ایک لفظ، ایک احسان

چھٹی ساتویں جماعت کے زمانے میں ہمارے اساتذہ جو سبق یاد کرنے کو دیا کرتے وہ اگلے روز دو تین طلباء سے خود سنتے اور پھر ان طلباء سے کہتے کہ بقیہ کلاس کے سب بچوں کا سبق اب آپ لوگ سنو، ایک ایک کے پاس جا کر – تو کبھی کبھار خوش قسمتی سے ہمیں بھی سبق یاد ہوتا تو استاد دوسروں سے سبق سننے کا حکم صادر فرمایا کرتے – جب میں کبھی سبق سنتا تو چند ایک میرے ہم جماعت ایسے بھی تھے جو تھوڑا سا سبق سنا کر کسی ایک جگہ اٹک جاتے اور بار بار کہتے کہ یار بس یہاں سے ایک لفظ بتا دے تو آگے پورا سبق سنا دیں گے ۔بس ایک لفظ کی مدد ہی تو ہے اگر بتا دو توبقیہ سبق اس لفظ سے شروع کر کے آخر تک سنا دیں گے-
سو جب کبھی میں وہ ایک لفظ انکو بتا دیا کرتا تو یقین جانیے وہ بقیہ پورا سبق وہاں سے آگے آخر تک سنا دیا کرتے تھے اور اگر ایک لفظ نہ بتایا جاتا تو وہ دن استاد محترم کی ٹکور نصیب ہوا کرتی تھی – ایسا ہی ہمارے آس پاس بسنے والے بہت سارے انسانوں کا المیہ ہوتا ہے یعنی وہ کچھ کارہائے زندگی کر چکے ہوتے ہیں اور کسی ایک جگہ آکر اٹک جاتے ہیں۔ وہی لمحہ ہوتا ہےجب انکو ایک چھوٹے سے دھکے کی ضرورت ہوتی، اس چھوٹی سی مدد کی ضرورت ہوتی ہےجو انکو وہاں سے ری سٹارٹ کر سکتی ہے۔ اس چھوٹی سی چیز کی ضرورت ہوتی ہےجو انکو پھر آنے والی بہت ساری چیزیں بہ آسانی کرنے میں آخر تک مدد دیتی۔
اگر اس مقام پر انکو وہ چھوٹی سی مدد نہ پہنچے تو وہ بہت دیر تک اسی مقام پر رکے رہتے ہیں، گرداب میں پھنسے رہتے ہیں اور زندگی کا سفر کٹھن سے کٹھن تر ہوتا چلا جاتا ہے حالا نکہ وہ اس لمحے کسی انسان دوست کی تھپکی، مدد، احسان سے بہ آسانی نکل سکتے ہوتے ہیں مگر تب جب کوئی انسان دوست انکی مدد کر دے، وہ ری سٹارٹ میں انکو سہولت فراہم کرے – بس اتنا ہی ہے ہمارے آس پاس بہت مشکلات میں پھنسے انسان رہتے ہیں کبھی ہم نوٹ ہی نہیں کرتے اور کبھی جان کر انجان بن جاتے ہیں کہ ہم نے تو وہ بڑے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں جو ہماری اپنی زندگیوں کو سہل سے سہل تر بنا سکیں یہ چھوٹی سی مدد کرنے کا وقت کہاں ہوتا ہمارے پاس جو کسی مخلوق کا زندگی بھر کا بھلا کر دے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply