حسینہ معین دنیا سے چلی گئیں ۔۔احمد سہیل

ڈرامہ نگار حسینہ معین نے کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین کا ٹیکہ کچھ دن پہلےہی لگوایا تھا۔ مگر یہ افسوسناک خبر اچانک ملی کہ حسینہ معین کا انتقال ہوگیا۔

حسینہ معین سے میری پہلی ملاقات 1967 میں اردو کی ادیبہ حمرا خلیق کے گھر میں ہوئی تھی (حمرا آپا مشہور ترقی پسند شاعر اور فلم نویس خلیق ابرہیم خلیق کی اہلیہ اور اردو کے شاعر اور دانشور حارث خلیق کی والدہ ہیں)۔ حسینہ معین بہت دلچسپ گفتگو کیا کرتی تھیں، خاص کر معاشرتی، ثقافتی ، سیاسی مسائل اور حقوق نسواں سے لے کر ادب اور ڈرامہ پر بڑی کمال کی بحث کیا کرتی تھیں۔

حسینہ معین ایک مشہور پاکستانی ڈرامہ نگار اور رائٹر ہیں۔ ان کی ولادت 1941ء میں ہندوستان کے شہرکانپور میں ہوئی ۔ ۔  انہوں  نے ابتدائی تعلیم کانپور سے ہی  حاصل کی۔ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے پاکستان آگیا۔ وہ کافی سالوں تک راولپنڈی میں رہیں، پھر لاہور چلی گئیں اور 1950ء میں کراچی میں مقیم ہو گئیں۔ انہوں نے1960ء میں گورنمنٹ کالج فار وومن سے گریجویشن کی، پھر اُنہوں نے جامعہ کراچی سے 1963ء میں تاریخ میں ایم اے کیا۔۔ وہ کافی سالوں تک راولپنڈی میں رہیں، پھر لاہور چلی گئیں اور1963ء میں   حسینہ نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پاکستان ریڈیو کے لیے درجنوں ڈرامے لکھے جن میں سے کئی ڈرامے پاکستان کے علاوہ کئی ممالک میں پیش کیے جاتے رہے اور پسند کیے جاتے رہے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ”زیر زبر پیش، تنہائیاں، پرچھائیاں ، کرن کہانی انکل عرفی، بندش دھوپ کنارے ، آہٹ ، کسک ، پل دو پل اور تیرے آ جانے سے وغیرہ شامل ہیں

انہوں نے کامیڈی ڈرامہ ’عید مبارک‘ سے ڈیبیو شروع کیا، جس میں نیلو فر علیم اور شکیل نے کام کیا، ان کے طویل ڈرامے ’شہزوری‘ نے بہت کامیابی ملی ، جو انہوں نےعظیم بیگ چغتائی کے ناول سے متاثر ہوکر اسی نام سے لکھا، اور اس میں بھی نیلو فر علیم { عباسی} نے مرکزی کردار ادا کیا۔

انہوں نے واہگہ بارڈر کے مسائل پر بھی ڈرامے اور سیریلز لکھے،ان کے ٹیلی پلے’انکل عرفی‘ میں جمشید انصاری کے کرداراور ان کی جانب سے بار بار بولے جانے والے مکالمہ ’چاقو ہے میرے پاس‘ ہر عمر کے  ناظریں کی زبان سے سنا جانے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

حسینہ معیں نے فلم کے لیے بھی لکھا ۔ اُنہوں نے راج کپور کی درخواست پر ہندی فلم حنا کے مکالمات خواجہ احمد عباس کے ساتھ لکھے تھے۔ لیکن ہندوستانی معاشرے کی فضا مسلمانوں کے لیے کبھی ہموار نہیں رہی، اس متعلقہ فلم کی نمائش کے دنوں میں وہاں بابری مسجد تنازع  بھی رونما ہوا، جس کی وجہ سے حسینہ معین کو فلم سے بھی دستبردارہونا پڑا ۔ پھر اُنہوں نے ایک پاکستانی فلم “کہیں پیار نہ ہو جائے” قلم بند کی۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی فلم نزدیکیاں اور وحید مراد کی فلم یہاں سے وہاں تک کے مکالمات بھی لکھ چکی ہیں۔ ۔۔۔اس کے بعد عثمان پیرزادہ کے لیے لکھی گئی فلم’’نزدیکیاں‘‘ اور جاوید شیخ کے لیے لکھی گئی فلم’’کہیں پیار نہ ہوجائے‘‘تھی۔ ان تمام فلموں کی کہانیاں اپنی اپنی جگہ دلچسپ اور تخلیق سے بھرپور تھیں، جن کو ناظرین نے پردہ اسکرین پر پسندیدگی عطا کی۔وہ ڈرامائی فن سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کرتی رہتی تھی۔ حسینہ معین نے اپنے ایک مصاحبے میں کہا تھا ۔ “مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ڈرامہ آرٹ کی شکل سے نکل کر نوٹنکی بن چکا ہے ۔غیر ملکی اردو ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں حسینہ معین نے کہا کہ ماضی میں ایک ڈرامے میں دکھایا گیا کہ لڑکی شادی کیلئے نہیں مانتی تو لڑکا اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے ، یہ منظر دیکھنے کے بعد بہت سارے ایسے واقعات ہوئے تھے ، اس لئے ہمیں ایسی چیزوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ بری سے بری بات کو بھی سلیقے سے کہا اور دکھایا جا سکتا ہے بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ٹی وی کو ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے ، بچے بڑے بوڑھے ہر کوئی ڈرامے دیکھتا ہے اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی چیز کا اثر دیرپا ہوتا ہے ۔ لوگ جو دیکھتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دور حاضر کے ڈراموں اور ان پر ہونے والی تنقید اور پابندیوں کے حوالے سے حسینہ معین نےکہا کہ چینلز کا کام تو اب جیسے صرف پراڈکٹ بیچنا ہی رہ گیا ہے ، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔”
حسینہ معین کا انتقال جمعے کی صبح 26 مارچ 2021 کوہوا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply