شرمندہ مرد۔۔۔نصیر بلوچ

اکیسوی صدی میں جہاں کہیں کچھ سُننے یا پڑھنے کو مِلتا ہے ساتھ میں  لفظ “ترقی” ایسے چسپاں ہوتا ہے گویا واجب ہو۔ ان دونوں الفاظ کا مجموعہ بڑا فرحت بخش ہوتا ہے۔ آجکل ہم جس محفل میں بیٹھتے ہیں ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ  اب زمانہ ترقی کر چُکا ہے۔ مرد و عورت کا فرق ختم ہو چکا، اب ہر میدان میں عورت مرد کے شانہ بشانہ بلکہ بعض میدانوں میں مرد سے ایک قدم آگے نکل چکی ہے۔ اور ہمیں بھی جب کبھی موقع ملتا ہے ہم بھی اسی موضوع پر ایک طویل اور جذباتی بحث چھیڑ دیتے ہیں اور ہوٹل پر بیٹھے اپنے باقی مرد دوستو سے عورت کی آزادی پر لفاظی مارتے رہتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے انسانی ترقی پر دل نازاں بھی ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ اس ناز کی میعاد بس ایک لمحہ   ہی ہوتی ہے۔

جب میں خود کو بھی انسانی ترقی کا آلہ سمجھ کر ذہنی عیاشی کرنا چاہتا ہوں تو ہمیشہ یہ کمبخت ضمیر آستین چڑھائے میرے مقابل کھڑا ہوکر عورت کے متعلق سوالات اُٹھاتا ہے۔ اورمیں ایک شرمندہ مرد کی حیثیت سے نظریں چُراتا اپنا رستہ بدل دیتا ہوں اور اُس سے صُلح کے بہانے تلاش کرتا ہوں۔

میرے قول و فعل میں جو اختلافات  ہیں اور ان اختلافات کی بنا پر جو جنگیں میرے ذہن کے میدانوں میں لڑی جاتی ہیں، انکا مجھے بھاری نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ کیونکہ اب تک ان جنگوں میں فتح میرے حصے میں کبھی نہیں آئی ۔ میں گھر سے باہر جب عورت کی آزادی پر دانشوری جھاڑ کر لوگوں کے اذہان میں اپنا ایک فیمنسٹ امیج بنا کر گھر پہنچتا ہوں اور اپنی والدہ اپنی بہن بیٹی اور  بیوی کی پسماندہ زندگی دیکھتا ہوں تو اپنے اُس تصویر کے ٹوٹنے کی آواز اور اسکی کِرچیاں و للہ دل میں چُبھتی  محسوس کرتا ہوں، جو دوستو کے اذہان میں بنا کر آیا تھا۔ کہ کس جھوٹ کے سہارے زندگی گُزار رہا ہوں اور داد رسی حاصل کر رہا ہوں۔ میرا جب جی چاہتا ہے باہر ہوٹل پر بیٹھتا ہوں سگریٹ نوشی کر کے طبیعت برابر کرتا ہوں۔ کیا میرے گھر کی کوئی  خاتون ایسا کرنے کی سوچ بھی سکتی ہے؟ مجھے جب کوئی  پریشانی یا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو میں ایک مہنگی  اور شاہانہ طرز کی شراب کی بوتل اُٹھا کر دریا کنارے بیٹھ جاتا ہوں یا لانگ ڈرائیو پر نکل جاتا ہوں اور اپنے غم کو بھی انجوائے  کرتا ہوں۔ جبکہ میری بہن اس حالت میں گھر کے کام کاج کر رہی ہوتی ہے ۔ وہ دو آنسو بھی کسی کونے میں چھپ کر بہائے گی۔ میں ساری رات بادہ خواری و مٹرگشتی کرکے جب سوجاتا ہوں اگلے روز شام تک کوئی میرے کمرے میں آنے کی جُرات نہیں کر سکتا جبکہ میری بیوی کو قطعاً یہ اجازت نہیں کہ  وہ طلوعِ آفتاب تک نیند کے مزے لوٹتی رہے۔ میری ماں ادھیڑ عمر کی ہو چُکی ہیں وہ مجھ سے زیادہ ذہین و ہوشیار ہیں۔ اچھے بُرے کی بہتر پہچان رکھتی ہیں لیکن میرے معاملات میں دخل اندازی کا اُنہیں بھی  کوئی  اختیار نہیں۔ البتہ میں اُن پر کسی بھی قسم کی پابندی لگانے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔

میں جس سٹیج پر بھی عورت کے عنوان سے تقریر شروع کر دوں لوگ داد دیتے تھکتے نہیں۔ کسی سے فیمنسٹ کا لقب ملتا ہے، تو کوئی  لبرل کے ٹائٹل سے نواز دیتا ہے۔ لیکن اپنے گھر میں اب بھی میں پدر شاہی نظام کے ایک ظالم مرد کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ میرے ماتحت جو عورتیں ہیں وہ مجھ سے عورت کے سوال پر بات کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اور نہ ہی میں نے اس متعلق کبھی اُن سے بات کرنے کی زحمت کی ہے۔

اکثر سوچتا ہوں کیا ہم حقیقت میں عورت کی آزادی چاہتے ہیں یا صرف خود کو ایک چھوٹی سی تقریر یا تحریر کے  ذریعے پدر شاہی نظام کا منکر یا فیمنسٹ گرداننا چاہتے ہیں؟ کیا ہم واقعی آج اتنے انصاف پسند ہو چکے ہیں کہ  جو کام ہم خود کرتے ہیں ان کاموں کو اپنے گھر کی عورتوں کو کرتے دیکھ سکیں؟ کیا ہم انہیں جاب کرنے دیتے ہیں کیا ہم اُنھیں کسی ریسٹورنٹ میں انکے دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا وہ کبھی بھی کہیں بھی اپنی مرضی سے جا سکتی ہیں؟ کیا ہم انہیں اُنکی خوشی یا غم منانے کا مکمل اختیار دینا چاہتے ہیں؟

آج تک کسی عورت نے نہیں کہا کہ  میرا بیٹا، میرا بھای، میرا خاوند مجھے بہت پیارا ہے، مجھے اُسکی فکر ہے اور وہ ہماری عزت ہیں ،اس لیے میں اُسے گھر سے نکلنے نہیں دوں گی، اُسکی مرضی سے زندگی گُزارنے نہیں دوں  گی، کیونکہ وہ اپنے فیصلے ٹھیک سے نہیں کر پائے گا۔ تو ہم کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ  ہم عورت کی بھلائی کے لیے اُس سے اُس کے اختیارات چھینتے ہیں؟ ہم نے کیوں عورت کو اتنا کمزور و مجبور بنایا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کر سکتی۔ بلکہ ہمارے سماج میں تو اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورت کی زندگی کے بڑے سے بڑے فیصلے ان کی مرضی جانے بغیر ہی مرد حضرات طے کر لیتے ہیں۔ وہ فیصلہ کبھی اس کی بھلائی کے نام پر مرد کی  طرف سے لیا جاتا ہے، تو کبھی دلی بھڑاس یا ضِد پوری کرنے کے لیے اور کبھی ایک مرد کے دوسرے مرد کو دی گئی  زبان کی پاسداری کے لیے عورت قربان ہوتی ہے ۔

اگر ہم عورت کے باشعور ہونے کا اقرار کرتے ہیں پھر اسے اپنے فیصلے لینے کا حق کیوں نہیں؟ کیا ہم عورت کو واقعی ایک آزاد انسان کا درجہ دینے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم کبھی اپنی بہنوں کو اپنی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں؟

ایسا لگتا ہے ہم عورت کی آزادی تو چاہتے ہیں لیکن باہر کی  عورت کی، ہم عورت کو مرد کی غلامی سے آزاد کروانا چاہتے ہیں، مگر ہمسایوں کی، ہم جب عورت کو چار دیواری سے باہر تصور کرتے ہیں ہمیں اپنی بہن بیٹی کا اُس تصور میں بھی باہر نکلنا گوارہ نہیں ہوتا۔ ہم جو عورت کی آزادی کے گُن گانے والے ہیں ہمارا کیا کردار رہا ہے عورت کو اسکی آزادی دلانے میں؟ ۔ہماری عورتیں ہم سے ڈرتی کتنا ہیں اور اُنس کتنا رکھتی ہیں؟ آیا انھوں نے کبھی ہم سے اپنے مسائل بارے بات کی   ہے؟ جبکہ ہمارا زیادہ تعلق انہی سے ہے۔ اور اگر نہیں کی اسکی وجہ کیا ہے؟ ہم تو ہر میدان میں عورت کے سوال پر بات کرنے والے ہیں اور سماج کی باقی عورتیں تو ہم سے کھل کر اس موضوع پر بات کرتی ہیں مگر ہماری اپنی عورتیں کیوں ہم سے بات کرنے سے کتراتی ہیں؟

بلاشک و شبہ  عورت کی آزادی کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں طویل عرصہ بھی درکار ہوگا۔ جس میں معاشرے کے ہر فرد کو خاص کر عورت کو جی جان سے محنت کرنا پڑے گی۔ پر کیا ہم نے اس منزل کی جانب پہلا قدم بھی اُٹھایا ہے یا ابھی تک دوسروں کے قدموں کے نشانات پر تبصرے کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عورتیں ہم میں اور ایک روایتی مرد میں تفریق کرتی ہیں یا اس فرق سے صرف ہم ہی آشنا ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا ہمارا فیمنسٹ و لبرل مرد بھی عورت کا مجرم نہیں؟ کیا ہم اپنی  خواتین کے سامنے شرمندہ ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں کے ازالے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اگر ہاں تو بس اپنے گھر سے شروعات کر لی جائے کیونکہ سب سے زیادہ استحصال ہم نے اُنہی عورتوں کا کیا ہوتا ہے جو ہمارے ماتحت ہیں ۔
وقت آگیا ہے کہ عورت  کو بھی اب انسان تسلیم کیا جائے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply