پاکستانی عوام چین کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟۔۔۔۔کمیل اسدی

دوستی کا انحصار کبھی بھی مفادات کی بنیاد پر نہیں ہوتا البتہ دوستی میں ہر دوست اپنی بساط کے مطابق دوسرے دوست کی فلاح و بہود ، ترقی اور خوشحالی میں سپورٹ ضرور کرتا ہے۔ دوستی قائم کیسے ہوجاتی ہے یہ بھی بڑا دلچسپ سوال ہے۔ جب بھی دو افراد کے خیالات ، رحجانات اور معروضات میں یکسانیت پائی جاتی ہے تو وہ دوستی کا سبب بنتی ہے۔ افراد سے آگے بڑھ کر یہی قاعدہ اقوام اور ممالک کی دوستی پنپنے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چین پاکستان کا واحد دوست ملک ہے جو ایک طویل عرصہ سے دوستی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے جبکہ مذہبی ، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے لحاظ سے دونوں ممالک میں کوئی مماثلت نہیں۔ دوستی کی بنیادی وجہ دوست کا دوست بھی دوست اور دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے کہ کلیے میں مضمر ہے۔
پاکستان چین کی دوستی اٹوٹ انگ ہے اور اس دوستی کی شان و لن ترانیوں کے لئے بہت سے قصائد لکھے جاتے ہیں اور لکھے جا سکتے ہیں لیکن آج میں اس سے مخالف سمت میں قلم کو جنبش دینے کی جسارت کروں گا اور امید کرتا ہوں کہ ان حقائق اور چبھتے سوالوں کو مثبت انداز میں لیا جائے گا اور جہاں خامیوں کا احاطہ کیا جائے گا ان کا مناسب تدارک کیا جائے گا۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ چائنا ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے اور دھیرے دھیرے امریکہ بہادر کی جگہ لیتے ہوئے نظر آتی ہے۔ معاشی ، اقتصادی اور تکنیکی ترقی اس خواب میں حقیقت کے رنگ بکھیرتی نظر آتی ہے۔ اور پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود اس پوزیشن میں ہے اگر بذات خود سپر پاور نہیں بھی بنتی تو کسی بھی سپر پاور کے لئے اپنے شانے ضرور مہیا کرسکتی ہے۔
آج وطن عزیز میں چائنیز ہر شہر میں بکثرت نظر آتے ہیں لیکن کسی بھی شہر میں ان کے لئے کسی قسم کے سیکیورٹی خدشات موجود نہیں ہیں۔ البتہ ایسے علاقے جہاں چائنیز کے لئے سیکورٹی خدشات موجود ہیں وہاں ویساہی سیکورٹی رسک عام پاکستانیوں کے لئے بھی یکساں کھٹکتا ہے۔
کچھ عرصہ سے پاکستانی عوام میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے۔ چینی افراد پاکستان میں دھڑا دھڑ جائیدادیں خرید رہے ہیں اور اپنے کاروبار سیٹ کررہے ہیں جس سے ایک بدگمانی پیدا ہور ہی ہے کہ کہیں ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح مستقبل میں ہمیں یرغمال تو نہیں بنا لیا جائے گا۔ اور ہم ایک بار پھر برطانیہ کی غلامی کے دور میں دھکیل دئیے جائیں گے۔
چائنا کی متعدد کمپنیز بشمول ٹیلی کام اور دیگر ملک عزیز میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ لیکن ضرورت سے زیادہ چائنا کا سٹآف بھرتی کرنا اور مقامی لوگوں کو نظر انداز کرنا کس زمرے میں آتا ہے؟ کہتے ہیں کہ بھکاری کو بھیک نہیں دو بلکہ اسے کاروبار کا گر سکھاؤ یا اسے کاروبار سیٹ کرنے میں اس کی مدد کرو۔ کیونکہ بھکاری بھیک کا پیسہ محفوظ کرنے کے بعد پھر بھی بھیک مانگے گا لیکن کاروبار کی صورت میں وہ خود کفیل ہوجائے گا۔ چینی کمپنیاں سب آلات و مشینری اپنے ہی ملک سے درآمد تو کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی ایک بھی آر این ڈی ڈیپارٹمنٹ یا انڈسٹری قائم نہیں کرتے جس سے دوست ملک خود کفیل ہو سکے اور اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکے۔ بلکہ ہمیشہ اس مشینیری کے لئے چائنا پر ہی انحصار کرتا رہے۔
چائنا سے زیادہ تر ایسا سٹاف پاکستان کے لئے بھرتی کیا جاتا ہے جو قابلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ انہی چائنیز کو اگر پاکستانی لبادہ اوڑھا کر انٹرویو میں پیش کیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ بیروزگاری ہی انکا مقدر بنے۔ چائنا سے جتنا بھی سٹاف پاکستان درآمد کیا جاتا ہے ان کی صرف ایک ہی کیٹیگری ہوتی ہے یعنی ان سورس ۔ جبکہ پاکستانیوں کو ان سورس سے ہٹ کر آؤٹ سورس اور بزنس آؤٹ سورس کی کی کیٹیگری میں تقسیم کر کے حق تلفی کی جاتی ہے۔ لوکل افراد کی محنت کا صلہ ان سورس چائینیز ملازمین میں بونس ، سالانہ منافع اور شئیرز کی صورت میں تقسیم کردینا کہاں کا انصاف اور قانون ہے؟
حالیہ منصوبہ سی پیک میں جہاں حکومت پاکستان کی نا اہلی موجود ہے وہاں دوست ملک چین کی طرف بھی انگلی اٹھتی ہے کہ اس نے لوکل ملازمین کے کوٹہ کی کیا شرح مختص کی ہے یا پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے یہاں بھی وہی صورتحال ہو گی جو ماضی کا خاصہ رہی ہے۔ اس طرح کی پالیسیز کی وجہ سے عوام منفی رحجانات کا شکار ہو رہی ہے جو کہ مستقبل میں کسی بھی لحاظ سے تعلقات کی بہتری کے لئے موزوں نہیں ہوگا۔
چین کے مسلم اکثریتی علاقوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً  پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کے مساجد کو نقصان پہنجایا جارہاہے اور اسلامی  شعار کا مذاق اڑایا جاتاہے ۔ گذشتہ دنوں یہ خبر بھی عام تھی کہ چین نے مسلمانوں کی داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ سب خبریں بے بنیاد ہوں لیکن اس حوالے سے چینی نمائندگان کی طرف سے کوئی تردید ، وضاحتی بیان ،موقف یا مثبت پروپیگنڈا نہیں کیا گیا۔ بظاہر یہ باتیں معمولی نظر آتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام مذہب کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں یہ مذہب کا ہی استعمال تھا کہ جس کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان نے روس کو ناکوں چنے چبوادئیے تھے اور ایک سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ یہ بات موضوع سے ہٹ کر ہے اس لئے مزید وضاحت نہیں کروں گا کہ اس انتہا پسندی کے نتیجہ میں پاکستان کو ابھی تک کیا کچھ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چائنا کو ان معاملات میں احتیاط برتنی ہوگی اور مذاہب کا احترام کرتے ہوئے اس طرح کی کسی بھی گیم کا حصہ نہیں بننا ہوگا۔
امسال یہ خبریں بھی سوشل میڈیا کی زینت بنیں کہ چائنا پاکستان کو جب بھی قرضہ مہیا کرتا ہے تو پاکستان کو اپنے اثاثے گروی رکھنے پڑتے ہیں یعنی موٹر ویز، ریلوے ، پی آئی اے و دیگر ادارے گروی رکھنے کی صورت میں پاکستان آج تک چین سے قرضہ وصول کرتا آ رہا ہے۔ اس مفروضہ میں کتنی حقیقت ہے یا سراسر جھوٹ ہے کسی بھی فورم پر چائینز مندوبین و نمائندگان کی طرف سے تردید یا وضاحت نہیں کی گئی ۔
اب وطن عزیز میں جگہ جگہ چائنیز زبان سیکھنے کے سینٹرو ادارے متحرک ہیں ۔ ۔ اگرچہ کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کی زبان سیکھ کر ایک دوسرے کے مزید قریب آ سکتے ہیں لیکن پروپیگنڈا یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ایسا وقت دور نہیں جب انگلش کی جگہ چائینز زبان سب پر مسلط کردی جائی گی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ چائینز مقامی زبان سیکھ کر عوام میں گھلنے ملنے کی کوشش کرتے۔ اصول تو یہی بنتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوتا ہے تو وہ اس ملک کی زبان کلچر اور معاشرت کو اہمیت دیتے ہوئے انہی اقدار کو اپنا کررچنے بسنے کی کوشش کرتا ہے۔
آج  سوشل میڈیا کا دور ہے اور جنگ ہو یا امن اس کا سب سے بڑا ہتھیار منفی یا مثبت پروپیگنڈا ہےاور اس میدان میں چین کھل کر سامنے نہیں آرہا۔ ممکن ہے کہ پروپیگنڈہ ان قوتوں کی طرف سے جو اس طویل دوستی میں دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ کسی طرح پاکستان کو تنہا کیا جائے۔ امید ہے کہ چائنا ایسے اقدامات کی کوشش کرے گا جس سے عوام میں بے چینی و انتشار کا خاتمہ ہو اور یہ دوستی کا سفر اسی طرح گامزن رہے ۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply