لیکن یہ سب باتیں تاریخ کے ایسے تضادات سامنے لاتیں ہیں جن سے عیاں ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والوں نے ان واقعات کو کس طرح استعمال کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایات مضبوط ہوئیں پھر عقائد کی شکل اختیار کی ،اب یہ عقائد دین کے بنیادی جزو بنا دیے گئے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دین اپنی اساس سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جبکہ در حقیقت حضرت امام حسین کی شہادت دین کو اس کےاساس پہ قائم رکھنے کی سعی تھی۔ 

یہ روایات کا کھیل صرف شیعہ تاریخ سے جڑا نہیں ہے بلکہ سنی تاریخ بھی اسی شد و مد سے اس میں جکڑی ہوئی ہے۔ جہاں اس کی ایک مثال اوپر پیش کردہ روایت ہے جو فرقان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتی ہے وہیں ایسی رویات بھی موجود ہیں کہ خود جس عمر رض  کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سے مانگا ہو انہوں نے ان کی ہی حکم عدولی کی۔ میرے لیے تو یہ تصور بھی محال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصیت کے لیے کہا ہو اور عمر رض  نے اس کی نفی کر دی۔ یہ ہے وہ کرب و بلا جس سے اسلام کو گزارا گیا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ایسے ہی ہم آخری امت ہیں ۔ اب نبوت کے پیغام کے ابلاغ کی ساری ذمہ داری براہ راست ہم  پہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کے آفاقی پیغام پہ مجتمع ہوا جائے اور روایات کو وحی الہی کے تناظر میں نئے سرے سے جانچا جائے۔ ہم سے پچھلے صدی والوں نے وہ کام کیا جس پہ آج عمارت کھڑی ہے ہم اس کام پہ وقف کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں کچھ اگلی صدیوں کے لیے کرنا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی۔ ورنہ دنیا کو لیڈ کرنے کا خواب محض تاریخی کارناموں کے پڑھنے سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ کربلا سے شروع ہونے  والے واقعات آج مسلمانوں کو اس نہج پہ لے آئے ہیں کہ اب اسی جذبے کے ساتھ دین کو اس کی اساس پہ قائم رکھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ فلسفہ حسین رض  کے پودے کو ہمارے گریہ سے زیادہ ہمارے زور  بازو سے حفاظت کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply