• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انڈیا بھر میں پھیلی وسیع تر بدامنی ۔ گجراتی متعصب لیڈران گٹھ جوڑ کا نتیجہ ۔۔ غیور شاہ ترمذی

انڈیا بھر میں پھیلی وسیع تر بدامنی ۔ گجراتی متعصب لیڈران گٹھ جوڑ کا نتیجہ ۔۔ غیور شاہ ترمذی

بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پارلیمانی انتخابات میں مسلسل دوسری کامیابی ایک ایسی سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ تھی جس کا بنیادی نقطہ انڈیا کو ظاہری سیکولر ازم سے نکال کر کھلم کھلا ہندو توا کی جانب گامزن کرنا تھا۔ وشوا ہندو پریشد کی کئی دہائیوں پر پھیلی مسلسل اور انتھک کوششوں کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے امسال کے پارلیمانی انتخابات میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت ہندو توا کے نعرے سے حاصل کی ہے۔ ان انتخابات میں نریندر سنگھ مودی کا نعرہ ہی انڈیا کو ہندو توا کے نظریہ کے تحت چلانے کا تھا۔ یہ درست ہے کہ بعض علاقوں میں (بی جے پی) نے براہ راست ہندو توا کا نعرہ لگانے کی بجائے ”میرا بھارت مہان“ کا نعرہ استعمال کیا لیکن جن علاقوں میں ہندوؤں کی واضح اکثریت تھی وہاں بی جے پی کے لیڈروں نے کھلم کھلا ہندو توا کے نعروں سے اپنی انتخابی مہم چلائی۔ ہندو توا کی نفرت انگیز مہم کا شکار واضح طور پر تو مسلمان ہی ہیں لیکن عیسائی، سکھ، بدھ اور دوسری اقلیتوں کے افراد بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں رواں سال چھ ماہ کے دوران نفرت انگیز جرائم میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ان جرائم کی شرح دگنی ہے۔ یہ کہنے میں ہر گز کوئی تعامل نہیں ہے کہ بھارت میں اب بھی نفرت آمیز جرائم کوبڑا جرم نہیں سمجھا جاتا۔ صرف رواں برس 181 نفرت انگیز جرائم اس نوعیت کے ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں ہندوؤں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے لوگوں کو مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان میں درجنوں ایسے واقعات بھی تھے جن میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں معصوم افراد کی ہلاکتیں تک ہوئی ہیں۔ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف کارروائی کی اپیل کرنے والے افراد کے خلاف وزیر اعظم مودی نے غداری کا مقدمہ درج کرانے کی کی دھمکی بھی دی جس کی ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت بھی کی۔

شہری ترمیمی قانونی بل کے متعارف کروائے جانے اور اس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد پورے انڈیا میں مظاہروں نے شدت اختیار کر لی ہے اور اس وقت انڈیا شاید 45 سال بعد اُس صورتحال کا دوبارہ شکار ہو رہا ہے جس کی بنیاد پر اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ یہ بات یاد رہے کہ اُس وقت یعنی سنہ 1984ء میں انڈیا کی صرف ایک کمیونٹی یعنی سکھ برادری کو وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر اعتراضات تھے لیکن اُس وقت انڈیا کی باقی اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن شہری ترمیمی قانونی بل کی منظوری کے بعد انڈیا ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں کی مانند بن چکا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس متنازعہ بل کی منظوری کے بعد اپر کلاس ہندو برہمنوں کے علاوہ انڈیا کی تمام اقلیتیں اپنے آپ کو مکمل طور پر غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ کشمیر پر دھونس جمانے کے بعد مودی سرکار نے آسام کا رُخ کیا اور شہری ترمیمی قانونی بل لاگو کرنے کی کوشش میں آسام میں نہ بجھ سکنے والی آگ لگا دی۔ یہ آگ کشمیر سے شروع ہو کر انڈیا کے 34 شہروں تک پہنچ چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے راہنما کھلم کھلا تقریریں کر رہے ہیں کہ تمام مسلمان مہاجرین بالخصوص مشرقی بنگال سے سنہ 1971ء میں ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو حراستی مراکز (Detention Centers) میں بھیج دیا جائے گا۔ مسلمان سیاسی راہنماؤں اور ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ ان مظاہروں میں ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کی اکثریت شرکت کر رہی ہے۔ ممبر پارلیمنٹ اویس الدین اویسی کا کہنا ہے کہ آخر بی جے پی سرکار کیونکر اسلام سے اس قدر نفرت کر رہی ہے؟۔ کیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟۔ کیا مسلمانوں کے پاس انڈیا میں رہنے کے حقوق نہیں ہیں؟۔

بی جے پی راہنماؤں کی ان دھمکیوں کے علاوہ احتجاجی مظاہرین پر وحشیانہ پولیس تشدد اور اندھا دھند گرفتاریوں کے باوجود بھی انڈین حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے صرف آسام کی آبادی سنہ 2019ء میں لگائے گئے تخمینے کے حساب سے 33 کروڑ ہے۔ شہری ترمیمی بل کے اس نئے قانون کے حساب سے ان میں سے تقریباً  8 کروڑ لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ یعنی آسام کی 25% آبادی یکایک اپنے شہری حقوق سے محروم ہو کر اُن مہاجرین میں بدل جائے گی جن کے پاس دنیا کے کسی ملک کی شہریت نہیں ہو گی۔ یعنی اس وقت جو نسل آسام میں نوجوان ہے، اسے اپنے آپ کو انڈین ثابت کرنے کے لئے اپنے دادا کا سنہ 1970ء سے پہلے کا پیدائشی سرٹیفکیٹ، سکول سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ وغیرہ پیش کرنا پڑے گا۔ زمینی حقائق کے اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ تیسری نسل اپنے بڑوں کے ایسے شناختی کاغذات کو اپنے پاس محفوظ رکھ سکتی ہو۔ یہ اعداد و شمار اتنے بھیانک ہیں کہ انڈیا کے ایک سابق صدر فخر الدین علی احمد کی اولاد بھی 2 دفعہ اس نئے شہری ترمیمی قانونی بل کے حساب سے NRC ٹیسٹ میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھارت میں غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کے لئے بنائے گئے ایک کیمپ میں رہیں گے اور بھارتی شہریت حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 30 سال تک انڈین آرمی میں خدمات انجام دینے والے اور انڈیا کی طرف سے کارگل جنگ کے ایک ہیرو محمد ثناءاللہ امسال مئی کے مہینے سے جیل میں قید ہیں کیونکہ متعصب ہندوؤں پر قائم ایک ٹربیونل نے انہیں NRC ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد غیر ملکی ثابت کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ محمد ثناء اللہ سنہ 2014ء میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔

ان مظاہروں میں اس قدر شدت آ چکی ہے کہ ان کی وجہ سے 40 شہروں میں انڈین حکومت نے انٹرنیٹ کی سہولت بند کر دی ہے۔ یوں کہیے کہ کشمیر کا بلیک آؤٹ باقی انڈیا کو بھی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لے کر جا رہا ہے۔ بین الاقوامی جریدے بزنس ٹوڈے کی سرخی یہ ہے کہ شہری ترمیمی بل اور NRC مل کر انڈیا کی ترقی کی کہانی کو یکسر ختم کر دیں گے۔ اس جریدے کے مطابق جس ملک میں بھی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی اُس کا سفر ترقی کی بجائے تیز رفتار تنزلی کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ جریدہ بزنس ٹوڈے میں شائع ہونے والے اس مضمون میں 3 مثالیں دی گئی ہیں۔ مصنف نے لکھا ہے کہ دمشق اور بغداد میں عربوں کے سنہرے دن تب ختم ہوئے جب انتہا پسندی نے وہاں جڑ پکڑی۔ 15ویں اور 16 ویں صدی میں عیسائی انتہا پسندی نے پرتگال کی ترقی کو ختم کیا۔ باسو (Basu) نام کے ایک فلسفی نے مئی سنہ 2018ء میں انڈیا کو بھی خبردار کیا تھا اور مودی سرکار کو لکھے اپنے ایک مقالہ میں خبردار کیا تھا کہ ہندو انتہا پسندی یکسر انڈیا کی ترقی کو ختم کر دے گی۔ مودی سرکار کو ان باتوں کا یقین نہیں آیا لیکن اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پچھلے 30 سالوں سے تیزی کی طرف گامزن انڈین اکانومی اب زیادہ تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ انڈیا میں اقلیتیں آج کیا احتجاج کر رہی ہیں وہ صرف انڈین ہندوؤں کے معتدل مزاج لوگ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ صرف دیکھ ہی نہیں رہی بلکہ یہ لکھ بھی رہی ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے انڈین وزیر اعظم مودی، بی جے پی گجرات سے تعلق رکھنے والے مرکزی راہنما امیت شاہ اور اجیت ڈول کا یہ گٹھ جوڑ شاید انڈیا کی قسمت کا آخری گٹھ جوڑ ثابت ہو گا۔

گجرات کے ہندوؤں کی اکثریت اُن کے اعلیٰ طبقہ براہمنوں پر مشتمل ہے۔ انڈیا پر سنہ 1947ء کے بعد ہمیشہ سے شمالی انڈیا کے راہنماؤں کی حکومت رہی تھی۔ گجرات کے ہندو ہمیشہ سے متعصب اور اپنے عقائد میں سخت راسخ العقیدہ رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے ان کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ کئی سبزی خور ہندو صرف سبزیاں اور دالیں کھاتے ہیں مگر گجراتی جین مت (ہندوؤں کا ایک کٹڑ فرقہ) سبزی بھی صرف وہ کھاتا ہے جو زمین کے اوپر ہوتی ہے یعنی زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں مثلاً آلو، پیاز وغیرہ سے بھی پرہیز کرتا ہے اور انہیں کھانا حرام سمجھتا ہے۔ گجراتی ہندوؤں کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان کی 4 بنیادی خصوصیات کو غور سے سمجھنا ہو گا:۔

1۔ ولندیزیوں، پرتگالیوں، فرانسیسیوں، انگریزوں اور مغلوں سمیت جس نے بھی انڈیا پر یلغار کی، گجراتی ہندوؤں نے اُن کا خیر مقدم کیا۔ ان حملہ آوروں کی غالب ترین اکثریت نے انڈیا میں داخلہ کے لئے گجرات کا ہی راستہ اختیار کیا۔ چونکہ یہ تمام بیرونی حملہ آور انڈیاکو سونے کی چڑیا سمجھتے تھے اس لئے انہیں یہاں آتے ہوئے مقامی پناہ گاہوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی جس کے لئے گجراتی ہندوؤں نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ وہ انہیں صرف پناہ ہی نہیں دیتے تھے بلکہ ضروریات زندگی کی تمام اشیاء بھی مہنگے داموں فراہم کیا کرتے تھے۔

2۔ سنہ 1947ء سے پہلے 200 سال تک چلنے والی ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں تقریباًساڑھے 7 لاکھ ہندوستانیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ اپنے وطن ہندوستان کی آزادی کے لئے جان قربان کرنے والے ساڑھے 7 لاکھ شہیدوں میں ایک بھی گجراتی النسل نہیں تھا۔ انگریز دور میں سارے ہندوستان میں ہڑتال اور مظاہرے ہوا کرتے تھے مگر گجرات ہمیشہ انگریزوں کا وفادار علاقہ سمجھا جاتا تھا۔

3۔ سنہ 1947ء سے لے کر آج تک انڈیا کی سرحدوں پر جتنے بھی فوجی اور سویلینز نے جانیں قربان کریں، اُن میں سے کسی ایک بھی شہید کا جنازہ گجرات کی طرف نہیں گیا۔ گجراتی کبھی لڑائی اور جنگ نہیں کیا کرتے البتہ لڑنے والوں کی مدد کر کے اپنا مطلب ضرور نکالا کرتے ہیں۔

4۔ چوتھی سب سے اہم بات یہ ہے کہ گجراتیوں کے ڈی این اے میں بھی منفی طرز کا کاروبار اور تجارت گھسی ہوئی ہے۔ یہ ہر طرح کی منفی تجارت کریں گے۔ اپنی تجارت کے لئے یہ دوسروں کا خون بہوانے کا بندوبست بھی کریں گے۔ خود نریندر سنگھ مودی نے امریکہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک ہی کام صحیح کر سکتا ہوں اور وہ ہے بزنس مگر اصلی بات یہ ہے کہ مودی دیگر گجراتیوں کی طرح صرف منفی کاروبار ہی کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ منفی کاروبار کرنے والا تاجر اور بزنس مین کبھی بھی کسی دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں سوچے گا۔ وہ اپنا نفع حاصل کرنے کے لئے فراڈ بھی کرے گا، دھوکہ بھی دے گا اور دوسروں کو نقصان بھی پہنچائے گا۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق سنہ 1947ء سے لے کر آج تک انڈیا میں جتنے بھی فراڈ، دھوکے اور بنک فراڈ وغیرہ ہوئے ہیں، اُن کے پیچھے کسی نہ کسی گجراتی کا ہی ہاتھ ہوا کرتا ہے۔

انڈین گجراتیوں کی پھیلائی اس گھمبیر سازشوں کے خلاف جہاں ترقی پسند ہندو باہر نکلے ہیں، وہیں انڈین نوجوان نسل خصوصاً  طالب علموں نے شہری ترمیمی بل اور NRC کے خلاف بھرپور احتجاج کی روشنی پھیلا دی ہے۔ اس وقت انڈیا کی نوجوان مڈل کلاس نے خاص طور پر اور عمومی طور پر بھارتی سماج کے تمام طبقات نے جس سیاسی سوجھ بوجھ، میچورٹی اور توانائی کے ساتھ مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے اس سے مغربی جمہوری معاشروں میں بطور خاص انڈین متعصب حکومت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان مظاہروں میں شریک نوجوان نہایت رکھ رکھاؤ اور اعتماد کے ساتھ انڈین سٹائل میں فیض کا کلام گا رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے نظم و ضبط، تمام طبقات کی طرف سے اس میں شرکت سے پاکستانی نوجوانوں اور سیاسی کارکنان کے لئے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں۔ انڈین حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے تمام مظاہرین اپنی تحریک کو منصوبہ بند طریقے سے منظم کر رہے ہیں۔ ان کی استقامت نے ثابت کر دیا ہے کہ جذبہ اگر سچا ہو اور اس کے اظہار کے لئے آپ ہر نوعیت کی قربانی کے لئے تیار ہوجائیں تو نریندر مودی جیسا فرعون صفت انسان بھی جھکنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔ پچھلے اتوار کے سہ پہر نئی دہلی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی بار بار اپنے ملک میں آباد مسلمانوں کو ’’بھارتی‘‘ کہنے پر مجبور ہوا۔ مسلمانوں سے اپنی ’’محبت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بہت فخر سے حاضرین کو یاد دلایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رکھا ہے، قطر اس کا دل جیتنے کو بے چین ہے۔ایران کے ساتھ بھارت کے رشتے ’’تاریخی‘ ‘ ہیں۔ مودی اس امر پر بھی اصرار کرتا رہا کہ اس کی حکومت کو ’’مسلم دشمن‘‘ قرار دینا زیادتی ہوگی۔مظاہرین کی طرف سے مودی کے اس یو ٹرن کو صرف ایک چال قرار دیا جا رہا ہے اور مظاہرین کی طرف سے واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ شہری ترمیمی بل اور NRC کے خاتمہ اور واپس لئے جانے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply