آٹھ اکتوبر کی یاد میں ۔۔۔جبران عباسی

تیرہ برس گزرنے کو ہیں مگر وہ خوف جانے کا نام نہیں لیتا ، آج بھی اس دن کا کوئی  لمحہ بھولتا نہیں  ، بعد میں اور پہلے ہونے والے کئی واقعات یاداشت سے مٹ گئے مگر یہ نوحہ انمٹ رہا ، دکھ بڑا تھا کہ خوف جو چھوڑ گیا کہ جنگیں ، قدرتی آفات اور انہونیاں کس قدر خطرناک اور خوف زدہ کر دینے والی ہوتیں ہیں ۔ میں نے سن رکھا ہے بروز قیامت افراتفری کا سماں ہو گا ، جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے ، ایک نیکی کیلئے سگے رشتے فراموش کر دیے جائیں گے ۔ میں اس بھیانک تصور کو اپنے تخیل میں نہیں  لاتا مگر ہاں اگر کوئی  پوچھے قیامت صغری ؟ تو بےساختہ ذہن سے وہ سانحہ پھسل کر آنکھوں میں فلمی منظر جیسا چلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ نوحہ ، غم ، دکھ و ماضی لکھنے والے کی نفسیات کا لازمی حصہ ہیں ،شاید کہ اس کا ذاتی مشاہدہ خوب بروئے کار آتا ہے اگرچہ یہ لمحے اداسی و یاسیت کا سبب ہیں ۔ زلزلہ کسے کہتے ہیں یہ لفظ اس سانحہ سے صرف چند ماہ پہلے سنا تھا جب پورے گاوں و علاقے کے لوگوں نے ایک رات اس افواہ پر باہر ڈوگوں (کھیتوں) میں گزار دی کہ شدید زلزلہ متوقع ہے ۔بھلا سانحہ و آفاتیں بھی پوچھ کر آتیں ہیں ۔ ایکسائٹمنٹ کی انتہا تھی ۔ یہ اعلان مسجدوں میں کئے گئے ۔ پھر ایک دن سچ مچ یوں ہوتا ہے آٹھ اکتوبر کو کہ کمرہِ سکول کی ٹین چھتوں میں شدید گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے ، دیواروں میں شگاف پڑنے لگتے ہیں ۔ نزاکت استاد اپنی کرسی سے اٹھتے ہیں ، چلاتے ہیں کہ باہر بھاگو زلزلہ ہے ، خوف کی شدید لہر میں لپٹے ہمارے جسم باہر کو دوڑتے ہیں ۔ یہ کیا ہو گیا وہ سکول جو ابھی سالم ، سلامت کھڑا تھا ، سلیٹوں پر لکھے سوال نزاکت استاد چیک کر رہے ہیں ، اب وہ سکول فنا ہو رہا ہے ، دیواریں ٹوٹ رہی ہیں ، جیسے ایک کشتی پانی میں ڈوبتی ہے ایسے ہی ہمارا سکول زمین دوز ہوا ۔ مگر یہ منظر پتھروں کے گرنے ، زلزے کے شونکار ، محفوظ مگر ہماری چیخوں کی تیز پکار اور ورد سے بہت بھیانک ہو گیا، جیسے ٹائی  ٹینک کے آخری سین میں فلمایا گیا ۔ جب خدا نے زندگیاں لکھیں تو حتی  کہ کوئی  زخمی بھی نہیں  ہوا ۔

وہ دو منٹ بھولنے کو کیسے بھولیں؟۔۔۔ ’’مجھے اندازہ ہے آج بھی جب 2008 کے زلزلے کی تباہ کاریاں  یاد آتی ہیں جسم میں ایک سنسنی پھیل جاتی ہے۔ سکول کی عمارت گر رہی ہے، ہم بھاگ رہے ہیں ، گھر میں دو جنازے پڑے ہیں ۔ ذہن کی یہ تلخیاں مجھے کبھی نہیں  بھولتیں، تو شامی بچوں میں یہ تلخ یادیں کیسے محو ہوں گی ۔‘‘ ’’میری یادوں کی میراث میں، ایک طویل بیماری ہےیا وہ قیامت خیز زلزے کی چند جھلکیاں، سکول کی عمارت گر رہی ہے، میں بھاگتے ہوئے سیڑھیوں پر گر پڑا، کئی میرے اوپر سے کودے ، تھوڑی دیر بعد جب دادا آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے گھر میں ایک لڑکی والدہ کی مدد کرا دیتی تھی، گھر گرا تو دب گئی اور تایا جان کے گھر میں دادی اور تایا زاد ہمشیرہ ملبے میں دب گئیں، دادی تو تین چار گھنٹوں بعد ہی چل بسیں مگر بہت کوششوں کے باوجود اس لڑکی کا جسم تین دنوں بعد ہی نکالا جا سکا جبکہ ہمشیرہ کو بحالی میں کافی عرصہ لگا ۔ ‘‘ آپ مجھ سے کہتے ہیں اُن کا نوحہ لکھوں میں، میں تو خود کئی دن سے اُس مہیب ملبے کے بوجھ سے نہیں نکلا ۔۔۔

بہرحال یہ صدمہ بہت گہرا  اور  شدید تھا ، مجھ سمیت لاکھوں خاندانوں کیلئے بہت نقصان دہ ۔ بالاکوٹ و مظفر آباد شہروں کا پومپیای بن جانا ، ستر سے ایک لاکھ تک کے جانی نقصان  پر   وزیراعظم آزادکشمیر چیخ اٹھا میں کھنڈروں کا وزیر اعظم رہ گیا ہوں اور اربوں روپے کا جو انفراسٹرکچر تباہ ہوا آج تک وہ صرف بحال نہ ہو سکا ۔ اگرچہ کئی ایک بددیانت ضمیر غیر ملکی امداد سے ذاتی طور پر بہت خوشحال ہوئے ،ان میں وہ بھی ہیں جن پر تنقید کرنا محبِ وطنی کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ ایک قطعہ کسی نے لکھا کہ! بانٹنے والے جو ہیں امداد کے مستحق وہ بھی نہیں ہیں داد کے جو شواہد مل رہے ہیں اب ہمی  ہیں تناظر میں عجب روداد کے قدرتی آفات کی تاریخ پرانی ہے ، مذہبی لٹریچر کے مطابق یہ نافرمان قوموں کیلئے پیدا پوتی ہیں ۔ کئی ایک قومیں زمین دوز ہوئیں ، مشہور ترین میں 79 عیسوی میں اٹلی میں واقع آتش فشاں پہاڑ “Vesuvius”کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی تباہی ہے جسکے نتیجے میں تہذیب و تمدن کا مرکز پومپیائی  نامی شہر تیرہ سے بیس فٹ تک لاوے میں غرق ہو گیا تھا ۔ حالیہ انڈونیشیا میں زلزلہ و سونامی نے کئی جزیروں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ اموات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو چکی ہے ۔

زلزلے کیوں آتے ہیں؟وجہ  بقول سائنسدان  پلیٹوں کا سنٹرل پوائنٹ سے گھوم جانا ہے جبکہ مذہب پڑھانے و سمجھانے والے اسے خدا سے نافرمانی کی سزا  کہتے ہیں ۔ ’’ جب خدا کا حکم آتا ہے بارش کے جھونکے ، تیز آندھیاں ، طوفان اور زلزلہ سب آن کی آن ختم کر دیتے ہیں‘‘۔ یہ عبرت کا نشان ہیں اس فرد کیلئے ،اس قوم کیلئے جو جنگجویانہ ذہنیت کی نمائندہ ہے کہ چند لوگوں کی مفادی سوچ کا نتیجہ پوری قوم بھرتی ہے ۔ بہرحال ضروری نہیں  میری طرح سب ہی اس سانحہ کے ٹراما کا شکار ہوں  ، تیرہ برس بیت چکے ہیں ، لوگوں کے مزاج و معیار میں فرق آ چکا ہے ، کچے گھر تھے اب ماربل و ٹائل کا استعمال عام ہے ، ہاں البتہ اس عظیم سانحے کی کوئی  اگر فقط نشانی ہے تو نامکمل حکومتی عمارتیں، بالخصوص ہسپتال  ہیں اور ہمارے  ذہنوں میں خوف کے سائے ۔ یہی ہے   اکتوبر کی کہانی ، دکھ میں لپٹی یادیں جب آتی ہیں تو ایک خاموش سی اداسی پھیل جاتی ہے اور شاعر نے بھی کہا تھا!

زلزلہ آیا اور آ کر ہو گیا رخصت

Advertisements
julia rana solicitors

مگر وقت کے رخ پر تباہی کی عبارت لکھ گیا!

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply