ڈاکٹر بھی تو آخر انسان ہیں۔۔۔ہارون الرشید

چند روز قبل راولپنڈی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں  ایک دوست جو ڈاکٹر ہیں اور اُس ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اُن سے ملاقات کے لیے جانے کا اتفاق ہوا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ کوئی ہسپتال نہ ہو بلکہ کوئی غریب یا یتیم خانہ ہے جس میں داخل ہو گیا ہوں۔ ہر طرف عورتیں اور مرد، بوڑھے اور بچے پورے ہسپتال میں تجاوزات کی  صورت  پیدل گزرگاہوں ، سیڑھیوں اور لانز میں چٹائیاں ، دریاں اور چادریں بچھائے شدید گرمی میں قبضہ کیے بیٹھے تھے۔  کئی خواتین شیرخوار بچوں کو گود میں لیے بیٹھی بھی دکھائی دیں۔ کئی لوگ آڑھے ترچھے لیٹے بھی نظر آئے۔ ہسپتال میں چلنے کے لیے باقاعدہ راستہ تلاش کر کے قدم اٹھانا پڑ رہے تھے۔  چونکہ میں اُس ہسپتال میں پہلی دفعہ گیا تھا تو سیکورٹی عملے سے پوچھتا  ہوا  اُس عمارت تک پہنچا جہاں دوست تعینات تھا۔ وہاں پہنچا تو ایک اور داستان انتظار میں تھی۔

لیکن اُس داستان سے پہلے ہسپتال کی اندرونی صفائی کی کہانی بھی سُن لیجئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عرصے سے ہسپتال کے فرش صفائی کے لیے ترس رہے ہیں، سیڑھیاں اور دیواریں گندگی سے بھرپور جن کا  رنگ باقاعدہ سیاہ پڑ چکا تھا۔  عمارت پرانی ہونے کی وجہ سے سیڑھیاں ایک تو تنگ تھیں اوپر سے تاریک بھی۔ اور عمارت کے اندر بھی زمینی منزل ہو، پہلی یا دوسری منزل جگہ جگہ چٹائیوں پر لوگ گندگی اور گرمی سے بےنیاز خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے نظر آئے۔ حیران اور پریشان سا اپنے دوست تک پہنچا تو ایک اور حیرت ہوئی کہ وارڈ میں  ڈاکٹر صاحب  کے بیٹھنے کے لیے کوئی الگ کمرہ موجود نہیں اور  وہ پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ ہی  استقبالیہ نما جگہ پر مسلسل تیس گھنٹے سے ڈیوٹی پر موجود  تھے اور بمشکل خود کو جگائے اور سنبھالے ہوئے تھے۔ میں پہنچا تو مجھے لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں آ گئے جہاں دو سنگل بیڈ اور دو کرسیاں رکھی تھیں کہ تیس تیس گھنٹے کی ڈیوٹی  کے دوران اگر دو گھڑیاں مل جائیں تو سٹاف کمر سیدھی کر لے۔  وہاں انہوں نے گزشتہ رات ہونے والے واقعے کی داستان سنائی، آپ بھی سنیے۔۔۔

ایک بزرگ مریضہ خاتون کو ہسپتال میں لایا گیا، اُن کے ساتھ اُن کے خاندان کے چھ سات ڈشکرے اور مشٹنڈے نما مرد حضرات تھے جو غالباً اُن کے بیٹے اور داماد وغیرہ ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق  خاتون چھاتی کے سرطان میں مبتلا تھیں اور پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ملک کے معروف کینسر ہسپتال سے جواب ملنے کے بعد وہ یہاں تشریف لائے تھے اور یہ پوچھنے پر کہ علاج میں اتنی تاخیر کیوں کی تو بتایا گیا کہ دَم درود سے علاج کرواتے رہے جس کی وجہ سے وقت گزر گیا۔ لیکن اِس کے باوجود وہ حضرات مُصر تھے کہ اُن کی والدہ کے سرطان کو ابھی اور اسی وقت ٹھیک کیا جائے جیسے ہسپتال میں ڈاکٹر نہیں کوئی جادوگر تعینات ہوں  جو ایک چھڑی گھمائیں  گے اور والدہ صحتیاب ہو کر اُٹھ بیٹھیں گی۔ اور ہٹ دھرمی سے اصرار تھا کہ علاج جیسے ہم کہیں ویسے ہی کیا جائے کیونکہ ہسپتال، ڈاکٹر اور عملہ اُن کے ٹیکس کے دیے ہوئے پیسوں سے چل رہا ہے۔  رات کے وقت ڈیوٹی پر تعینات ڈاکٹرز نے جب سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب ہمیں ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے دیں اور ہمارے کام  میں غیرضروری مداخلت نہ کریں تو وہ حضرات باقاعدہ بدتمیزی اور گالم گلوچ پر اُتر آئے اور جب سمجھانے پر بھی نہ سمجھے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ مجھے ویڈیو ریکارڈنگ بھی دکھائی، ویڈیو کیا تھی گھمسان کا رَن تھا، کان پڑی آواز تھی جو سنائی نہ دے رہی تھی۔ پولیس چوکی پر بار بار فون کرنے پر بھی کوئی جواب موصول نہ ہوا ۔  خاتون مریضہ کا علاج کیا ہوتا، ایک دھماچوکڑی مچ گئی۔ ویڈیو دیکھ کر میں نے ازراہِ مذاق اپنے دوست سے کہا کہ ڈاکٹر بننا ہو تو ساتھ ساتھ فنِ پہلوانی بھی سیکھنا چاہیے۔

یہ کسی ہسپتال میں پیش آنے والا واحد واقعہ نہیں ہے، ہم ایسے واقعات ہر روز میڈیا کے ذریعے سنتے ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ کے آنے کے بعد سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہسپتالوں میں  مرنے والا ہر مریض ڈاکٹروں کی غفلت سے ہی مرتا ہے۔  اِدھر مریض کی جان نکلی اور اُدھر ساتھ موجود لواحقین نے ڈاکٹرز کو یرغمال بنا کر توڑ پھوڑ شروع کر دی اور ذرائع ابلاغ ریٹنگ کے چکر میں کیمرے لیے ایسے دوڑے جیسے بھوکا شکاری شکار پر جھپٹتا ہے اور فوراً ہی ہسپتال، ہسپتال انتظامیہ، ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز اور عملے  کے خلاف کھڑے کھڑے مقدمہ قائم کیا ، ڈاکٹروں کے قصائی ہونے اور جانوروں موافق مریضوں کی کھال اتارنے کے دلائل تراشے  اور اُن کے غیرذمہ دارانہ اور مجرمانہ غفلت کا فیصلہ سنایا اور پھر کیمرے لپیٹے کسی اور ایسے ہی واقعے کی تلاش  میں آگے نکل پڑے۔

ذرا غور کیجئے کہ جب سے برقی ذرائع ابلاغ کا دور آیا ہے ، یہ ہمارا قومی بیانیہ بن گیا ہے کہ ڈاکٹرز کو پانچ سال کی ڈگری کے بعد کم ازکم ایک سال  انسانیت کی تعلیم دینی چاہیے۔ میں اپنے پچیس سالہ ہوش کے دور میں بےشمار ڈاکٹرز سے ملا ہوں، جن میں میرے کئی ‘ینگ ڈاکٹر’ دوست بھی ہیں، کئی رشتہ دار ڈاکٹر ہیں اور اِس کے علاوہ بیسیوں جان پہجان والے ڈاکٹرز ہیں۔ اُن میں مرد ڈاکٹرز بھی ہیں اور خواتین ڈاکٹرز بھی۔ نوجوان بھی ہیں، درمیانی عمر کے بھی ہیں اور اُدھیڑ عمر کے بھی لیکن میرا واسطہ آج تک کسی بدتمیز یا بدتہذیب ڈاکٹر سے نہیں پڑا۔ ایسا نہیں ہے کہ سب ڈاکٹر بہت اچھے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر یکطرفہ منفی تشہیر ہو رہی ہے ۔بہت سی جگہوں پر ڈاکٹر گھناؤنے جرائم اور غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔ مجھے بالکل یہ بھی ادراک ہے کہ کہیں ایسا ضرور ہوتا ہو گا کہ ڈاکٹر بھی جان بوجھ کر کوتاہی کرتے ہوں لیکن اُس کوتاہی کو تمام ڈاکٹرز کا ٹریڈ مارک ہی بنا دینا کیا یہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ اگر آپ ذرا سے بھی انصاف پسند ہیں تو یقیناً آپ کا جواب نہ میں ہو گا۔  لیکن ہم نے طے کر لیا ہے کہ ایسے ہر معاملے میں ڈاکٹر شیطان ہیں اور مریضؤں کے لواحقین فرشتے۔ ابھی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ایک نوجوان بتا رہا تھا کہ وہ ایمرجنسی میں علاج کے لیے گیا تو جس ڈاکٹر نے چیک اپ کیا وہ کچھ دن بعد کسی اور مریض کا علاج کرتے ہوئے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ایسے کسی ڈاکٹر کی کہانی  آپ کو ذرائع ابلاغ پر دکھائی  دی۔ یقیناً  نہیں کیونکہ اس خبر میں سنسنی نہیں ہے جو میڈیا کی بنیادی خوراک ہے۔

ینگ ڈاکٹرز آئے روز ہڑتال کرتے ہیں، گاہے اُن کے مطالبات  غلط  بھی ہوتے ہوں گے۔ میں بھی جب نوجوان ڈاکٹرز کی ہڑتال کی خبریں سنتا ہوں تو فوراً خیال آتا ہے کہ مریضوں کا کیا قصور  لیکن کیا یہ رویہ صرف ڈاکٹرز تک محدود ہے؟ کیا ہماری کچہریوں میں آئے روز ہڑتالیں نہیں ہوتیں؟ کیا وہاں سائلین نہیں رُلتے؟ کیا ہماری جامعات میں آئے روز کبھی اساتذہ اور کبھی طلبا ہڑتال پر نہیں نکل پڑتے؟ ملک بھر کے اداروں میں جو بھانت بھانت کی یونینیں بنی ہوئی ہیں کیا وہ ذرا ذرا سی اور بے کار باتوں پر آئے روز جلوس نکال کر حکمرانوں کو نہیں دھمکاتیں؟ کیا ایک معذور مولوی صاحب  ہر دوسرے روز دارالحکومت کو مفلوج کر کے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں عذاب میں نہیں ڈالتے؟ کیا آج کے حکمرانوں نے گزشتہ دورِ حکومت میں ایک سو چھبیس دن عملاً پورا نظام معطل نہیں کیے رکھا؟   یہ تو ہمارا قومی رویہ ہے تو پھر صرف ڈاکٹر ہی کیوں نشانہ ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے کئی دوست ڈاکٹر ہیں اور وہ جن حالات میں تیس تیس گھنٹوں کی لگاتار ڈیوٹی کرتے ہیں میں اُن کا احوال جانتا ہوں۔ اُسی ہسپتال جس کا قصہ میں نے اوپر بیان کیا ہے، میرے دوست نے بتایا کہ جب ڈیوٹی کے دوران رات کو ساڑھے تین بجے وہ چند منٹ  آرام کیلیے بستر پر دراز ہوئے تو  بلی کی جسامت جتنا موٹا تازہ چوہا   کھڑکی کی سلاخوں کے ساتھ چپکا ٹکٹکی باندھے اُنہیں گھور رہا تھا کہ ہاں میاں ! ذرا آنکھ لگا کے تو دکھاؤ۔  اِن حالات میں کہ جہاں گندگی بھی ہو، دوردراز دیہاتوں سے آئے ہوئے  مریضوں کے ساتھ بسوں کی بسیں بھر کے اجڈ اور گنوار لواحقین کی فوج بھی سر پہ کھڑی ہو،  ڈاکٹرز کے الگ سے بیٹھنے کا بھی باقاعدہ انتظام نہ ہو، عملے کی حفاظت کا بھی کوئی قابلِ ذکر بندوبست نہ ہو تو اُس پر لگاتار  تیس تیس گھنٹے پر مشتمل  لمبی لمبی ڈیوٹیاں دینے والے ڈاکٹر اگر کبھی تُرش لہجے میں بات کر بھی لیں تو  انسانی فطرت کا تقاضا سمجھ کر گاہے نظرانداز بھی کر دینا چاہیے۔ لیکن جب ملک کا چیف جسٹس یہ ریمارکس دے کہ ڈاکٹر قصاب بن جاتے ہیں تو پھر فواد چودھری جیسوں کی زبان کو تو گلی محلے کا لونڈا سمجھ کر ویسے ہی   نظرانداز کر دینا چاہیے۔ صرف ڈاکٹروں کو نہیں بلکہ بحثیتِ قوم ہم سب کو انسانیت کے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply