ریاست بمقابلہ ریاست۔۔آغر ندیم سحر

اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہاہوں‘یتیم خانہ چوک میں ریاستی  اداروں اور کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کی محاذ آرائی جاری ہے۔یہ جھگڑا گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے اور ریاست اپنے دفاع میں پیش پیش ہے جبکہ کالعدم تحریک کے کارکنان کا خیال ہے کہ وہ چونکہ سچے عاشقانِ رسول ہیں لہٰذا اگر ریاست اپنے معاہدے پر عمل نہیں کرتی تو اس کاازالہ ریاست‘ریاستی اداروں کے علاوہ عام آدمی کو بھی بھگتنا ہوگا ور پھر ہم نے دیکھا‘کالعدم تحریک کے کارکنوں کے ہتھے جو جو چڑھا‘مارا جاتا رہا۔خواتین اور بچوں کو بھی معاف نہ کیا گیا‘عوام کو گاڑیوں‘رکشوں اور موٹر سائیکلوں سے اتار کر ذلیل و خوار کیا گیا‘ان کی گاڑیوں اور رکشوں تک کو آگ لگائی جاتی رہی۔شہریوں کا  جینا دو بھر کر دیا گیا‘لاہور‘اسلام آباد اور کراچی سمیت کئی بڑے شہریرغمال بنا لیے گئے اور ریاست ان مذہبی جنونیت کا شکار متعصب طبقے کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہی لیکن کسی نے درست کہا تھا کہ ”متعصب اور متشدد رویے کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے‘‘،سو ایسا ہی ہوا۔۔

جب یہ کارکنان اپنے متشدد رویوں سے باز نہ آئے تو ریاست حرکت میں آئی اور پھر جو ان کے ہتھے چڑھتا گیا‘سرخ و سیاہ ہوتا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اتوار کی صبح تھانہ نواں کوٹ پر ان عاشقوں  نے حملہ کیا اور انتہا کر دی‘ریاست یہ تماشا کیسے دیکھ سکتی ہے لہٰذا سانحہ یتیم خانہ اس کا ری ایکشن ثابت ہوا۔ڈی ایس پی عمر فاروق کا ویڈیو بیان بھی دیکھا‘ان کا چہرہ لہولہان ہے اور وہ ہاتھ جوڑ کر استدعا کر رہے ہیں کہ افہام و تفہیم سے معاملہ نمٹایا جائے۔ویڈیو میں موجود شخص   کے بقول صبح تھانے پر حملہ کیا گیا۔تھانہ نواں کوٹ تھانے پر کالعدم تحریک کے کارکنان نے سر پر امامہ سجائے جس انداز میں ماں بہن کی گالیاں دے کر پتھراؤ کیا‘وہ ویڈیو بھی میرے سامنے پڑی ہے اور میں حیرانی کے عالم میں ہوں۔

پچھلے چند برسوں سے  مذہب اور عشقِ رسول ﷺ کے نام پر جس طرح اس ملک میں انارکی پھیلائی گئی‘جس طرح ریاست سمیت مذہب کو یرغمال بنایا جاتا رہا‘آج تک کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

میں نے اس سارے معاملے کو بنا کسی تعصب کے سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔میں کبھی کسی ایک طبقے کو اس کا الزم نہیں دینا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطلب ہے یورپی یونین سے مکمل بائیکاٹ‘کیا پاکستان جیسا مقروض ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے، کہ یورپی یونین سے بائیکاٹ کرے یا جس ملک کا قرضہ دینا ہے‘اسی ملک کو آنکھیں دکھائے۔؟

اس سے قبل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہمارا نام آ چکا ہے ‘جس سے نکلنا دور دور تک ممکن نہیں۔لہٰذا میرا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ اگر حکومت اس معاہدے کو پورا نہیں کر سکتی تھی تو اسے علامہ خادم رضوی کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔حکومت اگر اپنے یورپی یونین سے معاملات اور اپنی حیثیت سے بخوبی واقف تھی تو اسے معاہدے کی طرف جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔

اس میں کیا دو رائے ہیں کہ موجودہ حکومت مغربی ممالک سے کسی بھی طرح کے معاشی بائیکاٹ کو برداشت نہیں کر پائے گی‘بھوکا ملک کسی کو کیا آنکھیں دکھا سکتا ہے۔لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے تو حکومت کو یہ معاملہ چار ماہ قبل معاہدے سے پہلے  ہی افہام و تفہیم سے نمٹا لینا چاہیے تھا اور اگر معاہدہ کر لیا تھا تو معاہدے سے قبل سعد رضوی کو گرفتار کرنے والا کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔لہٰذا حکومت نے غلطی پر غلطی کی اور اس کا خمیازہ آج ریاست کے ساتھ ساتھ ریاستی باشندے بھی بھگت رہے ہیں۔

مگر ہم تھوڑی دیر واپس اس تصویر کا وہی رخ دیکھتے ہیں جو کالم کے شروع میں ذکر ہوا۔۔کیا ریاست سے جنگ کی جا سکتی ہے؟،کیا ریاستی اداروں یا سکیورٹی کے اداروں کو گالیاں دی جا سکتی ہیں؟،کیا یہ لوگ نبی ﷺکے دین کی یہی تفہیم سمجھ پائے ہیں؟۔

میں بذات خود اس حق میں ہوں کہ ریاست کے اندر کسی بھی طر ح کی دوسری ریاست نہیں بننی چاہیے اور کالعدم تحریک نے حقیقت میں ریاست کے اندر ایک الگ ریاست بنانے کا جرم کیا جو ناقابلِ معافی ہے سو سانحہ یتیم خانہ چوک اسی کا ری ایکشن ہے۔

میں نے جب اس معاملے میں اپنی مخلصانہ رائے دی اور کہا کہ معاملہ دونوں طرف سے خراب ہے تو مذہب سے محبت کرنے والوں نے اور عشق کی تفہیم کو نیا رنگ دینے والوں نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی حالانکہ میں اس سے قبل لکھ چکا کہ نبی پاکﷺ کی محبت اور ختم نبوت پر میں خود بھی بہت متشدد ہوں اور میں بھی چاہتا ہوں کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔میں بھی چاہتا ہوں کہ حکومت کو اگر علم تھا کہ وہ یہ معاہدہ پورا نہیں کر پائے گی تو اسے معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا مگر اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ہم حکومت کو لوہلا اور لنگڑا سمجھ لیں اور جو مرضی کرتے رہیں۔ریاست میں ریاستی قوانین کا احترام بہرحال ہر ریاستی باشندے پر لازم ہے ۔

سو مجھے افسوس ہے کہ ہم نے مذہب کے نام پر اس ملک میں جو کیا‘وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔معاملہ دونوں طرف سے انتہائی کشیدہ ہو چکا‘ایک طرف ریاست جو خود کو ریاستِ مدینہ کہتی  ہے  اور دوسری جانب بھی ریاست جو خود کو عاشقِ رسول ﷺ کہتی  ہے ۔سو ریاست بمقابلہ ریاست ہے‘جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ جب بھی ایک اسٹیٹ یا ریاست کے اندر ایک نئی ریاست وجود میں آ جائے تو معاملہ افہام و تفہیم سے حل نہ ہو تو معاملات اس قدر کشیدہ اور پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ اس میں ریاستی جبر سے عام آدمی مارا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سمجھتا ہوں کہ اس ریاست کی دوسری ریاست سے ہونے والی جنگ میں جتنا نقصان عام آدمی کا ہوا‘اتنا دونوں ریاستوں کا نہیں ہوا۔اس کا حل یہ ہے کہ ریاست کو سرینڈر کرنا ہوگا۔اب کون سی ریاست سرینڈر کرتی ہے‘یہ ریاستی باشندوں کا کام ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں۔میں اس ریاست کا عام باشندہ (جس کے دل میں نبی پاکﷺ کا عشق بھی ہے اور ریاست کا احترام بھی) ہونے کے ناطے یہی کہہ  سکتا ہوں کہ خدارا عام آدمی پر رحم کریں‘اٍن کو  گاجر   مولیوں کی طرح  مت کاٹیں کہ ہمیں اپنا لہو تلاش کرنے کے لیے کتنے بے گناہوں کو لہولہان کرنا پڑے۔بقول مصطفی زیدی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے!

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply