• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • واشنگٹن، بیجنگ، دہلی، اسلام آباد اور کابل۔۔اشفاق احمد

واشنگٹن، بیجنگ، دہلی، اسلام آباد اور کابل۔۔اشفاق احمد

الاسکا میں ہونے والی امریکی اور چینی وزرائے خارجہ کی میٹنگ اور اس سے پہلے دونوں جانب سے تندوتیز بیانات کے تبادلے نے بہت سوں کو سویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کی یاد دلا دی۔
سرد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ دونوں طرف صف بندی جاری ہے۔ نئے اتحاد قائم ہو رہے ہیں اور پرانے اتحادی اپنے اپنے مفادات کے مطابق نئی صف بندیوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

کواڈ ایک ایسا ہی الائنس ہے جو چین کے گھیراؤ کی خاطر تشکیل دیا گیا ہے۔ کواڈ سارک یا نیٹو کی مانند کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے۔ یہ جاپان، آسٹریلیا، بھارت اور امریکا کے درمیان سفارتی اور غیرسفارتی سطح پر قائم ایک مضبوط اشتراک عمل کا نام ہے، جس کا واحد مقصد ان سب ممالک کو چین سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملیاں وضع کرنا اور ان پر عملدرآمد کرنا ہے۔

الاسکا سے پہلے کے دو تین ہفتوں میں امریکی قیادت کواڈ کے دیگر تین ممالک سے مسلسل رابطے میں رہی۔ بلنکن کا خطے کا دورہ، صدر جو بائیڈن کا پہلے کواڈ سمٹ سے خطاب۔ ان کی بھارتی اور جاپانی قیادت سے طویل ٹیلیفونک مشاورت۔ ان سب اقدامات کا مقصد چین کے ساتھ ڈیڑھ سال بعد ہونے والے اعلیٰ سطحی مذاکرات سے پہلے خطے میں اپنے اتحادیوں کا تعاون حاصل کرنا تھا۔
یہ تعاون ملنے کے بعد ہی بلنکن نے الاسکا اجلاس کے آغاز پر وہ جارحانہ تقریر فرمائی جس میں چین کی خارجہ پالیسی، اس کی سائبر وارفیئر اور جارحانہ تجارتی پالیسیوں پر تنقید کی گئی۔ اس پر یہ واضح کر دیا گیا کہ اسے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بنائے ہوئے رولز آف گیم پر عمل کرنا ہوگا۔

بلنکن کے چینی ہم منصب کا جوابی بیان امریکیوں کی توقع سے بھی زیادہ سخت تھا۔ چین نے ایک تو امریکیوں کو اپنے ہمسایوں کا نمائندہ سمجھنے سے صاف انکار کیا۔ دوسرا یہ واضح کیا کہ کسی کو تکلیف ہے تو براہ راست چین سے بات کرے۔ تیسرا اور اہم ترین نکتہ چینی وزیر خارجہ نے یہ اٹھایا کہ رولز آف گیم طے کرنے کا اختیار امریکا یا اس کے اتحادیوں کے پاس نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے پاس ہے۔ نیز یہ کہ چین امریکا کے بنائے ہوئے رولز پر نہیں کھیلے گا۔ چینی صدر کی گزشتہ سال کی ایک تقریر کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب چین نے صاف کھلے الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ امریکا کو دنیا کا وڈا ماما ماننے سے صاف انکار کرتا ہے۔

اس تندوتیز جھڑپ کے بعد ہونے والے مذاکرات کا انجام ناکامی ہی ہو سکتا تھا۔ اشک شوئی کیلئے ماحولیات پر کچھ اتفاق رائے کا اظہار کر دیا گیا۔ ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر بھی دونوں ملکوں میں عمومی اتفاق رائے پایا گیا۔

الاسکا میٹنگ کے دوسرے ہی دن جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ بھارت تشریف لائے۔ یاد رہے کہ جنوبی کوریا بھی عنقریب کواڈ کا باقاعدہ ممبر بننے جا رہا ہے۔ بلنکن کے دورہ جنوبی کوریا میں دونوں ممالک اس پر متفق ہو چکے ہیں۔ کوریا کے وزیر سے اگلے ہی روز یعنی الاسکا میٹنگ کے چوتھے دن امریکی وزیر دفاع بھارت پہنچ گئے۔ بھارتی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے بعد انہوں نے کابل کا ہنگامی دورہ بھی کیا۔

کواڈ کے رکن ممالک مشترکہ فوجی مشقیں بھی کر چکے ہیں۔ اور پہلے کواڈ سمٹ کے بعد ان ممالک کے سربراہان میں مزید دفاعی تعاون پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ بھارت امریکا کے بعد کواڈ کا دوسرا اہم ترین رکن ہے۔ چین کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے بعد سے بھارتی قیادت نے چین امریکا تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کی اپنی حکمت عملی ترک کر دی ہے۔ اب چین کے ساتھ تناؤ بڑھنے کی صورت میں بھارت خطے میں امریکا کی سائیڈ کک کا کردار ادا کرے گا۔

جب یہ سب کچھ چل رہا تھا تو اسی دوران “اسلام آباد ڈائیلاگ” بھی جاری تھا۔ سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر، رینڈ کارپوریشن کی نمائندہ خاتون سمیت تین امریکی تھنک ٹینکس کے نمائندوں نے بھی اس میں شرکت فرمائی۔ پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف کے خطاب پر سستی اور گھٹیا جگتوں کا سلسلہ تو اب تک جاری ہے تاہم سنجیدگی سے کسی نے ان بیانات کا پس منظر سمجھنے، جاننے کی کوشش نہیں کی۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کے علاوہ شاہ محمود قریشی سمیت پوری سرکاری ٹیم نے روایتی، گھسی پٹے بیانیے کی جگالی فرمائی۔ سوائے ایمبیسیڈر ایٹ لارج جناب علی جہانگیر صدیقی کے۔ علی جہانگیر صدیقی کی تقریر میں مجھے دلچسپ بات یہ لگی کہ انہوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور مشین لرننگ جیسی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے ضمن میں بھی امریکی اور چینی حکمت عملیوں کا فرق واضح کیا اور اشارہ دیا کہ ہمیں اس معاملے میں بھی چینی طریقہ کار اپنانے سے محتاط رہنا ہوگا۔

محترمہ حنا ربانی کھر اور جناب مشاہد حسین سید کی صورت میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن کو بھی ڈائیلاگ میں شریک رکھا گیا۔ گوکہ دونوں انفرادی حیثیت سے شریک ہوئے تاہم سرکاری شرکاء سے کہیں بہتر تقاریر انہی کی رہیں۔ حنا ربانی کھر صاحبہ نے بروقت مشورہ دیا کہ کوئی نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کی کوششوں میں کود پڑنے کی بجائے بہتر ہے کہ ہم اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھیں۔ مشاہد حسین سید پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے بھی بروقت تنبیہہ فرمائی کہ چین کو نظر انداز کر کے امریکا سے دوبارہ پینگیں بڑھانا نامناسب اور نقصان دہ ہوگا۔
چین کو مجموعی طور پر اسلام آباد ڈائیلاگ میں نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ ایک چینی یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب مدعو تھے، خارجہ تعلقات جن کا شعبہ ہی نہیں ہیں۔ اسلام آباد میں خطے کی تزویراتی صورتحال پر ڈائیلاگ چل رہا ہو اور چین اس سے عملاً غیرحاظر ہو۔ تو اس سے حکومت پاکستان کی مستقبل کی منصوبہ بندی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

چین کی عدم شمولیت اور بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی اعلیٰ ترین سطح پر پائی جانے والی خواہش، دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کو امریکا اور چین کے درمیان ہونے والی صف بندی کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

سوچا یہ گیا ہے کہ اگر پاکستان کو بھارت سے جو خطرات یا تحفظات لاحق ہیں، ان کا ازالہ کر دیا جائے تو پاکستان کو چینی کیمپ سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اور ساتھ ہی بھارت کو بیک وقت دو سرحدوں پہ کشیدگی سے نکال کر یکسوئی سے چین پہ توجہ مرکوز رکھنے پہ مائل کیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں عملی اقدامات ہونا شروع ہو گئے ہیں اور مزید آپ کو ہوتے دکھائی دیں گے۔ اب بھارتی میڈیا بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں نرم پڑتا دکھائی دے گا۔ ان کی حکومت کی جانب سے بھی برف پگھلتی دکھائی دے گی۔ اس کا ایک ثبوت سیز فائر ہے اور دوسرا آبی تنازعات کے حل کیلئے پاکستانی وفد کی بھارت میں موجودگی۔ چند ماہ پہلے تک یہ دونوں کام ناممکن دکھائی دے رہے تھے۔

اس عمل سے پاکستان کو افغانستان میں امریکا کو مطلوب خدمات کی فراہمی میں بھی مدد ملے گی۔ جس طرح چین کے معاملے میں کواڈ سرگرم عمل ہے۔ ویسے ہی افغانستان کے معاملے میں ٹرائیکا پلس، یعنی امریکا، روس، چین اور پاکستان کا غیررسمی اتحاد۔ افغانستان کی حد تک بھارت کو بیک سیٹ پہ بٹھا کر امریکیوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ ماسکو کانفرنس میں تیسری بار بھارت شریک نہیں ہوا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے بالکل ہی باہر کر دیا گیا ہو۔ اقوام متحدہ کے تحت ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں بھارت اور ایران دونوں شریک ہوں گے۔ امریکا اور روس دونوں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد جو بھی حکومتی بندوبست تشکیل پائے، بھارت اسے اپنے مفادات کیلئے خطرہ نہ سمجھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے لگ رہا ہے کہ ہمیں ایک تو خطے میں بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے پر قائل کر لیا گیا ہے۔ دوسرا ہم چین سے بتدریج دور اور امریکا سے بتدریج نزدیک ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سو بار چین اور امریکا میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ملے تو اس کا ہزار بار انتخاب امریکا ہوگا۔
ایسا کیوں ہے؟ اور اس کے کیا فائدے اور نقصانات ہو سکتے ہیں؟ ان پہ آپ غور فرماتے رہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply