قدرت اللہ شہاب کی باتیں۔۔۔۔بابر اقبال

قدرت اللہ شہاب دنیا میں میرے آنے کے بعد فقط تین سال رہے، اس کم عمری میں میں انہیں ظاہر ہے نہیں جان سکتا تھا، کم عمری میں جب میں نے سسپینس اور جاسوسی ڈائجسٹ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے صفحات کے اوپر خانوں میں بنے لطائف سے شروع کیا، اکثر ان لطائف میں کچھ اقتباسات بھی ہوتے، اس دوران میں نے شہاب نامہ کے بھی کچھ اقتباسات دیکھے، آگے چل کر ایک رسالے میں شہاب نامہ کا ایک باب ’’عفت‘‘ بھی پڑھا جو ایک لازوال محبت نامہ تھا، آخر کار 2010 میں ہم نے شہاب نامہ پورا پڑھا ،اس کے بعد ہم قدرت اللہ شہاب کے ہوگئے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی ہر کتاب خریدی، ان کی دیگر تصانیف میں ’’ماں جی‘‘ اور ’’یا خدا‘‘ جیسی اثر انگیز نثر میں نے کبھی نہیں پڑھی۔

میں قدرت اللہ شہاب سے شدید متاثر ہوا، ان کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے ممتاز مفتی کی ’’لبیک‘‘ اور ’’ الکھ نگری‘‘ بھی پڑھیں، جو لوگ مفتی جی کو پڑھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مفتی جی جھوٹ نہیں لکھتے، ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد شہاب کے لیے عقیدت میں اضافہ ہی ہونا تھا۔
، داتا گنج بخش عثمان علی ہجویری رح اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں ’’ مصنف کا تالیف و تصنیف کا مقصد یہ ہی ہوتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے اس کا نام زندہ اور پائندہ رہے‘‘، غرض یہ کہ شہاب نامہ ایسی ہی کتاب ہے جو مصنف کا نام زندہ اور پائندہ رکھتی ہے اور ہم جیسوں کی زندگی میں جن کی زندگی جہل کے اندھیروں سے بھری ہوتی ہے ان کی زندگی میں ایمان کی روشنی لاتی ہے۔

شہاب نامہ کے بعد کم از کم تین سے چار سال میں لگا تار نماز پڑھتا رہا اس کو میں تو کم از کم شہاب کا چمتکار ہی سمجھتا ہوں اور یہ ہی جانتا ہوں کہ میری عبادات کے پیچھے شہاب کا ہی نور ہے۔
مگر جب مطالعہ وسیع کیا تو جانا کہ قدرت اللہ شہاب اس جہان فانی سے کوچ کرنے کے بعد جہاں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں وہاں آج بھی ان پر تنقید کی جا رہی ہے اور اگر اس سے آگے بھی دیکھا جائے تو کردار کشی کی بھی نوبت آجاتی ہے۔
اتنی لمبی چوڑی تمہید لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس تحریر میں  اور  کچھ بڑے لکھنے والوں کی تحاریر میں شہاب کی شخصیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جائزہ لینا اور ان کا جواب دینا، دلچسپ بات یہ ہے کہ شہاب دشمنی میں ہارون الرشید جیسے مولوی اور نصرت جاوید جیسے مسٹر ایک ہیں۔سب سے پہلے ہارون الرشید کا ذکر کر لیتے ہیں، ہارون صاحب فرماتے ہیں’’ شہاب نامہ کا بڑا چرچہ تھا،درویش کی خدمت میں سوال کیا تو جواب ملا ’’ کچھ حقیقت ہے، کچھ خواب ہے اور کچھ افسانہ‘‘۔ مزید پوچھنے پر فرمایا ’’راہ سلوک کے چراغ اتنی آسانی سے نہیں جلتے‘‘

اس تحریر میں ہم اصول یہ ہی رکھیں گے کہ ہر شخص اپنی تنقید میں سچا اور کھرا ہے اور کہیں وہ اعتدال کا دامن نہیں چھوڑ رہا مگر جیسا کہ سچ ایک اندھوں کے ہاتھی کی طرح ہے، ہم سب کے پاس اپنے حصّے کا سچ ہے، جو کسی لکھاری نے لکھا وہ اس کا سچ اور جو ہم لکھ رہے ہیں وہ ہمارا۔
اب اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ راہ سلوک کے چراغ اتنی آسانی سے نہیں جلتے، قدرت اللہ کی زندگی میں یہ نعمت کس طرح آئی تھی یہ شہاب نامہ میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہاب کو بتایا گیا کہ تم اس میدان کے آدمی نہیں ہو مگر جس دربار سے تمہاری منظوری آئی ہے اس کو کوئی منع نہیں کرسکتا، باقی اگر شہاب کے بیان کو دیکھا جائے تو وہ بے چارے خود کشی کے کنارے سے ہو آئے، اور انہیں حضرت فاطمہ ؓ کی مہربانی اور حضور ﷺ کی شفقت کے ساتھ جو موقع ملا اسے عصر حاضر کے صوفی کی زبان میں ’’ راہ سلوک کے چراغ اتنی آسانی سے نہیں جلتے‘‘ تو یہ تنقید بے وزن نظر آتی ہے۔

دوسرا ذکر ہمارے محبوب اور ممدوح جناب یاسر پیرزادہ کا ہے، اپنے ایک کالم میں یاسر صوفیوں سے اپنے تعلقات بتاتے ہیں جن میں احمد رفیق اختر اور اشفاق احمد کی وہ تعریف کرتے ہیں، آخر میں وہ اشفاق احمد کی کسی کتاب کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ شہاب اکثر گفتگو کے دوران کمرے سے ہو کر آتے تھے، جب وہ آتے تھے تو ان کے منہ سے ایک بو آرہی ہوتی تھی اور وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہوتے تھے، غالباً یہ شوق انہیں ہالینڈ سے لگا تھا، مگر یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ یہ بات چھپاتے کیوں تھے؟ اس کے بعد یاسر اضافہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کس قسم کے تصوف میں شراب نوشی کی گنجائش ہوتی ہے؟ یہاں ان کا کالم ختم ہوجاتا ہے اور سوال چھوڑ جاتا ہے کہ بتیس سال پہلے انتقال کیے جانے والے شہاب کی ایک ممکنہ شراب نوشی پر سوال اٹھانے کے لیے لکھا گیا؟

خیر شہاب کی اس کیفیت کا ذکر ممتاز مفتی نے بھی اپنی کتابوں الکھ نگری اور لبیک میں کیا ہے، اس کو وجدانی کیفیت قرار دیتے ہیں جو ملنگوں پر تاری ہوجاتی ہے، اس کے دوران شہاب اپنا کنٹرول کھودیتے تھے، اسی طرح احمد بشیر اپنی کتاب میں اس کیفیت کا ذکر کرتے ہیں، احمد بشیرجیسے عقلیت پرست اور ممتاز مفتی جیسے اوہام پرست میں ایک بات مشترک تھی وہ بات تھی دونوں کا ہرحال میں سچا ہونا اور ڈٹ کر کھڑے رہنا۔ اس موضوع پر اشفاق احمد کی بات بھی ٹھیک لگتی ہے مگر وہ شہاب کی کیفیت سے لا علم ہونے کی وجہ سے وہ ادھر شراب پر قیاس کرتے نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں  وجاہت مسعود کے کالم بابا نائینٹی سے کچھ سوالات میں وجاہت صاحب نے کافی سخت سوالات اٹھائے ہیں، جن کے بارے میں ہمارا مقدمہ بہت سادہ ہے، وجاہت صاحب فرماتے ہیں کہ شہاب جب خود صاحب حال اور قال تھے اور اس سے متعلق پاکستان کے مسائل پر سوال اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بابا نائنٹی کی رہنمائی کے باوجود پاکستان ان مسائل کا شکار کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شہاب اپنے تصوف کا مقصد فقط پابندی شریعت بتلاتے ہیں، ہمیں اس ہی مقصد کو سچ جاننا چاہیے۔
قدرت اللہ شہاب کے بارے میں ابن انشاء نے فرمایا تھا
قدرت اللہ شہاب کی باتیں،
ایسے ہیں جیسے خواب کی باتیں
گو کہ میں نے اپنے مرشد کی محبت میں ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے یا پھر اندھوں کے ہاتھی کا دوسرا کنارہ دکھانا چاہا ہے، اس مضمون میں درج تمام کالم نگاروں کے الفاظ میری یاداشت پرمبنی ہیں، کسی بھی قسم کے سہو کا امکان ہے۔ ہمارے نزدیک تمام کالم نگار قابل احترام ہیں اور ان کی رائے کے مقابلے میں میں نے اپنا خیال رکھا ہے، یہ کسی بھی قسم کی مقابلے بازی نہیں ہے، بس ایک چھوٹی سی کوشش ہے جو میرے اوپر محبت شہاب میں فرض ہے۔

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply