انقلاب اپنی افتاد میں سراسر زیاں ہے۔۔۔عمر خالد

ایک محترم شخصیت کا اثناء گفتگو خیال تھا کہ موجودہ نظام اپنی شکست و ریخت کی انتہاؤں کو چھو رہاے۔ سماج کے ہر خانہ میں ایک مہلک ناسور سرایت کرچکا ہے۔ ان سارے بحرانوں پر حضور والا کی آخری تان سیاست دانوں پر ٹوٹ گئی۔ اور تڑ سے معجزاتی حل بھی پیش فرمادیا جسے عرف عام میں انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب کا لپکا ہمارے لوگوں کو اس قدر کیوں ہے؟ وہی عظمت رفتہ کا طلسم، لاشعور میں پیوست ہے۔ حالات کی ناؤ ذرا ڈگمگاتی ہے کہ انقلاب کے ٹمٹماتے چراغ میں ابال آجاتا ہے۔

انقلابی نفسیات کا شجر، تعمیر کے آنگن میں نہیں اگتا۔ تعمیر مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ اسی طرح تخلیق صبر آزما، طویل مدتی اور پیہم مشق کی محتاج ہے۔ تعمیر و تخلیق انسانوں کے درمیان باہمی مطابقت کی عملداری، نئے امکانات کی کھوج، ایک دوسرے سے تعاون، اور مکالمہ و بات چیت سے معاملات آگے بڑھانے کا نام ہے۔

انقلاب کے دوڑتے لہو میں ہنگامہ خیز ہیجان ہے۔ جنگجویانہ ذہنیت کی زمین میں یہ فصل لگائی جاتی ہے۔ جنگ تباہی و تخریب پیدا کرتی ہے۔ بندوق کی نال میں پھول نہیں اگتے۔ یہ محبت کی قاتل ہے۔ جنگ انسانی المیہ کی داستان ہے۔ طاقت، نفرت اور انتقام سے بپھری ہوئی دوزخ ہے۔ جنگ اندھی ہوتی ہے۔ اصول، اخلاق اور محبت میں تفریق نہیں کرتی۔ جنگ کی کوکھ سے صرف تباہی و بربادی جنم لیتی ہے۔

انقلاب اور فاشزم میں گہرا اشتراک ہے۔ مخالفین کی بیخ کنی کا عزم، نعرہ پرور یکجہتی کا غلغلہ، سیاسی آزادی سے دشمنی، اور معاشی دخل اندازی کا جنون۔ انقلابی ذہنیت سراسر بے زاری و مایوسی کا رد عمل ہے۔ انقلابی سمجھتا ہے اسٹیج کے کردار بدلنے سے دریا رواں ہوجائے گا۔ تبدیلی کا نعرہ بھی اسی ذہن کی بازگشت ہے۔ دونوں کو مسیحاوں کا انتظار ہوتا ہے۔ مسیحائی کی امنگ میں حاکم ومحکوم اور راعی و رعایا کا تکنیکی جوہری فرق نہاں ہے۔ جہاں لوگوں کی رائے اور اجتماعی دانش غیر معتبر ہیں۔

جنگ اور انقلاب کا شوق نفسیات کا حصہ یوں ہی نہیں بنتی۔ عہد رفتہ کی فتوحات، دشمنوں کو زیر کرنے کی ہوک، اور اپنی عظمت کے مجسمہ نصب کرنے کی خواہش کا لپکا ہے۔
انقلابی ہلڑ بازی کے شوق میں ایک وجہ سیاسی محرومی اور معاشی ابتری بھی ہے۔ سیاسی محرومی کا احساس زیاں تو خیر شعور کی گرفت میں ہی نہیں۔ معاشی ابتری کی کسک ایسی تیز ہے کہ بے ساختہ اور مکرر منہ سے احتساب نکلے جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ تو یہ ہے کہ انقلاب محض ایک استحصالی طبقہ کو ہٹا کر نئے کرداروں کی رونمائی کا نام رہا ہے۔ جنہوں نے اپنے پیشرؤوں سے بڑھ کر مطلق العنانی کے کرشمے  بکھیرے۔
انقلابی نفسیات درحقیقت عجلت پسندی، ناعاقبت اندیشی، اور تاریخی حرکیات سے ناشعوری کی نشانی ہے۔ شارٹ کٹ کی تلاش، فوری نتائج، اور جذباتیت و رومانویت کی علامت ہے۔
انقلابی تبدیلی ایک جھوٹا اور پرفریب تاثر ہے، یہ ایک لاحاصل نشہ ہے۔ یہ اپنی طبع میں سراسر زیاں ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ کی غیر متوازن موجوں کا نام ہے۔ انقلاب اپنی یافت میں محض جنگ، تباہی اور تخریب کا نقارہ ہے۔

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply