اپنے ہی ملک میں زباں نابلد(3)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ہوا یوں تھا کہ بلال کوچ نام کی ویگن جب پشاور موٹر وے پہ چڑھی تو راشد نے ایک سیلفی بنائی جسے میں نے اس سے مانگ لیا اور ساتھ میں عنوان دے کے فیس بک پہ پوسٹ کر دیا، جس پہ ایک فیس بکی دوست سید کاشف باچہ نے لکھا کہ یہ تو آپ ہمارے شہر جا رہے ہیں چنانچہ آپ وہاں ہمارے گھر ضرور جائیے گا البتہ میں تعلیم کیے سلسلے میں پشاور میں ہوں۔ یوں جانیں جیسے پیر بابا، بونیر اور پشاور میں آپ کے اپنے گھر ہیں اور آپ کا ایک اور بیٹا بھی۔
اتنے لگاؤ اور خلوص سے دی دعوت کو رد کرنا بعید از اخلاق ہوتا۔
باچہ یعنی بادشاہ جو پختون علاقوں میں سیدوں کا لقب ہے اور انتہائی قابل تکریم جانے جاتے ہیں، کے ایک فرد کی تصویر دیکھ کے راشد نے کہا کہ آپ ان سے زید کا نمبر مانگ لیں جو ان کے بڑے بھائی اور میرے دوست ہیں۔ ان کا اور ہمارا کنبہ آپس میں شیر و شکر ہے۔ میں نے جیسا کہا ویسا کیا، جواب میں عزیزی کاشف نے اپنے والد محترم کا فون نمبر لکھ بھیجا۔
راشد نے سوچا ہوگا کہ جب پہنچے گا تو فون پہ ملاقات بارے طے کر لے گا مگر پندرہ بیس منٹ بعد راشد کے فون کی گھنٹی بجی۔ راشد نے ہیلو کہا پھر مودب ہو کر پشتو میں جی جی کہتا رہا۔ گرچہ میں پشتو کا واحد لفظ خا ہی سمجھتا ہوں مگر مجھے اندازہ ہوا جیسے اس نے آخر میں بسروچشم کہا ہو۔ اس کے فون بند کرتے ہی میں نے پوچھا کیا کاشف کے والد کا فون تھا اور راشد نے دیکھیں کہہ کے حیرت سے آنکھیں پھیلائی تھیں۔
تو ہم باچہ صاحب کے ہاں، دو کلومیٹر دور پیدل جانے کو نکلے تھے۔ سڑک اور گاؤں کے درمیان ایک کافی چوڑے نالے کا پل تھا جس کے کنارے کی دیواروں پہ نوجوان بیٹھے گپ کر رہے تھے یا فون سیٹس میں کھبے تھے۔ بساند اس نالے سے آ رہی تھی جس میں پہاڑوں سے اترے بارش کے شفاف پانی کی بجاۓ گاؤں کی نالیوں سے آیا غلیظ پانی ٹھہرا ہوا متعفن ہورہا تھا۔ میں نے ناک ڈھانپ لی تھی۔
آبادی کے پھیلاؤ اور انفراسٹرکچر کے یکسر فقدان کے سبب کراچی جیسے بڑے شہر کی امراء کی آبادی والے علاقے کلفٹن سے لے کر بونیر کے دو ہزار کی ابادی والے گاؤں پیر بابا بٹئی تک متعفن گندے پانی کے نالوں سے نہیں بچے ہوئے۔
ایک بار پھر مجھے اپنا وہی تھیسس یاد آیا جس کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ جب تک ملک میں آبادیوں کی گندی نالیاں صاف نہیں ہونگی تب تک لوگوں کے اذہان بھی مصفٰی نہیں ہونگے اور مسموم رہیں گے۔ مگر اب ہم سڑک پہ چڑھ آئے تھے جہاں فضا صاف تھی۔
جب سے پاکستان آیا ہوں تب سے اب تک ماسوائے ایک ہفتہ اپنے ابائی گھر کے عقبی باغیچے میں طویل چہل قدمی کرنے کے میں نے مناسب ماحول نہ ملنے کے سبب اپنی سیر ترک کی ہوئی ہے، اوپر سے روزہ کھولتے ہی کھانا بھی کھایا ہوا تھا چنانچہ دو کلومیٹر چل کے ہی کچھ سانس پھولی ہوئی سی لگنے لگی تھی۔
ہم قصبہ پیر بابا پہنچ گئے تھے۔ تراویح کی نماز کے سبب ننانوے فیصد دکانیں بند تھیں۔ ہم سڑک سے مڑ کے ایک گلی میں چند قدم چلے پھر ایک ادھ کھلے دروازے کے سامنے کی سیڑھیاں چڑھ کے اندر پہنچے تو سامنے دس بارہ مرلے کا عرض کے غیر یکساں حصوں والا خالی صحن تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب پانچ چھ قدم کے فاصلے پر ایک زینہ تھا جو چڑھ کے ہم اوپر پہنچے تو بالائی صحن کے سامنے وسیع برامدے سے دو تین نوجوانوں نے بڑھ کر کے ہمارا استقبال کیا۔ پرآمدے میں آمنے سامنے دو چارپائیاں بچھی تھیں جن پر مقامی روایت کے مطابق تکیے دھرے تھے۔ ایک بغیر تکیوں والی چارپائی ان دو چارپائیوں سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب تھی۔ دائیں جانب دو کرسیاں دھری تھیں۔
برامدے کے پار دو بڑے کمروں، جن کے روغن کیے بڑے بڑے دروازے کھلے تھے، میں سے دائیں جانب کے پہلے کمرے کی دیوار کی کھڑکی کے ساتھ بچھی چارپائی کے گاؤ تکیوں سے کمر ٹکائے اور پاؤں لٹکائے ایک وجیہہ اور بارعب شخص بیٹھے تھے جو تب کھڑے ہوئے جب ہم استقبال کرنے والے نوجوانوں سے ہاتھ ملا اور گلے لگنے کے بعد برامدے میں پہنچے تھے۔ میں نے اور راشد نے یکے بعد دیگرے ان سے مصافحہ اور معانقہ کیا تھا۔ پھر ان کے اشارے اور دعوت پر ان کے سامنے بچھی چارپائی پہ ٹانگیں لٹکا کے بیٹھ گئے تھے۔
ظاہر ہے وہ کاشف کے والد محترم تھے اور نوجوان کاشف کے بڑے بھائی، جو تیسری چارپائی پہ بیٹھ گئے تھے۔ باچہ صاحب نے بیٹھتے ہی فرمایا کہ کاشف نے ہاہا کار مچا دی، ایک انتہائی معزز شخصیت مہمان ہو رہی ہے جن کی خاطر خواہ پذیرائی کی جائے۔ ان کے لہجے میں بے یقینی کی وہی للک تھی جو چھوٹے بیٹے کی بات میں مبالغہ آرائی بارے شک سے پیدا ہوا کرتی ہے۔
پھر ہمارے سامنے کاغذی باداموں، پستہ اور اخروٹ پلیٹوں میں لا کر دھرے گئے۔ ساتھ میں اخروٹ شکن اوزار بھی۔ پھر گفتگو شروع ہو گئی۔ روس یوکرین قضیہ بارے میرے مفصل بیان کے بعد ان کو کاشف کے کہے پر شک نہیں رہا تھا۔ اب ہم چائے پی رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس علاقے میں نیشنل عوامی پارٹی کی بیماری درحقیقت راشد امین کے دادا لے کر آئے تھے۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ خود نیپ کے رہنما ہیں اور اسے بیماری بھی بتا رہے ہیں تو ہنس کے بولے، ارے صاحب ہے تو بیماری ہی۔ پھر اپنی اصل بیماری سے متعلق بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ میں رو بہ صحت ہوں۔ پہلے مجھے ہر تین ماہ بعد معالجے کی خاطر لاہور جانا ہوتا تھا مگر اب چھ ماہ بعد جانا ہوتا ہے۔
میں نے انہیں سیاست سے فراغت کے ان ایام میں آپ بیتی لکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر آپ خود نہیں لکھنا چاہتے یا نہیں لکھ سکتے تو ہمارے دوست زاہد کاظمی ان کے ہاں پہنچ کر یا جب وہ معالجے کی غرض سے لاہور میں مقیم ہوں تو مل کر ریکارڈ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے میرا اور زاہد کا نمبر مانگا۔ میں نے دونوں نمبر دینے کے علاوہ فون پر ان کی زاہد کاظمی سے بات بھی کروا دی جو سید باچہ لوگوں بارے زاہد کے علم کے سبب کئی منٹوں پر محیط رہی تھی۔
سید لائق باچہ صاحب نے میرے جانے کی اجازت طلب کرنے پر مجھے دو مرتبانوں میں بھرا مقامی شہد بطور تحفہ عنایت کیا اور میرے روکنے کے باوجود زینہ اتر کے دروازے تک مجھے الوداع کہنے اور پھر سے مہمان ہونے کی دعوت دینے پہنچے۔ سید کاشف باچہ، ان کے والد سید لائق باچہ اور ان کے بھائیوں کے لیے تشکر اور محبت۔
جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply