حرام خور

سنا؟۔۔۔۔حرام خور شہر میں داخل ہوگیا ہے۔۔کیا کہا؟ حرام خور؟یاﷲرحم فرمانا۔
یہ تھی وہ خبر جس نے شہر والوں کو پریشان کردیا تھا۔حرام خور شہر میں داخل ہو چکا تھا۔حرام خور آخر کون ہے؟ یہ کب اور کیسے داخل ہُوا، اِس بارے میں کوئی اتفاق نہیں تھا۔اتفاق اِس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اُس حرام خور کی اصل شکل و ہیئت کیا ہے؟عمومی رائے یہی تھی کہ وہ ایک مافوق الفطرت بلا ہے جس کا کام زمین پر فساد برپا کرنا ہے؟کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق ہو گئے اور تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ حرام خور نے دوا میں ملاوٹ کر دی تھی۔خبر سن کر لوگوں کے رنگ فق ہو گئے اور وہ آنے والی مصیبت کے خیال سے کانپنے لگے۔چند دن بعد ہی شہر کا نیا پُل زمین پر آ گرا۔کنٹریکٹر کا اندازہ تھا کہ حرام خور نے سیمنٹ میں ملاوٹ کر دی تھی، جبکہ سیمنٹ فیکٹری کے مالکان کا خیال تھا کہ حرام خور نے پُل سے سریا چوری کر لیا تھا۔دونوں صورتوں میں سب کو یقین تھا کہ یہ کام حرام خور کا ہی ہے۔

تیسرا بڑا واقعہ تب پیش آیا جب طوفانی بارش نے قریبی علاقوں میں گندم کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔حرام خور نے راتوں رات فلور ملوں اور دکانوں سے آٹے کی زیادہ تر بوریاں غائب کر دیں۔جو چند بچیں وہ لوگوں کو بڑی مشکل سے دگنی تگنی قیمت پر ہاتھ آئیں۔حرام خور اس سے بھی بڑی واردات کے فراق میں تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔اسی دوران رمضان کا مہینہ آگیا۔لوگ جوق در جوق رمضان کی تیاری میں مگن ہوگئے مگر تیسرے روزے تک پھلوں سبزیوں اور دیگر اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی۔تفتیش پر پتہ چلا کہ حرام خور نے راتوں رات مال خرید کر سٹاک کرلیا ہے اور قیمتیں حرام خور کی ایما پر بڑھائی گئی ہیں۔

اسی افرا تفری میں عید قریب آگئی۔حرام خور کی اور چاندی ہوگئی۔شہر کی ساری کپڑا مارکیٹ, درزی, جنرل سٹور اور ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکانوں پر من مانی قیمتوں کا راج ہوگیا۔تاجر کمیٹی نے تفتیش کی تو یہاں بھی حرام خور کا کُھرا ملا۔شہر کے لوگ ناظم اعلی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حرام خور کی شکایت کی تاکہ ناظم اعلی اس کا قلع قمع کر سکے۔ناظم اعلی نے شہریوں کو حرام خور پر سخت ایکشن کی یقین دہانی کروا کر واپس بھیج دیا۔مگر شام تک حرام خور نے ناظم اعلی کو ایک بریف کیس پیسوں کا بھرا ہوا بھیج کر معاملہ رفع دفع کردیا۔شہر والوں کو اس نئی حرام خوری کا علم ہوا تو وہ شہر کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس میں اس کے مالک سے ملنے چل پڑے کہ آج کل میڈیا بہت طاقت ور ہے چلو اس کو اپنے ساتھ ملا کر حرام خور کے خلاف کوئی ایکشن کروائیں۔میڈیا ہاؤس کے مشہور اینکر مالک نے شہریوں کی بات سنی اور ا ن کو اس وعدے کے ساتھ واپس بھیج دیا کہ وہ حرام خور کی خبر لے گا۔

اگلے روز کے اخبار کی شہ سرخی کچھ اس طرح تھی کہ”شہریوں کی اپنی کوتاہیوں, زیادتیوں, ظلم اور لاپرواہی نے ایک معصوم کو حرام خور بنا دیا”۔شہری جان گئے کہ حرام خور کا جادو میڈیا ہاؤس کے سر چڑھ گیا ہے۔حرام خور نےاس شہر میں اور پاؤں پسارے کہ شہر کی درسگاہیں اور اساتذہ تک حرام خور کا شکار ہوگئے۔سرکاری درسگاہوں میں حرام خور نے تعلیم کا عمل سست کروادیا رشوت دے کر اور اساتذہ کو پرائیویٹ سکول اور کالجز میں زیادہ تنخواہ پر نوکری دے کر اور حرام خور نےان درسگاہوں کی فیس بھی بڑھا دی اچھی تعلیم کا شوشہ چھوڑ کر۔اب صورتحال یہ تھی کہ حرام خور کی آسیب زدہ اور مافوق الفطرت شخصیت سے شہر کا کوئی حصہ کوئی ادارہ کوئی پیشہ کوئی انسان محفوظ نہیں تھا۔اِس کے بعد تو شہر میں کہرام مچ گیا۔کیونکہ حرام خور شہر کے چپے چپے میں اپنے آسیبی وجود کے ساتھ سرائیت کر گیاتھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھانوں میں مجرموں کی جگہ معصوموں کے نام ظاہر ہونے لگے اور معصوموں کو خلاصی کے لیے خطیر رقوم خرچ کرنا پڑیں۔بڑے بڑے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور سکولوں میں افسروں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو حرام خور نے کام سے روک دیا اور اُنہیں مجبوراً اپنی خدمات نجی طور پر پیش کرنا پڑیں۔لوگ تنگ آ کر شہر کی جامع مسجد کی جانب دوڑے اور بحث مباحثہ کرنے لگے۔ایک انتہائی ضعیف بزرگ بمشکل اٹھے اور اٹھ کر محراب کی دائیں جانب لٹکی آیت کی طرف اشارہ کیا۔وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل۔۔۔اشارہ دیکھ کر جن کو بات پہلے سمجھ آئی وہ پہلے اور جن کو بعد میں سمجھ آئی وہ بعد میں سر پر پاؤں رکھ کر دوڑے۔ سب نے آیت کے بیسیوں چھوٹے بڑے تعویز بنوا کر اپنے گھروں دکانوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکا دیے۔اِس کے علاوہ پھول بوٹوں سے سجے بڑے بڑے تعویز شہر کی شاہراہوں پر آویزاں کر دیے گئے۔کسی کے ذہن میں نہ آیا کہ بزرگ کا اشارہ آیت کے مفہوم کی طرف تھا۔
“اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ”۔۔۔۔۔!!!

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply