• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کے لیے فٹ بال ایک “سوکن”بن چکا ہے ۔۔۔۔اسد مفتی

پاکستان کے لیے فٹ بال ایک “سوکن”بن چکا ہے ۔۔۔۔اسد مفتی

پچھلے دنوں ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈیم میں قائم  مختلف امور کا جائزہ لینے والے ایک ادارے نے اپنے ایک سروے کے ذریعے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ٹیلی ویژن  دیکھنے کے عادی شادی شدہ افراد کے درمیان باہمی بات چیت کے رجحان پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہالینڈ  کے گھرانوں اور خاندانوں میں عام جوڑوں کے درمیان تیسرے فرد کے روپ میں موجود ٹی وی  نے شوہر اور  بیوی (یا پارٹنر) کے درمیان گفتگو کے ماحؤل کو نہ صرف مستقلاً بدل کے رکھ دیا ہے بلکہ ایسے بہت سے ڈچ جوڑے جو اس ٹی وی کی “لگائی ” کا شکار ہیں ۔آپس میں بہت کم گفتگو  کرنے لگے ہیں ۔بعض شوہر تو  ہفتہ ہفتہ بھر اپنی بیویوں کی “خیریت ” دریافت نہیں کرتے ۔اور ایسا ہی رویہ بعض بیویاں اپنے شوہروں کے ساتھ روا رکھتی ہیں ۔

1953 میں جب ٹیلی ویژن ابھی عام نہ  ڈ چ گھرانوں کی رسائی سے دور تھا  اور اسے متوسط یا غریب طبقوں تک رسائی خاص نہ ہوئی تھی اس وقت شادی  شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑوں میں بات چیت کے رجحان کے موضوع پر ایک سروے کیا گیا تھا ،اس وقت 42 فیصد خواتین اور 39 فیصد مردوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ اپنی دن بھر کی مصروفیات کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کرتے ہیں ۔اور اپنے کام پر پیش آنے والے واقعات کے بارے  ایک دوسرے کی رائے جاننا چاہتے ہیں ۔سروے کے دوسرے سوالات کا جواب دیتے ہوئے 42 فیصد خؤاتین نے اور 33 فیصد مرد حضرات نے بتایا کہ وہ گھر پر خود کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں درپیش مسائل پر کھل کر  بحث  کرتے ہیں جبکہ  باقی ماندہ افراد اس بارے میں اپنے پارٹنر کے ساتھ کبھی کبھار یا بالکل ہی کوئی بات نہیں کرتے ۔38 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ جب وہ اپنے گھر پر اپنے روزگار کے متعلق کو ئی بات  کرتی ہیں تو ان کے پارٹنر یہ تفصیلات بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں ۔جبکہ مردوں میں 51 فیصد کا کہنا  تھا کہ  وہ اپنی شریک حیات کی پیشہ وارانہ یا گھریلو زندگی  سے متلعق واقعات یا مسائل بڑے انہماک سے سنتے ہیں ۔اس کے بر عکس حال یہ میں کیے گئے سروے کے مطابق آج  ہالینڈ کی خواتین میں صرف 16 فیصد اور مردوں میں صرف 18 فیصد نے یہ اعتراف کیا کہ شام کے وقت گھر پر وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ ان تمام واقعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں جو ان کے کام کے دوران دن بھر میں  وقوع پذیر  ہوتے ہیں ۔خؤاتین کی اپنے شوہروں سے اور پارٹنروں سے زیادہ شکایت ہے “ٹی وی کی وجہ سے انہیں نظر انداز کررہے ہیں۔

یورپ بھر میں فٹ بال کا کھیل  ایک کھیل سے زیادہ جذباتی گیم  بن چکا ہے ۔اور کوئی بھی اسٹیشن لگائیے وہاں فٹ بال کھیل یا  فٹ بال کے بارے میں پروگرام پیش کیے جارہے ہوں گے ۔مختلف جوابوں کے علاوہ صرف  4 فیصد خواتین  نے  یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے شریک حیات واقعی ان کی روزمرہ زندگی میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں ۔بہت سی خواتین نے فٹ بال کو اپنی “سوکن” قرار دیتے ہوئے بتایا کہ آج شوہروں کا محبوب مشغلہ ٹیلی ویژن بن گیا ہے ۔اور اگر ٹی وی پر فٹ بال کھیلا جارہا ہو تو پھر انہیں ہمارا کیا اپنا بھی ہوش نہیں رہتا ۔ حتیٰ کہ انہیں پاجامہ پہننے کا بھی دھیان نہیں رہتا ۔بچوں سے لا پروا ہوجاتے ہیں  اور میچ کے وقت اگر کوئی بچہ ذرا سا بھی چوں و چراں کرے تو کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ٹیلی  فون  کی گھنٹی بجتی ہے تو ان کی بلا سے ۔۔۔۔

بعض شوہر حضرات تو فٹ بال میچ شروع ہوتے ہی ٹیلی فون کنکشن آف کر دیتے ہیں ۔کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔۔۔

1950 کے شروعات میں جب ٹی وی عام ڈچ گھرانوں میں کسی  کے پاس نہیں  تھا  تو اس وقت 40 فیصد سے زائد گھروں میں شام کے وقت آپس   کی بات چیت   کے لیے  وقف ہوتا تھا اس کے بعد جوں جوں ٹی وی گھروں میں در آنے لگا  توں توں خاندانوں کا آُس میں گفتگو اور بحث مباحثہ کا در بند ہونے لگا ۔اس کے بعد 1978 میں جب ٹیلی ویژن کی ہر گھر میں موجودگی لازمی ہوچکی تھی ،یہی شرح کم ہو کر 40 فیصد سے 31 فیصد ہوچکی تھی۔

1950 اور 1970 کے عشرے کا آج اگر تغافل کیا جائے تو آج بہت سے گھرانوں میں ایک سے  زیادہ ٹی وی سیٹ موجود ہیں ۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہر فرد کے کمرے میں ایک ٹی وی سیٹ موجود ہے جس کے باعث بہت سے جوڑے ااور خاندان  کے افراد آپس میں گفتگو کے حوالے سے مزید خوموش ہوگئے ہیں ۔

چلتے  چلتے میرے اس کالم کے حوالے سے ایک لطیفہ حاضر  خدمت ہے ۔۔۔

ایک صاحب ٹی وی اور ریڈیو اٹھائے جلد  جلد قدم بڑھاتے  سمند ر کی طرف جارہے تھے ۔راستے میں ایک دوست نے پوچھا ۔۔۔بھئی کیا ماجرا ہے ؟

خود کشی کرنے جارہا ہوں ۔۔۔۔ انہوں نے جواب دیا

لیکن یہ ٹی وی،ریڈیو  ریکارڈر ساتھ لے جانے کے کیا معنی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں ۔۔۔۔ انہی کے ساتھ ڈوبوں  گا ۔۔۔ میری بیوی مجھ سے نہ سہی کم از کم ان چیزوں کی محرومی پر تو  ماتم کرے گی !

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply