27ڈریسز اور پاکستان کی عوام ۔ عینی علی

شب و روز ملکی حالات کے اونٹ کی اٹھک بیٹھک سے گبھرا جانا ہر پاکستانی کا حق ہے اور ایسے میں جس کی جو حیثیت ہو  وہ ایسے ہی اپنی تفریح کا سامان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ گوگل پر واہیات سرچ کرنے سے لے کر فیسبک پر مغلظات بکنے تک، گھروں میں پرتشدد اقدامات سے چوراہوں پر قوانین کی دھجیاں بکھیرنے تک بلاشبہ ہرعام  پاکستانی اپنے ہی نظام کو ٹھڈا مار کر اپنا ہی ٹخنہ تڑواتا رہتا ہے-  خواص کا معاملہ البتہ الگ ہے۔ دل آیا تو بم مار کر پہاڑ پر چڑھے سردار کا غرور خاک میں  ملا دیا ،یا اپنے سینکڑوں جوانوں کو برف  پوش پہاڑوں میں اتار کر مُکر گئے۔ بیٹے سے تنخواہ مقرر کر لی اور بیٹی کو پورا سیاسی کیرئیر گفٹ کر دیا -سندھ کےنوزائیدہ  بچوں سے آکسیجن چھین کراپنے  بچوں کو بھٹو کا نام دے دیا ، مدرسے کے طالبعلموں کو ڈنڈے اور غلیلیں پکڑا کر چوراہوں میں کھڑا کر دیا  اور  جیب میں عوامی نمائندوں کے استعفے ڈال کرسسٹم کو للکارنے لگے۔  کتنا تفریح آموز ہوتا ہے نا  میڈیا کہ درد دل رکھنے والے نما ئندوں کا شاہ رخ ، مونس اور ارسلان کے ماں باپ سے  شاہ زیب، مغیث ، منیب  اور آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کے لیے  تعزیتی کلمات جمع کرنا-

خیر ہم نے ہمیشہ کی طرح کتابوں اور فلموں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اس راجدھانی میں بھی کیون سپیسی کا جلا پتلا اور  پدماوتی کی کٹی گردن ہی دکھائی دی۔ کافی تلاش کرنے پر ایک بظاہر بے ضرر سی فلم دکھا ئی دی جس کا نام 27 ڈریسز  یا ستائیس لباس تھا۔ یہ کہانی ایک ایسی محنتی، خوبصورت اور درد دل رکھنے والی خاتون کی ہے جو بچپن سے لوگوں کے خوبصورت پلوں کو مزید خوبصورت بنانے میں اپنی تمامتر توانایئاں صرف کر دیتی ہے- یہ خاتون چاہ کر بھی اپنے لیے کوئی من چاہا جیون ساتھی نہیں ڈھونڈ پاتی ہے کیونکہ اسے دوسروں کی خوشیوں کے لیے محنت کرنے سے فرصت نہیں ہے۔اپنی نیک طبیعت کے سبب اپنے باس کو پسند کرنے کے باوجود اپنی لا ابالی بہن کی شادی اس سے کروانے پر تیار ہو جاتی ہے- اس کی الماری  27 شادیوں میں دوسروں کی خوشی اور مرضی سے بنائے گئے  ستائیس لباسوں سے بھری پڑی ہے جو دلہن کی بہترین دوست خواتین زیب تن کرتی ہیں تا کہ دلہن ان کے جھرمٹ میں سب سے حسین اور منفرد دکھائی دے۔ پھر اس کی زندگی میں ایک ہیرو آتا ہے جو اسے کسی نا کسی طریقے سے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اس کا خود اپنا خیا ل رکھنا کتنا ضروری ہے درحقیقت یہ ہیرو بھی اپنے کسی مقصد سے ہی اس سے جڑا ہوتا ہے، مگر چونکہ فلموں میں اچھائی کا جیتنا ضروری ہوتا ہے تو آخر میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہیروئین اپنی شادی اپنی پسند سے کرتی ہے اور وہ 27 خواتین جن کی شادی کو اس نے 4 چاند لگائے ہوتے ہیں وہی 27 لباس پہن کر اس کی خوشی میں شریک ہوتی ہیں۔

اب فلم تو تفریح کے لیے دیکھی تھی پر ختم ہونے کے بعد میں دیر تک سوچتی رہی کہ ریاست پاکستان بیچاری بھی دوسروں کی ہر خوشی کے موقع پر اپنے لیے زرق برق لباس بنوا کر تصویریں کھنچوانے پہنچ جاتی ہے۔ آخر میں دلہن تو خوش خوش پیا گھر سدھار جاتی ہے اس کے لیے ایک جوڑا چھوڑ جاتی ہے جو یہ اپنی الماری میں سجا کربھول جاتی ہے۔ہمارے عوام کبھی  بٹوارے کا چولہ پہن کر ہندوستان کی آزادی کی تقریب کو چار چاند لگانے میں گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتے ہیں تو کبھی کشمیر کے دریاؤں  کے بٹوارے کی تقریب میں مجاہدین بن کر پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی روس اور امریکہ ایسے بدمست ہاتھیوں کی تفریحات کے واسطے  افغانستان میں رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں تو کبھی امریکہ کے دہشتگردی میلے میں آتشبازیاں بن کر پھوٹتے رہتے ہیں۔ اور تو اور سعودی شہزادوں کے جشن عید میلاد میں بھی یہ سڑکوں پر غلیلیں لے کر خود اپنا ہی شکار کر نے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

پتا نہیں ان کا  اصل ہیرو کب آئے گا جو اپنے مفاد کے لیے ہی سہی ان کو یہ تو سمجھا سکے گا کہ جناب اپنے مسائل پر اپنی زندگیوں پر اور اپنے حالات پر نظر کرو۔ دنیا آپ کو نا چ نچوا کر آگے نکل جاتی اور آپ ایک نیا چولہ بنا کر ایک نئے  تماشے میں شامل ہونے کو تیا ر رہتے ہیں۔ ابھی تک  تو بیچارے باس سے کئی بہنوں کی شادیاں کروا چکے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ باس بوٹ پالش کرنے کے پیسے دیتا ہے بہنیں بیاہنے کے نہیں۔

مختصر تعارف

Advertisements
julia rana solicitors

عینی نے بین القوامی تعلقات کے مضمون میں ایم-فل کیا ہے۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، آجکل لاہور میں مقیم ہیں اور اپنا کاروبار کر رہی ہیں۔ کتابوں، فلموں، پودوں، بچوں اور خوشبووں کی باتیں گھنٹوں کر سکتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply