مکالمہ مگر شائستگی سے۔۔۔۔عمر فاروق خان

مکالمہ اپنے موقف اور سوچ کو شائستگی سے بیان کرنے کا نام ہے نا کہ تضحیک وتحقیر کا نام۔
ہر انسان کو اپنی سوچ فکر اور اظہار راۓ کی آزادی حاصل ہے اگر اپ کو کسی کی سوچ اور فکر سے اختلاف ہے تو اپ کو بھی اس پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے مگر اسکے بھی اصول اور حدیں مقرر ہیں
اہل علم کی نشانی ہی یہی ہیکہ وہ دوسروں کو غلط دیکھ کر اسکی اصلاح کی فکر اس انداز میں کرے کہ اگلا بندہ اپنی غلطی کو غلطی سمجھے نا کہ تضحیک وتحقیر اگر اپ اسکی اصلاح ناشائستگی اور تضحیک وتحقیر سے کرنے کی غلطی کریں گے تو سامنے والا اپنی غلطی پر اور ڈٹ جاۓ گا ۔
اور غلطی کی نشاندہی کرنے کا بہترین طریقہ مکالمہ ہے مگر
ہم مکالمہ کے تمام اصول توڑنے میں اس حد تک آگے نکل گۓ ہم مکالمہ صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کر رہے ہیں ۔
ہم مکالمہ کے فروغ کے حق میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر فضائل بیان کرتے ہیں مگر جب مکالمہ کی باری آتی ہے تو ہمارے رویئے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ ہم اپنی سوچ اور دلیل کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اس کو مخالف فریق پر ٹھونسنے کیلئے تاریخ کی کتابیں خود سے لکھ کر اس پر دلیلوں کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں اور مخالف فریق کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے ہر اصول اور حدیں توڑ دیتے ہیں بغض دفعہ جہاں دلیلیں ختم ہو جاۓ تو جس بات پر مکالمہ کر رہے ہوتے اس کو وہی چھوڑ کر بات فریق مخالف کی ذاتیات تک لے جاتے ہیں اسکی عائلی اور نجی زندگی کو چوراہے میں کھڑا کر کے اسکے ایمان اور غیرت کی چادرکو تارتار کردیتے ہیں اور بات گریبان کو چاک کرتے کرتے اسکی لنگی تک جا پہنچتی ہے۔
ایسے مکالمے ہم صرف اپنی علمی دھاک اور انا کیلئے کرتے ہیں ناکہ اس سے دماغ پر پڑے منوں کے حساب پڑی دھول جھاڑنے کیلئے! فریق مخالف کو یہ حق حاصل ہی نہیں کہ وہ اپنی راۓ,سوچ اور فکر پر بات کر سکےاور اگر وہ یہ گستاخی کر بیھٹے تو ہم شیش محل بنا کر اپنی انا کی توپوں سے اس پرگولہ باری شروع کر دیتے ہیں ۔
سماجی ذرائع ابلاغ میں کئی نامور علماء لکھاری دانشور اور صحافی نظر آئے گے جن کی کسی بات پر آپ تنقید کی گستاخی کر بیٹھتے ہیں تو ان کے قلم کی جنبش اپ کو دن میں تارے دکھا دے گی۔ ایسے لوگ دوسروں پر تنقید کو اپنا پیدائشی حق سمجھے گے مگر دوسروں کی تنقید کو تحقیر سمجھ کر خوب لتاڑے گے۔
بغض دفعہ ہم مکالمہ میں اتنے ڈھیٹ واقع ہوتے ہیں کہ فریق مخالف کا موقف جانے بغیر اس کی بات سے اپنی مرضی کی تشریحیں نکال کر اس پر تمسخرانہ جملے کستے ہیں خود ہی مدعی خود قاضی القضاہ بن کر خود ہی سوال گھڑ کر خود ہی اس پر جرح کر کے پھر خود ہی اس کے ایمان کے فیصلے صادر کر دیتے ہیں اور دوسرے کو یہ حق حاصل ہی نہیں کہ وہ اپنا مدعا اور صفائی پیش کر سکے اور یہ ڈھٹائی تب اپنے عروج پر ہوتی ہے جب سامنے کی سچائی دلیلوں کے بجائے اپنی انکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو اپنی انا کی توہین سمجھتے ہیں ۔
اکثر مکالمہ کرتے کرتے اتنے بد تہذیب ہو جاتے ہیں کہ دلیل دیتے دیتے ایک دوسرے کو ذلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
اللہ نے ہر انسان کو الگ دماغ اسی لیئے دیا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کر سکے اور اس میں اتنی ہمت نہیں تو اپنے سے عقلمند کو دیکھ کر فیصلہ کرے ۔
عمرفاروق خان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply